جناح نہیں، گاندھی جی کے نظریات خطرے میں ہیں

فیصل فاروق

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں آر ایس ایس کی ‘شاکھا’ کھولنے کی اجازت نہ ملنے کے بعد بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ستیش گوتم نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو خط لکھ کر طلبہ یونین کے دفتر میں کئی دہائیوں سے نصب پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی تصویر پر سوال اٹھایا۔ یہ تصویر آزادی سے پہلے ١٩٣٨ء سے لگی ہوئی ہے جب مہاتما گاندھی کے ساتھ اس وقت ملک کے بڑے لیڈروں میں سے ایک بیرسٹر جناح کو یونیورسٹی کی تاحیات رکنیت دی گئی تھی۔

تصویر کو بہانہ بنا کر شرپسندوں نے کیمپس میں جم کر ہنگامہ کیا۔ سخت گیر ہندو تنظیموں کے کارکنوں نے جناح کی تصویر کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے ‘وندے ماترم’ اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ کا نعرہ لگاتے ہوۓ یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ طلبہ نے انہیں روکا۔ پولیس سے ٹکراؤ میں درجنوں طلبہ زخمی ہوئے۔ حفاظتی اہلکاروں سے طلبہ کی جھڑپ بھی ہوئی۔ طلبہ یونین نے ٹھیک کہا کہ کسی بھی شخص کے پوسٹر لگے ہونے کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ ہم اس کی آئیڈیالوجی کی حمایت کرتے ہیں۔

دراصل یہ سارا معاملہ جناح کے بارے میں کبھی نہیں تھا، یہ ہمیں ہندو بمقابلہ مسلم میں تقسیم کرنے کیلئے تھا۔ موجودہ وقت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آویزاں جناح کی تصویر پر جو واویلا مچایا جا رہا وہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر اس سے پہلے نہ تو کبھی بحث و مباحثہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، نہ تو اس پر کبھی کوئی اعتراض کیا گیا اور نہ ہی کبھی کوئی ہنگامہ برپا ہوا۔ اس کی واحد وجہ یہی ہے کی حکومت ملک کی کئی ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں عوام کے درمیان نفرت کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔ اسی لئے سارے مسائل کو چھوڑ کر کبھی مجسموں اور کبھی تصویروں پر سیاست ہو رہی ہے۔

اب تو طلبہ بھی سمجھتے ہیں کہ جب سے مودی حکومت برسراقتدر آئی ہے تب سے طلبہ کو زد و کوب کرنا ایک عام چلن بن گیا ہے۔ جے این یو اور بی ایچ یو کے بعد اب اے ایم یو پر حملہ کیا گیا ہے۔ دراصل جب ان کے پاس کوئی موضوع نہیں بچا تو اب ان حالات میں سنگھ حامیوں کو بانی پاکستان محمد علی جناح یاد آئے اور وہ بھی سر سید احمد خان کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں۔

آج فرقہ پرست طاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ ہندوتوا کے نظریے پر عمل درآمد کرانا ان کا حق ہے اور وہ آئین کو بھی ہندوتوا کے رنگ میں رنگنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ لیکن یہ بات روز روشن کے طرح عیاں ہے کہ ملک کی سیاست میں بی جے پی کا عروج آر ایس ایس اور اس کی کٹر ہندتوا وادی ہمنوا تنظیموں کی حمایت کا نتیجہ ہے۔ جس طرح کے حالات ملک میں بنائے جا رہے ہیں اس زاویے سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان میں آج محمد علی جناح نہیں بلکہ باباۓ قوم مہاتما گاندھی اور ان کے جیسے دیگر سیکولر لیڈران کے نظریات خطرے میں ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. اردو گلشن، ممبئی کہتے ہیں

    انتہائی بہترین تجزیہ
    جناب فیصل فاروق صاحب

تبصرے بند ہیں۔