جمہوریت کا دوسرا سب سے بڑا علمبردار لیڈر بھی نہ رہا

حفیظ نعمانی

ملک کے ایک بہت بڑے لیڈر اٹل بہاری باجپئی کی موت کا جتنا بھی غم منایا جائے کم ہے۔ وہ آج کی بی جے پی میں جمہوریت کے علمبردار اکیلے تھے۔ ہندوستان کی تاریخ میں انتہائی چمکدار وہ صفحہ ہے جس پر وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی کی وہ کہانی لکھی ہے جو اعتماد کی تحریک میں ایک ووٹ کی کمی کی وجہ سے وہ استعفیٰ دینے چلے گئے تھے۔ ان کے اس فیصلہ نے انہیں دنیا کے عظیم لیڈروں کی صف میں کھڑا کردیا تھا۔

اٹل جی کیا تھے؟ انہوں نے ملک کو کیا دیا اور وہ کیا کیا اور دینا چاہتے تھے یہ ٹی وی اور اخبارات کل سے بتا رہے ہیں اور کئی دن تک بتاتے رہیں گے۔ میں نے ان کے اندر کیا کیا دیکھا اور کیسا پایا آج کی محفل میں بس اس کا ذکر کروں گا۔

تاریخ تو یاد نہیں بس یہ یاد ہے کہ صوبہ میں بی جے پی کی حکومت تھی ایک وزیر اعزاز رضوی ایڈوکیٹ بھی تھے جنہیں اٹل جی بہت مانتے تھے۔ ایک شام اعزاز رضوی میرے پاس آئے اور کہا کہ آپ کا ایک گھنٹہ چاہئے۔ میں نے ہنس کر کہا کہ اجرت کیا ملے گی؟ وہ بھی مسکرادیئے اور کہا منھ مانگی۔ میں نے کہا کہیں چلنا ہو تو کپڑے بدل لوں؟ وہ بولے کپڑوں کی نہیں آپ کی ضرورت ہے۔ باہر آکر گاڑی میں بیٹھے تو کہا کہ اٹل جی آئے ہوئے ہیں ان سے سنی اور شیعہ دونوں کے وفد ملنا چاہتے ہیں اٹل جی چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا مسلمان ملے جو پوری غیرجانبداری سے بتادے کہ یہ مسئلہ کیا ہے؟ میرے نزدیک لکھنؤ میں آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے اور میں ان سے وعدہ کرکے آیا ہوں کہ میں ان کو لے کر آتا ہوں۔ میں نے آپ کے بارے میں ایک ایک بات بتادی ہے اس لئے اپنا تعارف نہ کرایئے گا۔

سرکاری وی وی آئی پی گیسٹ ہائوس تک ہم باتیں کرتے رہے وہاں اترے تو کہا آیئے اور سیدھے اوپر لے گئے اور ایک کمرہ کا دروازہ کھول کر اندر گئے اور صرف ایک جملہ کہا کہ حفیظ صاحب مل گئے ہیں اور واپس چلے گئے۔ میں داخل ہوا تو اٹل جی ایک تخت پر بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے ہاتھ جوڑے میں نے ایک ہاتھ اٹھاکر آداب کیا اور کرسی پر ہاتھ رکھا تو تخت پر ہی ذراسی جگہ اور بناتے ہوئے کہا کہ یہاں آجایئے۔ آپ نے بھی سنا ہوگا دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ اور انہوں نے رسمی باتوں میں ایک منٹ ضائع کئے بغیر سرہانے سے ایک نوٹ بک اور پینسل اٹھائی اور کہا کہ میں جتنا جانتا ہوں وہ یہ ہے۔ آپ یہ بتایئے کہ جب دونوں اسلام کی بنیادی باتوں کو مانتے ہیں تو اتنا اختلاف کیوں ہے؟

میں 60  سال لکھنؤ میں رہنے کے بعد اور ایک وہابی کہے جانے والے خانوادے کی فرد ہونے کے باوجود دونوں مسلک کے اہم لوگوں سے بہت قریبی تعلق ہونے کی وجہ سے جتنا جانتا تھا پوری ایمانداری سے میں نے بتا دیا، میں یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ شارٹ ہینڈ میں لکھ رہے تھے یا اور کچھ اشارے لکھ رہے تھے بہرحال یہ حیرت کی بات تھی کہ ان کی آنکھیں میری آنکھوں سے ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں ہٹیں اور نہ ان کا ہاتھ رُکا۔ درمیان میں انہوں نے کئی جگہ روکا کہ یہ کیا اور ایسا کیوں؟ وہ ایسی اصطلاحات تھیں جو اس ہندو کے لئے جو بہت اچھی اُردو نہ جانتا ہو یا جس کے دوستوں میں تعلیم یافتہ مسلمان نہ ہو وہ اسے نہیں سمجھ سکتا۔ ورنہ میں نے محسوس کیا کہ وہ بلا کے ذہین ہیں۔ اس درمیان میں ایک لطیفہ بھی ہوگیا کہ انہوں نے کاجو اور برفی منگواکر رکھی تھی۔ کہنے لگے کہ سوچا تھا کہ باتیں کرتے رہیں گے اور اس کا ذائقہ بھی چکھ لیں گے میں نے کہا کہ پنڈت جی یہ بھی مشہور ہے کہ یا بانسری بجالو یا چنے چبالو۔ کہنے لگے نہیں نہیں آپ بانسری ہی بجایئے۔ یہ مجھے معلوم تھا کہ آٹھ بجے سنی لیڈروں کو وقت دیا ہے۔ میں نے بات سمیٹی اور گھڑی دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔ اٹل جی نے کہا کہ نعمانی صاحب رضوی صاحب نے ٹھیک کہا تھا۔ اس ایک گھنٹہ کی بند کمرے کی گفتگو کے بعد میں کمرہ کا دروازہ کھول کر باہر جانا ہی چاہتا تھا کہ دروازہ کھل گیا اور سب سے آگے سنی وفد کے لیڈر حاجی غلام حسنین سامنے تھے۔ ان کے منھ سے نکلا ارے آپ؟ میں کوئی جواب دیئے بغیر اتر گیا ان کے پیچھے ہر لڑی پر ایک صاحب کھڑے تھے۔

اس کے بعد کئی بار اعزاز رضوی صاحب سے ملاقات ہوئی لیکن اٹل جی کی ملاقات کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ لیکن وہ جب 1998 ء میں وزیراعظم کا حلف لینے جارہے تھے تو انہوں نے دہلی بلایا۔ جہاں تک دماغ کام کرتا ہے یہ اسی ایک گھنٹہ کی تنہائی میں ملاقات کا نتیجہ تھا۔ لکھنؤ سے میاں ظہیر مصطفی کے ساتھ سفر ہوا ڈاکٹر تیاگی فوراً لے کر گئے اور ہم دونوں کو اٹل جی کے پاس چھوڑکر چلے گئے۔

میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ کو بھی معلوم ہے اور ہمیں بھی۔ جانتا ہوں کہ مسلمانوں نے آپ کو ووٹ نہیں دیا ہے۔ لیکن اس میں مسلمان کا قصور نہیں ہے آپ کی پارٹی چاہتی ہی نہیں کہ مسلمان کے ووٹ لے۔ اب آپ وزیراعظم بن رہے ہیں اب آپ اعلان کردیں کہ میں ملک کا وزیراعظم ہوں اس لئے یہ نہیں کہوں گا کہ ووٹ کس نے دیا تھا اور کس کا کام کرنا ہے۔ صرف آپ کے اندر یہ طاقت ہے کہ آپ حکومت کو ایسا بنادیں کہ مسلمانوں کی وحشت ختم ہوجائے اور وہ بے تکلف اپنے مسائل لے کر آپ کے پاس آئیں اور انہیں معلوم ہو کہ ان کے ساتھ انصاف ہوگیا۔ پھر کون ہے جو اُن مسلمانوں کو روک لے گا جو آپ کو ووٹ دینے جارہے ہوں گے۔ یہ گفتگو آدھا گھنٹہ رہی۔ اسی وقت جسونت سنگھ آئے جو ہار گئے تھے اور اٹل جی کے گہرے دوست تھے۔ اور اسی وقت کسی نے آکر بتایا کہ جارج فرنانڈیز جے للتا کے گھر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ دو گھنٹہ کے بعد ملیں گی جارج ان سے حمایت لینے گئے تھے۔

اسی موضوع پر آدھے گھنٹہ بات کی وہ صرف سنتے رہے۔ اور جب رخصت کیا تو آنکھوں میں غضب کی چمک تھی۔ ان دو ملاقاتوں میں اندازہ ہوگیا کہ واقعی وہ بہت بڑے آدمی ہیں غرور، تکبر، نخوت اور خود پسندی سے بہت دور۔ پہلی ملاقات میں ایک گھنٹہ تک ایک معمولی آدمی کی بات سکون سے سننا اور درمیان میں صرف یہ کیوں یا حیرت ہے جیسے چند جملوں کے علاوہ اپنی کوئی بات نہیں۔ ابتدا میں بس یہ کہ گوالیار میں تھے تو یہ دیکھا تھا اور یہ سنا تھا وہ چند واقعات ان کی جوانی کی تقریروں سے جو اُن کے بارے میں رائے تھی اسے ان دو ملاقاتوں نے بالکل دھو دیا وہ اگر آر ایس ایس کی گرفت سے باہر ہوتے تو پنڈت نہرو کے جیسے سیکولر اور جمہوریت نواز ہوتے۔ ان سے ملنے کے بعد یقین ہوگیا کہ انہوں نے جن سنگھ کو دفن کرکے بی جے پی بنائی اس کے جھنڈے میں ہری پٹی لگائی جو صرف اس لئے تھی کہ یہ رنگ مسلمانوں کا ہے اور پارٹی میں مسلمانوں کو لے کر کانگریس کا جنتادل بنانا ہے۔ انہوں نے کشمیریوں پر ایسا جادو کیا کہ ہر کشمیری اٹل بہاری کے گیت گانے لگا۔ انہوں نے پاکستان سے دوستی کے لئے بڑے ہونے کے باوجود پہل کی۔ وہ جانتے تھے کہ کارگل میں جو شرارت کی وہ پرویز مشرف کی تھی اس کے باوجود انہیں آگرہ میں بلاکر دوستی کرنا چاہی لیکن جو ہوا وہ سامنے ہے۔ 2004 ء میں انہوں نے مسلمانوں کو آواز دی لیکن موقع پرستوں کے علاوہ کوئی نہیں آیا کیونکہ بات بی جے پی کی تھی وہ اگر اپنے ان آقائوں کو چھوڑکر آتے پھر آواز دیتے تو مسلمان انہیں قائد اعظم بنا دیتے۔ بات ان آقائوں کی ہے جن کے بارے میں پرویز مشرف نے لکھا ہے کہ

’’میں تقریباً گیارہ بجے اس رات وزیراعظم واجپئی سے تنہائی میں انتہائی سنجیدہ ماحول میں ملا۔ میں نے انہیں صاف صاف بتایا کہ غالباً ہم دونوں سے بالاتر کوئی فرد ہے جس کے پاس ہمارے فیصلوں کو ردّ کرنے کی طاقت ہے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ آج ہم دونوں کی تحقیر ہوئی ہے۔ اور وہ خاموش بیٹھے رہے میں اچانک اٹھا انکا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چل دیا۔‘‘

اور وہی فرد ہے جس کی وجہ سے 14  برس اٹل جی کو ایسا بناکر رکھا تھا جیسے وہ اب اٹھے تو لنکا جل جائے گی۔ اور مشہور کردیا کہ ان کی یادداشت چلی گئی۔ آج جو زیادہ رو رہا ہے وہ سب سے زیادہ مکار ہے۔ اور جنہیں واقعی غم ہے وہ دل میں رو رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔