جے للتا کے متبادل رجنی کانت اور کمل ہاسن؟

ڈاکٹر قمر تبریز

تمل ناڈو کی سیاست میں ایک نئی تاریخ کا آغاز ہو چکا ہے۔ رجنی کانت نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ ریاست میں ہونے والے آئندہ اسمبلی انتخابات میں سبھی 234 سیٹوں پر اپنے امیدوار اتاریں گے اور جلد ہی ایک نئی سیاسی پارٹی بنائیں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنوبی ہند میں تمل ناڈو ایک ایسی ریاست ہے، جہاں کی سیاست کا اثر نہ صرف ملک گیر سطح پر ہوتا ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خاص کر ہمارے پڑوسی ملک سری لنکا میں اس کا اثر اس لیے پڑتا ہے، کیوں کہ وہاں کی ایک بڑی آبادی تملوں پر مشتمل ہے، جن کے لیے ماضی میں پربھاکرن ایل ٹی ٹی ای نام کی ایک دہشت گرد تنظیم بنا کر علیحدہ تمل ایلم (ریاست) کے قیام کی تحریک چلاتار ہا اور آخر کار مارا گیا۔

ایک طویل عرصے تک تمل ناڈو پر جے للتا کا مکمل قبضہ رہا۔ بیچ بیچ میں کروناندھی بھی صفحہ سیاست پر ابھرتے رہے اور اکثر یہ بھی دیکھا گیا کہ اِس بار جے للتا اور اگلی بار کروناندھی کی حکومت تمل ناڈو میں بنتی رہی۔ لیکن، جے للتا کی موت کے بعد نہ توششی کلا میں اتنی صلاحیت تھی کہ وہ پارٹی کو جوڑ کر رکھ سکیں اور نہ ہی کروناندھی کے قدموں میں اتنی جان بچی ہے کہ وہ سرگرم سیاست کا حصہ بنے رہیں۔ اب کروناندھی کے دو بیٹے ایم کے عالاگیری اور ایم کے اسٹالن ان کا جانشیں بننے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، لیکن اپنے والد جیسا سیاسی قد حاصل کرنے میں انھیں ابھی کافی محنت کرنی ہوگی۔ دوسری طرف، جے للتا نے اپنی زندگی میں ششی کلا کو اپنا سیاسی وارث تو نہیں بنایا تھا، البتہ ششی کلا نے خود ہی ’اما‘ جے للتا کی چھوٹی بہن ’چِنمّا‘ بننے کی پوری کوشش کی۔ جے للتا کے مرنے کے بعد او پی ایس (او پنیر سیلوم) کو آناً فاناً میں تمل ناڈو کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا تھا، کیوں کہ بیماری کے دنوں میں او پی ایس ہی جے للتا کے معتمد خاص ہوا کرتے تھے۔ اس لیے موت کے بعد پارٹی کے لوگوں نے او پی ایس کو ہی جے للتا کا اصلی وارث سمجھا۔ او پی ایس نے بھی وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے دفتر میں ایک کرسی ساتھ میں لگوائی اور اس پر ’اما‘ کی تصویر لگاکر یہ تاثر دینے کی کوشش کی وہ ابھی بھی زندہ ہیں اور انہی کے ’آشیرواد‘ سے او پی ایس تمل ناڈو کی حکومت چلائیں گے۔

لیکن، تبھی ششی کلا اچانک نمودار ہوئیں اور انھوں نے او پی ایس کے خوابوں پر پانی پھیر دیا۔ ششی کلا، جو جے للتا سے بعض معاملوں میں اختلافات کی وجہ سے اور خود جے للتا کی فیملی والوں سے دشمنی کے سبب ان کی زندگی میں جے للتا سے دور رہنے کی پوری کوشش کی، لیکن ’اما‘ کی موت سے تمل ناڈو میں جو سیاسی خلاء پیدا ہوا تھا، اسے پُر کرنے کے لیے ششی کلا نے ’چنما‘ بننے کی کوشش کی۔ جے للتا کی آخری رسومات انھوں نے ہی ادا کی اور جب ماتم کے دن ختم ہو گئے، تو او پی ایس سے گدی چھین کر خود تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ بن بیٹھیں۔ لیکن، چونکہ ان کے خلاف پہلے سے عدالت میں کیس چل رہا تھا، جس کا فیصلہ آنے کے بعد انھیں جیل جانا پڑا۔ لہٰذا، انھوں نے وزیر اعلیٰ کی کرسی ای پی ایس (ای پلانی سوامی) کو سونپ دی اور جیل چلی گئیں۔ اس کے بعد ششی کلا کی غیر موجودگی میں او پی ایس نے کافی ڈرامہ کیا اور چاہا کہ وزیر اعلیٰ کی کرسی انھیں دوبارہ مل جائے۔ اس درمیان وزیر اعلیٰ ای پی ایس اور او پی ایس کے درمیان کافی ڈرامہ چلا، لیکن گزشتہ دنوں آخرکار دونوں میں مصالحت ہوگئی اور اب سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔

ششی کلا کے اگر ماضی کے صفحات پلٹ کر دیکھے جائیں، تو ایسا کہا جاتا ہے کہ تمل ناڈو کی سیاست میں جو مقام جے للتا کو ملا، وہ سب ششی کلا کی دوراندیشی اور محنتوں کا ہی نتیجہ تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا، جب ششی کلا کے سامنے دو متبادل رکھے گئے۔ ایک یہ کہ وہ واپس اپنے شوہر کے پاس چلی جائیں اور خوشحال خاندانی زندگی گزاریں۔ اور دوسرا متبال یہ تھا کہ وہ جے للتا کے ساتھ رہ کر ہی اپنی دوستی کو پروان چڑھائیں اور تمل ناڈو کی سیاست میں اہم کردار نبھاتی رہیں۔ ششی کلا نے دوسرے متبادل کو ترجیح دی۔ انھوں نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور جے للتا کی تا عمر سہیلی بننے کا وعدہ کیا۔ لیکن، اس درمیان جے للتا کے رشتہ دار انھیں کھری کھوٹی سناتے رہے اور یہ الزام لگاتے رہے کہ انھوں نے جے للتا کو ان سے چھین لیا ہے۔ بہرحال، جب جے للتا کی موت ہوئی تو لگاتار چوبیسوں گھنٹے ششی کلا ان کے جسد خاکی کے ساتھ ماتم کناں رہیں اور نہایت عزت و احترام اور ریاستی اعزاز کے ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کیں۔ تبھی سے ایسا لگنے لگا تھا کہ وہ اب تمل ناڈو کی سرگرم سیاست میں اپنا رول نبھانے والی ہیں۔ اور انھوں نے ایسا کیا بھی، لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور آج وہ جیل کے اندر اپنی سزا کاٹ رہی ہیں۔

اس پورے پس منظر میں دیکھا جائے، تو تمل ناڈو کی حقیقت یہی ہے کہ وہاں پر سیاسی خلاء اب بھی موجود ہے۔ جے للتا کی موت اور کروناندھی کی ضعیفی سے پیدا ہونے والے اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے مقامی سطح پر چونکہ قومی سطح کی دو بڑی پارٹیوں بی جے پی اور کانگریس کا کوئی لیڈر یا کیڈر موجود نہیں ہے، اس لیے سب کی نظریں جنوبی ہند کے دو بڑے فلم اسٹاروں پر ہی لگی ہوئی ہے۔ اب کمل ہاسن یا رجنی کانت نے جو سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ دراصل اسی سیاسی خلاء کو پر کرنے کی کوشش ہے۔ کمل ہاسن اور رجنی کانت دونوں ہی تمل فلموں کے سپراسٹار ہیں، لیکن رجنی کانت کا پلڑا بھاری اس لیے ہے، کیوں کہ وہ پہلے بھی تمل ناڈو کی سیاست میں کبھی نہ کبھی اپنی موجودگی درج کراتے رہے ہیں۔ اب وہ چاہے، 1990 کے عشرے میں جے للتا حکومت کے خلاف باقاعدہ تحریک چھیڑنے کی بات ہو یا پھر کاویری ندی کے پانی کی تقسیم کو لے کر حکومت کرناٹک کے خلاف بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کی بات، رجنی کانت سیاسی افق پر کبھی کبھی نمودار ہوتے رہے ہیں، اس لیے تمل ناڈو کے لوگ انھیں سیاست میں نیا نہیں سمجھتے۔ کمل ہاسن کا معاملہ بالکل الگ ہے۔ ان کی ایسی کوئی سیاسی تاریخ نہیں رہی ہے۔ لیکن، گزشتہ دنوں کمل ہاسن نے بھی جس طرح تمل ناڈو کے اندر شفاف سیاست شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے، اس سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں تمل ناڈو کے اندر جے للتا اور کرناندھی کی جگہ رجنی کانت اور کمل ہاسن لینے والے ہیں۔ اس میں رجنی کانت کی کامیابی کا پورا امکان اس لیے ہے، کیوں کہ وہاں کے لوگ ایک طرح سے ان کی پوجا کرتے ہیں، انھیں ’تھلائیوا‘ (لیڈر) پہلے سے کہتے آئے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں رجنی کانت بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں، لیکن حالات اس کی طرف اشارہ نہیں کر رہے ہیں، کیوں کہ ’تھلائیوا‘ نے اپنی الگ پارٹی بنانے کا آج اعلان کیا ہے اور صاف لفظوں میں کہا ہے کہ وہ تمل ناڈو کی سبھی سیٹوں پر اگلا اسمبلی الیکشن لڑیں گے۔ اسی طرح پچھلے دنوں کمل ہاسن کی ملاقات بھی دہلی کے وزیر اعلیٰ اروِند کجریوال سے ہوئی تھی اور تب یہ قیاس آرائی کی جانے لگی تھی کہ وہ عام آدمی پارٹی میں شامل ہو کر اگلا الیکشن لڑیں گے۔ لیکن، اس کے کچھ دنوں بعد ہی کمل ہاسن نے اپنے مداحوں کو بلا کر یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پورے تمل ناڈو میں گھوم گھوم کر اپنا ایک بڑا نیٹ ورک بنانے جا رہے ہیں۔ اس درمیان وہ کوشش کریں گے کہ اپنے ہم ذہن لوگوں کو ایک ساتھ جمع کریں اور اس طرح آنے والے دنوں میں تمل ناڈو کو شفاف سیاست دے سکیں۔ اسی موقع پر انھوں نے اپنا ایک الگ اَیپ بھی لانچ کیا تھا اور لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ اس اَیپ کے ذریعے ان کے ساتھ جڑیں۔ اگر کمل ہاسن اپنے اس مشن میں کامیاب رہتے ہیں، تو آنے والے دنوں میں تمل ناڈو کے اندر اپنی ایک بڑی عوامی حمایت کھڑی کر سکتے ہیں، جو انھیں ریاست کا وزیر اعلیٰ بھی بنا سکتی ہے۔

لہٰذا، فی الحال یہی کہا جا سکتا ہے کہ تمل ناڈو میں اب ایک نئی سیاست کا آغاز ہونے والا ہے، جس میں دو ہی ہیرو ہوں گے، رجنی کانت اور کمل ہاسن۔ اب اِن دونوں میں کون وزیر اعلیٰ بنے گا اور کون حزبِ اختلاف کے لیڈر کا عہدہ سنبھالے گا، اس کے لیے ہمیں ایک سال اور انتظار کرنا ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔