جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے انتخابات توجہ کے مرکز!

الطاف حسین جنجوعہ

سیاست کا سکول ’Political Insitution‘مانی جانے والی جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن جموں میں بھی نئی ٹیم کے انتخابات کے لئے مہم زوروں پر ہے۔جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن جس میں صوبہ جموں کے تمام اضلاع یعنی کٹھوعہ، ریاسی ، سانبہ، جموں ، اودھم پور، کشتواڑ، رام بن، ڈوڈہ، راجوری اور پونچھ کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر اور لداخ خطہ سے تعلق رکھنے والے وکلاء یہاں وکالت کرتے ہیں ۔اگر چہ بار الیکشن ایک معمول کی سرگرمی ہے لیکن چند وجوہات کی بناء پر اس مرتبہ اس کے نتائج کافی اہمیت کے حامل مانے جارہے ہیں ، تقریباً30برس کے طویل عرصہ کے بعد ایک مسلم امیدوار جموں بار کا صدر بننے کے لئے میدان میں ہے۔ ایڈوکیٹ شیخ شکیل احمد جن کا بچپن شہر جموں کے قلبی علاقہ ’استاد محلہ‘میں گذرا ، یہی سے وہ پروان چڑھے۔1995سے وکالت کا پیشہ اختیار کرنے سے لیکر آج تک انہوں نے ہمیشہ جموں کی آواز بلند کی۔ 2008کی امرناتھ لینڈ ایجی ٹیشن میں ٹیلی ویژن چینلوں ، اخبارات میں انہوں نے جموں کی بھرپور نمائندگی کی۔ وزیر اعظم دفتر میں مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتندر سنگھ اور شیخ شکیل احمد اس وقت دوایسے افراد تھے جنہوں نے جموں کی کھل کربات کی۔اس وجہ سے شیخ شکیل مسلم طبقہ کی تنقید کا  نشانہ بھی بنے۔ شیخ شکیل کو ایک پکا محب وطن، سیکولر اور ہندوستان کے لئے مرمٹنے والا شخص قرار دیاجاتاہے لیکن جب سے وہ جموں وکشمیر بار ایسو سی ایشن صدر کے لئے انتخابی میدان میں اترے ہیں تو ان کے خلاف صرف اس بنیاد پر مہم چلائی جارہی ہے کہ وہ مسلم ہیں اور ایک مسلمان کبھی بار کا صدر نہیں بن سکتا۔بار ایسو سی ایشن جموں جس کے ممبران کی تعداد2ہزار سے زائد ہے میں 101فیصد لوگ خواندہ ہیں ، ذی شعور، باصلاحیت اور غیر معمولی ذہنی صلاحیت کے مالک ہیں ، اس باردیکھنا ہوگا کہ وہ جموں کے سیکولر کردار کاکس قدر ثبوت دیتے ہیں ۔

 شہرجموں فرقہ وارنہ ہم آہنگی، آپسی بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کی مثال رہا ہے۔ 90کی دہائی میں جب ریاست جموں وکشمیر کے اندر عسکری سرگرمیاں عروج پر تھیں ، کے وقت وادی کشمیر کے ساتھ ساتھ صوبہ جموں کے وادی چناب وپیر پنجال کے علاوہ دیگر علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کر کے شہر جموں کے گردونواح میں آباد ہوئے۔ ان میں بڑی تعداد مسلم طبقہ کی بھی تھی جنہیں شہر جموں کے لوگوں جن کی اکثریت ہندو تھی، نے والہانہ استقبال کیا، ان کے لئے اپنی بائیں پھیلا دیں ۔ شہر جموں جس میں بیک وقت مسجد سے ازان، مندر سے بھجن اور گردوارے سے بھجن کیرتن کی آواز سنائی دیتی ہے، اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پر ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں ۔2008امرناتھ لینڈ ایجی ٹیشن کے وقت شہر جموں کو کسی کی نظر لگ گئی کہ یہاں پر فرقہ وارانہ ماحول پیدا ہوگیا اور مسلم طبقہ جو کہ اقلیت میں تھاکہ کے لئے یہاں رہنا پرخطر ہوگیا ، خیرکچھ عرصہ بعد حالات پھیرمعلوم پر آگئے اور سبھی مذاہب کے لوگ مل جل کر رہنے لگے لیکن پھر بھی چند عناصر ہیں جوکہ چھوٹے چھوٹے معاملات کو رنگت دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔2014کے لوک سبھا انتخابات میں مودی کی لہر نے صوبہ جموں کے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ بہالیا، ایکبار پھر ہندوتوا کے نام پر ایک طبقہ کے متحد ہونے سے بھاجپا کی جیت ہوئی۔

2014اسمبلی انتخابات میں بھی یہی پتہ کھیلاگیا جس سے تاریخ میں پہلی مرتبہ ہندو انتہاپسند تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی جس کی بنیاد ہی ’ہندوستان کو مسلمانوں سے پاک‘ملک بنانے اوررام مندر کی تعمیر پر ڈالی گئی ہے، نے زائداز25نشستوں پر فتح کے جھنڈے گاڑے۔تب سے لیکر آج تک کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے ’سیکولر ازم‘پربادل منڈلاتے نظر آئے ہیں ۔اس فتح کے بعد بھاجپا کارکنان، لیڈران اور اس کے حامیوں کی شروع سے یہی کوشش رہی ہے کہ یہاں کے غیرمسلم طبقہ میں بھی ملک کے دیگر حصوں جیسی کٹرپنتھی کو تقویت دیکر اپنے ووٹ بنک کو مستقبل کے لئے محفوظ کیاجائے،بہت ساری بیرون ریاست سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اور طاقتیں اس حوالہ سے کافی سرگرم عمل بھی ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں کی ہندو برادری نے ایسے لوگوں کے ناپاک ارادوں کو کامیاب نہ ہونے دیا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی، آپسی بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کو فروغ دینے کے لئے اپنا بھرپورساتھ دیا۔برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی جس کا Remote کنٹرول آر ایس ایس کے پاس ہے، کے کارکنان کی یہی کوشش رہتی ہے کہ یہاں پر مسلمانوں کے لئے پریشانیاں کھڑی کی جائیں ، انہیں جس طرح بھی ہوسکے پریشان کیاجائے، ذہنی طور تناؤ کا شکار بنایاجائے۔ایسے ماحول میں جب شہر جموں (صوبہ جموں )جوکہ صدیوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور آپسی بھائی چارہ کے لئے مشہور رہا ہے، میں ’سیکولر ازم ‘خطرہ میں ہے،کے حوالہ سے لوگوں میں پائے جارہے حدشات کو دور کرنے کے مقصد سے کوئی ایسی پہل کی جانی ضروری ہے ۔

  بار ایسو سی ایشن جموں کے انتخابات12اپریل 2017کو ہورہے ہیں ۔ اس مرتبہ صدر عہدہ کے لئے تین امیدوار میدان میں ہیں اور تینوں کے بیچ سخت ترین مقابلہ متوقع ہے۔ان امیدواروں میں بی ایس سلاتھیہ، شیخ شکیل احمد اور ایس کے شکلاشامل ہیں ۔بی ایس سلاتھیہ کو کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے جبکہ ایس کے شکلاء کو بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس پریوار کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وہیں ایڈوکیٹ شیخ شکیل احمد بغیر کسی Lobbyکے میدان میں کود پڑے ہیں ۔ نائب صدر عہدہ کے لئے درجن کے قریب امیدوار میدان میں ہیں جن میں یاسر اعجاز ٹاک، سچن گپتا، دیواکر شرما، جے پی نندا، گندوترہ، اجے سنگھ کوتوال بھی شامل ہیں ۔ جنرل سیکریٹری، جوائنٹ سیکریٹری اور خزانچی  عہدہ کے لئے بھی آدھا درجن امیدوار میدان میں ہیں ۔ہائی کورٹ کمپلیکس جانی پور اور ضلع کورٹ کمپلیکس میں ان دنوں ہرسوں چناوی سرگرمیاں ہی زیادہ ہیں ، جہاں پر پروگرام منعقد کر کے امیدوار اپنا اپنا منشور اور Visionوکلاء کے ساتھ شیئر کر کے ان سے ووٹ وحمایت کی اپیل کر رہے ہیں ۔صرف جموں میں ہی نہیں بلکہ امیدوار اپنی جیت کو پکا کرنے کے لئے ریاسی، اودھم پور، ڈوڈہ، کٹھوعہ، کشتواڑ، رام بن ، پونچھ ، راجوری اور سانبہ اضلاع کے بھی دورے کر رہے ہیں ۔ اس سے قبل جموں بار ایسو سی ایشن کے انتخابات 2برس کی مدت کے لئے ہوا کرتے تھے لیکن اب کی بار 2مارچ2017کو منعقد ہوئی جنرل ہاؤس میٹنگ میں یہ فیصلہ لیاگیاتھاکہ ہرسال بار کی نئی ٹیم کے لئے چناؤ ہوا کریں گے۔

جاری انتخابی مہم کے حوالہ سے چند وکلاء سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایاکہ سبھی امیدواروں نے اپنا اپنا منشور پیش کیا اور کچھ کو ابھی پیش کرنا ہے لیکن وکلاء کے کچھ مسائل ہیں جن کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ہائی کورٹ کی طرف ضلع کورٹ کمپلیکس جموں میں سندیافہ نقولات(Certified Copies)، ڈاکٹ، سمن ،سرٹیفائیڈ فیصلہ کی کاپی، آرڈز وغیرہ کی کاپی لینے کے لئے ایک کاؤنٹر قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک ہی جگہ سے مقررہ تاریخ اور وقت پر وکلاء کو یہ نقولات مل جائیں کیونکہ ضلع کورٹ کمپلیکس میں یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس سے کلریکل کیڈر سطح پر بہت زیادہ رشوت خوری ہوتی ہے ، خاص طور سے نوجوان وکلاء کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی آفیشل ویب سائٹ نہیں ، آج کے وقت میں ہر وکیل موبائل فون پر انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ بار کی Updated ویب سائٹ ہو جس پر چھٹی، ہڑتال کا نوٹس ودیگر تمام طرح کی انفارمیشن ڈال دی جائے تاکہ وکلاء با آسانی وہ حاصل کرسکیں ۔جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن میں انتہائی تجربہ کار وکلاء حضرات ہیں جن سے مستفید ہونے کے لئے کانفرنسوں ، مباحثوں ، سیمینار اور تسلسل سے تبادلہ خیالی(Interactive) سیشن کرائے جانے ضروری ہیں تاکہ نوجوان وکلاء سنیئر وکلاء کے تجربات سے سیکھ سیکیں اور ساتھ ہی ایکدوسرے کی جان پہچان ہو۔ حیران کن امر ہے کہ وکلاء حضرات چہرے سے تو ہر ایک وکیل کو جانتے ہیں لیکن نام بہت کم کے معلوم ہوتے ہیں ،Debates اور تبادلہ خیالی نشستوں سے آپس میں جان پہچان بڑے گی۔وکلاء کے لئے گروپ انشورینس، میڈیکل انشورینس اور ضرورت کے وقت مالی امداد وغیرہ کرنے کا بھی انتظام ہونا چاہئے۔وکلاء برادری کی عزت وعظمت ، وقار کو بڑھانے کی ضرورت ہے جس میں کافی فقدان پایاجانے لگا ہے۔ مختلف نوعیت کے مقدمات کی پیروی کرنے کے لئے کم سے کم فیس سٹریکچر(Fees Strucutre)ہو جس پر سبھی وکلاء پابندی سے عمل کریں ، یہ بھی اس پروفیشن کی Credibility, Dignityاور Statusکے لئے ناگزیر ہے۔کورٹ احاطہ میں صفائی ستھرائی کو معقول انتظام،کنٹین میں صحت افزا اشیاء خوردونوش کی فراہمی، طبی سہولیات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔

وکلاء جوکہ کسی خاص سیاسی نظریہ کے حامل نہیں اور ایک آزاد سوچ رکھتے ہیں ، کا ماننا ہے کہ سب سے زیادہ یہ ضروری ہے کہ ’جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن ‘ ہمیشہ Anti-establishmentرہے، اس میں کوئی سیاسی مداخلت نہ ہو، یہ سیاست کا شکا رنہ ہو، بار کاکسی بھی معاملہ، مدعا اور واقعہ پر جو بھی رد عمل(Reaction)ہو وہ بالکل غیر جانبدار، حقائق واعدادوشمار پر مبنی ہو اس میں کسی کی طرف رحجان نہ ہو۔ ایسا رد عمل اور بیان جائے کہ حکومت وقت اس پر سوچنے پر مجبور ہوئے۔ بار کی افادیت، اعتباریت اور وقار کی بالادستی کے لئے ایسا کرنا بہت ضرور ی ہے۔ اس بار کو ایک موثر Pressure Group‘بنانے کی ضرورت ہے جس پر کوئی بھی نظریہ یاسیاست حاوی نہ رہے ۔وکلاء حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ چونکہ بار ایسو سی ایشن ایک سیاسی سکول کی حیثیت رکھتا ہے لہٰذا یہاں پر انتخابی مہم ’Healthy Competitive Politics‘ہونی چاہئے جس سے ریاست کے سیاسی وعوامی حلقوں میں مثبت پیغام جائے اور وہ اس کے نقش راہ پرچلیں ۔ ہوٹلوں میں بڑی بڑی پارٹیوں کا اہتمام کرنے، مالی ودیگر قسم کی لالچ دیکر وکلاء کو اپنے حق میں کرنے کا جوعمل اپنایاجاتاہے وہ سراسر غلط ہے۔ اگر ایک ایسے طبقہ جس میں 101فیصد لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، سے ووٹ اس طرح مانگے جائیں گے تو پھر عام آدمی پر کیا تاثر جائے گا۔بار ایسو سی ایشن جس میں صدفیصد خواندہ لوگ شامل ہیں ، کے انتخابات کے ذریعہ ’صحت مند تقابلی سیاست‘کو فروغ دینے کاPrecedentمتعین کیاجائے ، اس سے سماج میں ایک مثبت پیغام جائے اور اسمبلی، لوک سبھا ، پنچایتی  اور بلدیاتی انتخابات میں عام رائے دہندگان بھی اسی پر چلیں جس میں ایک اچھی جمہورت پنپے۔ ووٹ کسی کی زیادہ پبلسٹی، زیادہ دولت، زیادہ چناوی مہم چلانے، زیادہ ہوٹلوں میں پارٹیاں کرنے پر کسی امیدوار کے حق میں ووٹ نہ ڈالایاجائے بلکہ اس کے ویژن، اس کی نئی سوچ اور اس کی قابلیت واعتباریت کی بنا پر وو ٹ دیاجائے۔

 کشمیر بار ایسو سی ایشن کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ وہ اعلیحدگی پسند نظریہ کی حامل ہے جبکہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن جموں آر ایس ایس (سنگھ)کی حامی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے جموں بار ایسو سی ایشن میں سیکولر /مثبت سوچ رکھنے والوں کی اکثریت ہے لیکن اس تاثر کو قائم کرنے کے لئے وکلاء کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ جموں بار سیکولر ہے ، اگر ایسا ہوجاتا ہے کہ پورے صوبہ جموں میں ایک مثبت پیغام جائے گا جوکہ وسیع ترعوامی اور خطہ کی ترقی وامن کی بحالی کے حق میں ہوگا۔ یہاں یہ بھی روایت رہی ہے کہ جموں بار کا کوئی مسلم صدر نہیں بن سکتا اور کشمیر بار کا کوئی ہندوصدر نہیں بن سکتا جس تاثر کو غلط ثابت کرنے کی ضرورت ہے۔ایڈوکیٹ شیخ شکیل احمد جوکہ قریب3دہائیوں کے بعد جموں وکشمیر ہائی کورٹ باری ایسو سی ایشن انتخابات میں صدر عہدہ کے لئے انتخاب لڑنے والے پہلے مسلم امیدوار ہیں ، نے اپنے منشور میں کیرلہ ریاست کی طرز پر وکلاء کے لئے پنشن/میڈیکل وگروپ انشورینس کی فراہمی کو یقینی بنانے، ہرسال ایک نوجوان وکیل (لڑکا)اور ایک نوجوان خاتون وکیل کو ایوارڈ سے نوازنے، تسلسل کے ساتھ تبادلہ خیالی نشستوں ،کانفرنسوں اور مباحثوں کا انعقاد کے علاوہ خواتین وکلاء کے لئے اعلیحدہ پارکنگ سہولیات کی فراہمی اور صوبہ جموں کی تمام بار ایسو سی ایشنوں کے صدور کو ٹیم کاEx-officioممبر بنانے کی بات کی ہے۔وہیں ایڈوکیٹ ایس کے شکلاء نے انتخابی اصلاحا ت لاکر انتخابی عمل کو صرف 10دنوں تک محدود کرنے ، ویب سائٹ شروع کرنے، انشورینس کرانے کی بات کی ہے ۔بی ایس سلاتھیاجوکہ پہلے بھی بار کے صدر رہ چکے ہیں ، کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی منشوریا وعدوں پر نہیں رکھتے بلکہ عملی اقدام پر یقین رکھتے ہیں ، ان کا مقصد صرف اور صرف بار کی اعتباریت، اعتمادیت اور وقار کی بحالی ہے۔

ہائی کورٹ کمپلیکس میں منعقدہ ایک تقریب کید وران شیخ شکیل نے جذباتی انداز میں کہاکہ ’’شیخ شکیل جموں میں پیدا ہوا، جموں میں ہی رہے گا اور یہی اس کی قبر بنے گی، تو پھر کیابا ت ہے کہ شیخ شکیل بار کا صدر نہیں بن سکتا، یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وکلاء حضرات اس بات کو ثابت کریں کہ جموں ایک سیکولر ہے ، یہاں ہندو یا مسلم کی بنیاد پر نہیں بلکہ قابلیت ، اعتباریت اور وقار کی بنا پر کسی کو اہمیت دی جاتی ہے‘‘۔شیخ شکیل نے مزید کہاکہ جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا ہے کہ تو ہم قابل ترین ڈاکٹر کی تلاش کرتے ہیں ، اس وقت ہم یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہندؤ ہے، مسلمان ہے، سکھ ہے، عیسائی ہے یاکسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہے، اس وقت صرف اس کی یہی Qualificationدیکھی جاتی ہے کہ وہ کتناقابل ہے اور وہ بیماری کا موثر علاج کرسکتا ہے۔یہی سوچ ہر ذی شعور شخص کو پیدا کرنی ہوگی تاکہ اس ریاست وملک کی صحیح معنوں میں ترقی ہو۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن جموں پر ریاست بھر کے سیاسی وعوامی حلقوں کی گہری نظر رہتی ہے کیونکہ بار ہی وہ ادارہ ہے جہاں سے وکلاء پنے سیاسی کیرئر کا آغاز بھی وکالت سے کرتے ہیں ۔ یاد رہے کہ بار کیscrutiny committeeکی طرف سے  Practicing  Lawyers کی تیار کردہ فہرست کے مطابق جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے رائے دہندگان کی تعداد قریب2050ہے جنہوں نے نئی ٹیم کو منتخب کرنا ہے۔ان چندوجوہات کی بنا پر اس مرتبہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے انتخابات کافی توجہ کے مرکز بنے ہیں ، اب دیکھنا یہ ہوگاکہ 12اپریل2017کے بعد کیا نتائج سامنے آتے ہیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔