تبریز کے قتل میں پولیس اور ڈاکٹر دونوں شریک

حفیظ نعمانی

جھارکھنڈ کے تبریز انصاری مرحوم کی خبر جس اخبار میں بھی شروع ہوتی ہے اس کی ابتدا چوری کے شبہ میں یا چوری کے معاملہ میں سے شروع ہوتی ہے اور پوری خبر میں ایک موٹر سائیکل کا ذکر آجاتا ہے۔ جبکہ اگر معاملہ چوری کا تھا تو پہلے یہ بتایا جاتا کہ موٹر سائیکل کس کی تھی اور تبریز نے اسے کہاں سے اٹھایا اور اس موٹر سائیکل کے ساتھ کن لوگوں نے اسے پکڑا اور موٹر سائیکل کا نام کیا ہے اور اب وہ کسی تھانہ میں جمع ہے اور اس کا نمبر کیا ہے؟

صرف چوری کا شبہ اور چوری کا معاملہ کہہ کر ختم کردینا اور ٹی وی چینل پر بس یہ دکھانا کہ جھاڑیوں کی آڑ میں کوئی کھمبے سے بندھا ہوا ہے اور کوئی موٹا تازہ بدمعاش کسی چیز سے مسلسل مار رہا ہے اور جسے مار رہا ہے وہ ہر چوٹ کے بعد پہلو بدلتا ہے۔ اگر اس طرح کی حرکت تھی یعنی اس نے موٹر سائیکل چرائی تھی تو ایک بار تو اس موٹر سائیکل کو دکھانا چاہئے تھا۔ اور اگر تبریز کو موٹر سائیکل کے ساتھ پکڑا تھا تو اسے کھمبے سے باندھ کر رات بھر مارنے اور اس سے جے شری رام اور جے ہنومان کا جاپ کرانے کا کیا مطلب، کیا اس موٹر سائیکل کا رام جی سے کوئی رشتہ تھا یا ہنومان سے رشتہ تھا؟ اور یہ موٹر سائیکل ان کی تھی جسے ایک مسلمان لڑکے نے چرانے کی ہمت کی تھی؟

جب چاروں طرف سے جھارکھنڈ کی حکومت اور وزیراعلیٰ کی ناکامی پر تھو تھو ہوا تو وزیراعلیٰ کو میدان میں آنا پڑا اور انہوں نے قانونی کارروائی میں اب تک جو کچھ کیا ہے وہ بتایا اور اس کا خاص طور پر ذکر کیا کہ انہوں نے سب کچھ تیزی سے کرایا۔ وہ جو کہیں وہ جانیں لیکن خبر کے الفاظ یہ ہیں کہ پولیس کو بروقت خبر کرنے کے باوجود وہ جائے واردات پر کئی گھنٹے بعد پہنچی اور اس درمیان تبریز کی پٹائی مسلسل ہوتی رہی۔ یہ وہ خبر ہے جسے غلط نہیں کہا جاسکتا کیا تبریز کی موت کا سبب یہ نہیں ہوسکتا؟ اور اس تھانہ کی پوری پولیس پر 302  کے تحت مقدمہ قائم کیا جائے؟ خبر میں کہا گیا ہے کہ فی الحال اس معاملہ میں اس دن ڈیوٹی پر تعینات تھانہ انچارج سمیت کئی پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔ ہماری زندگی کے پچاس برس اسی میدان میں گذرے ہیں۔ اگر بات صرف معطل کرنے کی ہو اور ان پر مقدمہ قائم نہ ہو تو صرف یہ اعتراض کرنے والوں کا منھ بند کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اور جب شور ختم ہوجاتا ہے تو سب کو بحال کردیا جاتا ہے۔

حکومت نے تبریز کے حادثہ کی تحقیقات کے لئے دو کمیٹیاں بنائی تھیں ان میں سے ایک کمیٹی ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی جس میں وہاں کے سول سرجن بھی شریک تھے اس رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ تبریز انصاری کی موت کے لئے وہ چوٹ بھی ذمہ دار ہوسکتی ہے جو اس کے سر پر لگی جس سے اس کے دماغ کی نس پھٹ گئی اور برین ہیمبرج ہوگیا ڈیوٹی پر موجود کسی بھی ڈاکٹر نے تبریز کے باربار کہنے کے باوجود اس کا طبی معائنہ نہیں کیا اور جیل جانے کے لئے اسے فٹ قرار دے دیا۔ یہ بات سماجی کام کرنے والا ہر آدمی جانتا ہے کہ سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر۔ ڈاکٹر نہیں ڈاکو ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سرکاری اسپتال میں وہ ہوتا ہے جو ننگا بھوکا ہوتا ہے وہ ان کے رحم و کرم پر ہے۔ وہ زندہ رہے تو کیا اور مرجائے تو کیا ہم نے خود 9  مہینے جیل میں رہ کر دیکھا ہے کہ جیل کا ڈاکٹر صرف ان کو اسپتال میں بھرتی کرتا ہے جس کے گھر والے مٹھی میں نوٹ دبا دیتے ہیں پھر اسے گھر کا کھانا اسپتال کا دودھ اور ضروری دوائیں سب مل جاتی ہیں ورنہ جو کوئی مرنے کے قریب ہوتا ہے تو اسے شہر کے کسی بڑے سرکاری اسپتال میں منتقل کردیا جاتا ہے۔

ہر جیل کا دوائوں اور پرہیز کے لئے لاکھوں روپئے کا بجٹ ہوتا ہے۔ وہ کمپنیاں دوائیں نہیں لاتیں صرف بل لاتی ہیں اور اس رقم کو تین حصوں میں بانٹا جاتا ہے ایک سپرنٹنڈنٹ ایک جیلر اور ایک ڈاکٹر۔ رہیں وہ دوائیں جو سب سے سستی ہوتی ہیں وہ تھوڑی سی رکھ لی جاتی ہیں۔ جن حضرات نے ہماری روداد قفس پڑھی ہوگی انہیں یاد ہوگا جس دن ہم گرفتار ہوئے اس کے دوسرے دن ہمارے دوست کھڑک سنگھ مسٹر شیام لال کو لئے ہوئے ہم سے ملنے آگئے اور ملاقات اس لئے ہوگئی کہ شیام لال جیل میں فنائل سپلائی کرتے تھے اور اس کا وہی طریقہ تھا جو دوائوں کا تھا۔ شیام نے سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ میں حفیظ کے لئے ایک بڑا ڈبہ فنائل کا الگ بھیج دوں گا جیلر صاحب نے کہا کہ کوئی ضرورت نہیں ہم صفائی جمعدار سے کہہ دیں گے وہ نعمانی صاحب کے لئے الگ صفائی کردے گا۔

تبریز کے مسئلہ میں جو لوگ بھی مقدمہ کو اپنے ہاتھ میں لیں ان کا فرض ہے کہ وہ ملزموں کو جتنی سزا دلا سکتے ہوں دلادیں لیکن جتنے پولیس والے ہیں اور تینوں ڈاکٹروں پر قتل کا مقدمہ چلانے کی ضرور کوشش کریں۔ اور اس بات کو ضرور پکڑیں کہ موٹر سائیکل کہاں ہے جس کی چوری کا الزام ہے اور اس کا رام جی اور ہنومان سے کیا تعلق ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔