جمعہ کی نماز میں رخنہ اندازی کا فتنہ ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے

ندیم عبدالقدیر

کئی  خودساختہ مسلم دانشورانِ قوم، جاہل مسلم مفکر ین اور کم عقل مسلم مدبر ین ہمیشہ اس بات پر ناز اں رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں جتنی آزادی حاصل ہے اتنی آزادی اسے کہیں بھی حاصل نہیں ہے۔ بے شمار پروگراموں میں اسٹیج سے اس قسم کے  افراد یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے۔

آزادی کے پیمانے کے طور پر یہ خودساختہ قسم کے دانشوران حضرات جو مثالیں پیش کرتے ہیں وہ  مضحکہ خیزہیں ۔ مثلاً ایک مثال یہ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی آزادی ہے۔ ایک مثال یہ کہ مسلمان ۱۲؍ربیع الاول پر جلوس نکال سکتے ہیں، ایک مثال یہ کہ مسلمانوں کو رمضان میں روزے رکھنے کی آزادی ہے اور ایک مثال یہ کہ عیدالاضحی پر مسلمانوں کی ادائیگی ٔ قربانی پر کوئی خاص پابندی نہیں ہے۔

 اب ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے۔ اگر نماز پڑھنے کو ہی آزادی کہتے ہیں تو کیا انگریزوں نے کبھی نماز پر پابندی لگائی تھی؟، اگر جلوس نکالنے کو ہی آزادی کہتے ہیں تو کیا برٹش راج  نے کبھی جلوس پر پابندی لگائی تھی؟، بلکہ ۱۲؍ربیع الاوّل کے جلوس کی تو شروعات ہی برطانوی دور میں ہوئی تھی۔اگرعید الاضحی میں قربانی کو ہی آزادی کہتےہیں تو کیا فرنگیوں نے کبھی قربانی پر پابندی لگائی تھی، بلکہ اس وقت تو پورے ملک میں بیل اور گائے کی بھی قربانی ہورہی تھی، لیکن وارے جائیے ہمارے دانشوران کی عقل پرکہ انگریزوں کے وقت تو ہم ’غلام‘ تھے اور اب ہم ’آزاد‘ ہیں ۔ وہ بھی ایسے آزاد، کہ  دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمان اتنے آزاد نہیں ۔ایسی ہی دانشوری کےلئے علامہ اقبال نے کہا تھا۔

خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی

پختہ ہوجاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام

ادھر ہماری حکومت، سسٹم، نوکر شا ہ، بیوروکریسی، پولس اور انتہائی طاقتور ہندو انتہا پسند طاقتیں ہمیشہ اپنے عمل سے ہمیں یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ مسلمان یہاں محکوم ہے۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ جب اربابِ اقتدار ان مسلمان دانشوروں کی تقریروں کو سنتے ہونگے تو ان کے دلوں پر کیا بیتتی ہوگی۔ ہندو انتہا پسندوں کو کتنے کرب سے گزرنا پڑتا ہوگا۔ وہ سوچتے ہوں گے شاید ان کے ظلم میں ابھی کوئی کسرباقی رہ گئی ہے تب ہی یہ مسلم دانشوران اب بھی اپنے آپ کو آزاد خیال کررہےہیں ۔ ممکن ہے کہ  اربابِ اقتدار کے دلوں میں یہ  خیال بھی آتا ہو کہ ابھی مسلمانوں پر ظلم کے نئے  جہان آباد کرنا باقی، کیونکہ یہ کام ابھی ناتمام ہے۔

شاید کسی مسلم جاہل دانشور کی کسی تقریر سے ہی ہندوتوا وادیوں کو دھچکا پہنچا، اور انہیں محسوس ہوا کہ ان کی اتنی محنت کے باوجود بھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے اور اسی وجہ سے ہریانہ میں نمازِ جمعہ میں رخنہ ڈالنے کی ضرورت آن پڑی۔ ہمارا ملک سیکولر ہیں لیکن یہاں سیکولرزم  کی تشریح دنیا میں سیکولرزم کی تعریف سے تھوڑی مختلف ہے۔ یہاں مسلمانوں کی مذہبی آزاد ی پر قدغن لگانا عین سیکولرزم سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سیکولرزم میں ہندو ؤں کیلئے الگ قانون اور دیگر مذہبی اقلیتوں  مسلمان اور عیسائیوں کے لئے الگ  ضابطے ہیں ۔

ہندو جہاں چاہے وہاں پوجا کرسکتے ہیں ، مندر بنا سکتے ہیں لیکن مسلمان نئی مسجدیں نہیں تعمیر کرسکتے ہے۔ آزادی کے بعد سے بڑھتی آبادی کے تناظر میں حالانکہ مسجدوں کی ضرورت تھی لیکن سیکولر ہندوستان میں مسلمانوں کونئی مسجدوں کی تعمیر سے روکا گیااور رہے مندر، وہ تو پولس اسٹیشن کے احاطہ میں ہی وجود میں آنے لگے۔  کیا قانون، کیا آئین اور کیا سیکولرزم؟ کسی میں اتنی توانائی نہیں ہے کہ وہ ان مندروں کے خلاف کچھ کرسکے۔

ایک طرف نئی مسجدوں کی تعمیر پر پابندی اور دوسری طرف بڑھتی آبادی۔ یعنی اس طرح کا انتظام کیا گیا کہ نمازیوں کیلئے مسجدیں کم پڑنے لگیں اور نمازی مسجدوں کے باہر آجائیں ۔وہی ہوا۔ نمازی مسجدوں کے باہر آگئے اور سیکولرزم جو ہر بار مسلمانوں کی ذرا سے بات پر خطرے میں پڑ جاتا ہے اس بار بھی خطرے میں آگیا۔

 ہریانہ میں اس کی شروعات ہوگئی ہے۔  یہ وہی ریاست ہے جہاں ایک برہنہ جین سنت نے اسمبلی سے خطاب کیا تھا۔ اس وقت ریاست کے سیکولرزم پر کوئی حرف نہیں آیا لیکن مسلمانوں کے کھلے میدان میں نماز پڑھنے سے اس ریاست کا سیکولرزم خطرے میں پڑگیا ہے۔

یوگا کیلئے بڑے بڑے وزرا عوامی مقامات پر جمع ہوسکتے ہیں ۔ان میں کئی شہروں کے اہم مقامات شامل ہوتے ہیں ۔ شمالی ہندوستان میں کنواڑی یاترا کا چلن بہت عام ہوگیا ہے۔ اس یاترا میں ہندونوجوان شامل ہوتے ہیں اور عوامی مقامات پر کئی دنوں تک جلوس چلتا رہتا ہے۔ دُرگا پوجا عوامی مقامات پر کی جاسکتی ہے۔ گنپتی بھی عوامی مقامات پر بٹھائی جاسکتی ہے۔ رام نومی کے جلوس عوامی مقامات پر نکالے جاسکتے ہیں ۔ ہولی کے رنگ راہ گیروں پر ان کی مرضی کے خلاف پھینکے جاسکتے ہیں ۔ دیوالی کے پٹاخے عوامی مقامات پر، بلکہ سپریم کورٹ کے سامنے تک  جلائے  جاسکتے ہیں ۔ مختلف شوبھا یاترائیں عوامی مقامات پر نکالی جاسکتی ہیں ۔ نت نئی ہندو دھرم کی یاترائیں بھی عوامی مقامات پر نکالی جاسکتی ہیں ، لیکن نماز عوامی مقامات پر ادا نہیں کی جاسکتی ہے۔

مسلمانوں کو ہراساں کرنے  کے لامتناہی سلسلے میں یہ ایک نیا اضافہ ہوگا۔ اس فتنہ کے سر پر کھٹّر حکومت کا پدرانہ دستِ شفقت بھی ہے۔ جب سرکار ہی ظلم کی پشت پناہی پر کھڑی ہوجائے تو  کون احمق ہے جوظلم سے قدم پیچھے لے گا۔ منوہر لال کھٹر کا یہ بیان کے عوامی مقامات پر نماز نہیں پڑھنا چاہئے در حقیقت انتہا پسندوں کی ترجمانی ہے۔ ایک سیکولر ریاستی حکومت او رہندو انتہا پسندوں میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ کھٹّر نے سرکاری طور پر مسلم دشمنی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یوگا کیلئے، کانوڑی یاتراؤ کیلئے، رام نومی کے جلوس کیلئے، ہولی پر رنگ پھینکنے، دیوالی پر پٹاخے پھوڑنے اور مختلف شوبھا یاتراؤں کیلئے عوامی مقامات کے استعمال کی مخالفت میں کوئی بیان نہیں دیا۔ ان تمام بیانات اور واقعات کا ایک ہی  مقصد ہے، مسلمانوں کو نماز ادا کرنے سے روکنا ہے۔ عوامی مقامات کے استعمال کی مخالفت کا اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

ہمارے ملک میں آزادی کے بعد سے نئی مسجدوں کی تعمیر پر پابندی ہے جبکہ ہندو مندر ایسی کسی بھی بندش سے مکمل طور پر آزاد ہیں ،بلکہ اکثر کئی بڑے منادر کے افتتاح میں ملک کی آئینی عہدوں پر فائز افراد ہی حصہ لیتے ہیں ۔ جیسے ۲۰۰۵ء میں بنایا گیا نئی دہلی اکشردھام مندر۔ اس مندر کے افتتاح میں اس وقت کے صدرِ جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام بہ نفس نفیس موجود تھے۔ مجھے نہیں یاد کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اتنی بڑی شخصیت نے کسی مسجد کے افتتاح میں بھی شرکت کی ہے۔ اس کے علاوہ سومناتھ مندر کے افتتاح میں بھی اس وقت کے صدر جمہوریہ نے شرکت کی تھی۔   اسکون مندر، نئی دہلی( ۱۹۹۸ء )، اکشر دھام مندر، احمد آباد، (۱۹۹۲ء)،  سری پورم مندر، ویلور ۲۰۰۷ء وہ اہم اور بڑے مندر ہیں جو آزادی کے بعد تعمیر کئے گئے ہیں۔

 اس کے علاوہ کروڑوں ایسے مندر ہیں جو آزادی کے بعدتعمیر کئے گئے ہیں، جبکہ دوسری طرف مسجدیں شاید ہی کوئی نظر آئیں گی۔جمعہ کی نماز میں رخنہ اندازی کے اس فتنے میں ابھی اور اُبال آنا باقی ہے۔ شر پسندوں نے یہ بھی مانگ کی ہے کہ مندروں کے ۲؍کلومیٹر کے نصف قطر میں کہیں بھی نماز عوامی مقامات پر ادا نہیں کی جائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ۲؍کلومیٹر کے دائرے میں ہی دوسرا مندر ہو تو؟ اس ملک میں تو ہر ایک کلومیٹر پر مندر ہے۔ پھر نماز کہاں ادا ہوگی؟ہریانہ کی سرزمین سے اٹھنے والے جمعہ کی نماز پر پابندی کا یہ فتنہ عین ممکن ہے کہ جلد ہی پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ مسلمانوں کےلئے زمینیں ابھی اور تنگ ہونگی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔