حامد انصاری کی سچ بیانی پر ہنگامہ کیوں؟

محمد وسیم

 حامد انصاری صاحب 1937ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے، ان کے دادا ڈاکٹر مختار احمد انصاری تهے، جو مسلم لیگ کے فعال اور اہم رکن تھے، جنگ آزادی میں ان کا اہم کردار ہے، ملک کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے نام سے ہیلتھ سینٹر بهی ہے، جو جامعہ کے طلباء و طالبات اور اوکهلا کے عوام کو طبی سہولیات دے رہا ہے، ان کے نام سے جامعہ میں ایک ایئر کنڈیشن انصاری آڈیٹوریم بهی ہے، جس میں سال بھر مختلف سیاسی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی پروگرام ہوتے ہیں، حامد انصاری کے گھر میں تصاویر اور ایسی نشانیاں موجود ہیں جنہوں نے جنگ آزادی میں بے شمار قربانیاں دی تھیں، انهوں نے ملک کی معروف یونیورسٹی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بهی رہے، حامد انصاری 2007ء میں نائب صدر جمہوریہء ہند بنے اور 2017ء میں سبکدوش ہوئے، اسد الدین اویسی کے مطابق ان دس سالوں میں انهوں نے 530 تقریریں کیں، حکومتوں کو مشورے بهی دیتے رہے، انہوں نے اپنی الوداعیہ تقریب میں جامع اور تاریخی خطاب کیا، ہندوستان میں اقلیتوں کے درمیان بے چینی کو بیان کیا، جمہوریت کی حفاظت میں سب کی حفاظت ممکن ہے، اس پر زور دیا، انهوں نے کہا کہ ہندوستان میں مسلمان غیر محفوظ تصور کر رہا ہے، انهوں نے رادھا کرشنن کے جملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جمہوریت  کی کامیابی اسی میں ہے کہ اس میں اقلیتوں کو کتنا تحفظ حاصل ہے۔

حامد انصاری صاحب نے اپنے بیان میں کہا کہ ہندوستان کا مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کر رہا ہے، اس بیان پر پورے ہندوستان میں اور خاص کر جهوٹی ہندوستانی میڈیا میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا، پورا دن پوری رات ان کے بیان پر ہنگامہ برپا رہا، افسوس تو یہ ہے کہ حامد انصاری کی بی جے پی و آر ایس ایس کے حمایتیوں نے جم کر تنقید کی، جب کہ ہونا تو چاہئے تھا کہ ان کے بیان پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا اور اس بیان کو قومی مسئلہ سمجھ کر مسلمانوں کے تحفظ کے لئے کوششیں کی جاتیں، مگر ملک کے دشمنوں اور میڈیا نے ان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی، ان کو ملاءوں کا حامی بتایا گیا اور ایک نائب صدر جمہوریہء ہند کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی، ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ ملک کے وزیرِ اعظم نے پارلیمنٹ میں کہا کہ حامد انصاری ہمیشہ ایک کمیونٹی کے درمیان کام کرتے رہے، اگر ان دس سالوں میں ان کے اندر چهٹ پٹاہٹ رہی ہوگی تو وہ اب نہیں رہے گی، وزیرِ اعظم کا یہ بیان انتہائی قابلِ مذمت ہے، سچ تو یہ ہے کہ حامد انصاری کی ملک و قوم کے لئے خدمات بی جے پی اور آر ایس ایس پر بهی بھاری پڑ جائیں گی، میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ چهٹ پٹاہٹ تو آر ایس ایس، بی جے پی اور اس کے حمایتیوں کو ہے، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 2022 میں ہندوستان کی سرزمین پر ایک بهی مسلمان نہیں بچے گا، تو ایسے لوگوں کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ تم سب مل کر صرف اردو زبان ختم نہیں کر سکتے، اسلام، قرآن اور مسلمان کو ختم کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔

حامد انصاری کے ایک بیان پر ان کو ہر طرف سے گھیرنا اور میڈیا کے ذریعے ان کو مشکوک بنانے کی کوشش کرنا کسی لحاظ سے درست نہیں ہے، وہ ہندوستان کے ایک اہم عہدے پر دس سالوں سے رہے ہیں، باصلاحیت شخص ہیں، 26 جنوری کے دن سلامی کے دوران انهوں نے ہی مودی کو سمجھایا تھا کہ آپ کو سلامی نہیں دینی ہے، اور یہی لوگ آج ان کو درس دے رہے ہیں، اسد الدین اویسی نے حامد انصاری کے بیان کی تائید کی ہے اور تنگ نظروں سے درخواست کی ہے کہ وہ حامد انصاری کی تمام تقریروں کو پڑھیں تو ان کی سمجھ میں سب آ جائے گا- مگر پروپیگنڈہ کرنا تو ان جاہلوں کی فطرت ہے، حامد انصاری صاحب نے کہا کہ ہندوستان میں اقلیتیں غیر محفوظ سمجھ رہی ہیں اور یہی بات عالمی میڈیا اور اخبارات بهی کهہ چکے ہیں، مگر حامد انصاری صاحب کی بات ان کو ہضم نہیں ہو رہی ہے، اخلاق کے قاتل کو بہادر کا خطاب دے کر ہندوستانی پرچم میں لپیٹا گیا، پہلو خان، جنید کو قتل کیا گیا، گھر واپسی کی مہم چھیڑی گئی، چلتی ٹرین میں روزے دار خاتون کی عصمت دری کی گئی، مسلمانوں کو حرام زادہ کہا گیا، بات بات پر غدار وطن کا طعنہ اور پاکستان چلے جانے کی دھمکی دی گئی، مردہ مسلم عورتوں کو قبروں سے نکال کر ریپ کرنے کی بات کہی گئی وغیرہ، اگر ان سب کو سامنے رکھ کر حامد انصاری صاحب نے سچ بیانی کی ہے تو اس سلسلے میں حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

قارئینِ کرام ! ہندوستان کے وزیرِ اعظم نے اپنے پروگرام میں کہا تها کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی ایک دہشت گرد یونیورسٹی ہے، جہاں سے دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں، جب کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت ایک مرکزی یونیورسٹی ہے، مودی نے مسلمان قوم کو کتے کے پلے سے تشبیہ دی تهی، مودی نے قبرستان اور شمشان کی بات کی تھی، تب ملک کے دانشور اور میڈیا کہاں تهے، انهوں نے مودی کے بیانات کو موضوعِ بحث کیوں نہیں بنایا، ان پر پرائم ٹائم کیوں نہیں کئے گئے ؟ سچ تو یہ ہے کہ ان لوگوں کو صرف مسلمانوں کا ایک بیان بهی انهیں ایٹم بم لگتا ہے، کسی بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے اسی کے خلاف جنگ چھیڑ دیتے ہیں، یہ ان کی مسلمانوں سے دشمنی ہے اور انهیں مسلمان برداشت نہیں ہیں – آخر میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ حامد انصاری نے جو کہا ہے اس سے ہمیں اتفاق ہے، اس پر سنجیدگی سے غور کر کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں میں بے چینی کی کیفیت دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے، مسلمانوں کے خلاف حالات مزید خراب نہ ہوں اس کے لئے ذمہ داران بیٹھ کر کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں – حامد انصاری کی سچ بیانی سے بی جے پی اور میڈیا کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے…

حامد انصاری صاحب کی الوداعیہ تقریب میں سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے حامد انصاری کو علامہ اقبال کے ان اشعار سے خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ…

یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام و نشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور جہاں ہمارا

اردو روزنامہ اخبار راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر سید فیصل علی نے حامد انصاری صاحب کی سچ بیانی کو اس شعر سے خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ…

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

جناب حامد انصاری صاحب کی سچ بیانی اور بے باکی پر میں کیوں خاموش رہوں، کچھ بھی ہو، وہ ہیں تو ہماری اپنی ہی قوم کے، میں ان کی سچ بیانی پر خراجِ تحسین اس شعر سے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ…

میں بے پناہ اندھیروں کو صبح کیسے کہوں
میں ان نظاروں کا اندھا تماشہ بیں بهی نہیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔