خطہ پیر پنچال کی سیاست اور عوامی اُمنگیں

الطاف حسین جنجوعہ

یوں توپوری ریاست جموں وکشمیر میں ہی ہرجگہ لوگوں پر سیاست کا بھوت سوار رہتا ہے لیکن صوبہ جموں کے خطہ پیر پنچال(پونچھ اورراجوری)اضلاع میں تو ’سیاست‘سب کا پسندیدہ سبجیکٹ ہے جس میں ہر کوئی صرف پی جی نہیں بلکہ ڈاکٹرکی ڈگری کرنا چاہتاہے۔ ہر کسی کی کوشش رہتی ہے کہ وہ سیاست سے جڑے۔ یوں تو یہ خطہ زندگی کے دیگر شعبہ جات مثلاًا نتظامیہ، ادب ، عدلیہ و تحقیق، طبی، تعلیم وغیرہ میں بھی زرخیز ہے ، لیکن سب  کی زیادہ دلچسپی ’’ سیاست‘‘ہی ہے۔

اللہ کے فضل وکرم سے آپ کو ایک ہی کنبہ /گھرمیں سبھی سیاسی جماعتوں کے لیڈران مل جائیں گے۔ ایک بھائی نیشنل کانفرنس کا زونل صدر ہے تو دوسرا پی ڈی پی کا ترجمان، باپ کانگریس میں تو چھوٹا بیٹا بھارتیہ جنتا پارٹی میں۔ جو بھائی تھوڑا کم اثر رسوخ رکھتا ہے ، اس نے بھی نیشنل پینتھرز پارٹی کا دامن تھام رکھاہے۔اسی طرح ایک موڑہ، محلہ، وارڈ ، پنچایت، گاؤں میںآپ کو تمام قومی ، ریاستی وعلاقائی سطح کی سیاسی جماعتوں کے رہنما مل ہی جائیں گے جوکہ خود کواپنی اپنی جماعتوں میں قدآور قائد سمجھتے ہیں۔ سیاست میں شوق کوئی بری بات نہیں، ضروری بھی ہے کیونکہ جناب والا آج زمینی صورتحال ایسی ہے کہ اگر آپ کا سیاست سے ناطہ نہیں تو پھر نل سے پانی بھرنا بھی مشکل ہے۔ کیونکہ اگر آپ کونل میں پانی نہیں آتا اس کے لئے پی ایچ ای کے چیف انجینئر کی بھی ہدایت کوئی معنی نہیں رکھتی جب تلک سیاسی ورکر کا فون نہ آجائے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر زیادہ سیاستدان ہیں تو پھر آپ کے مسائل ومشکلات تو فٹا فٹ حل ہوں لیکن حیرانگی کا مقام ہے کہ خطہ پیرپنچال میں آج بھی زیادہ تر علاقوں میں پینے کے صاف پانی، بجلی کی فراہمی، رابطہ سڑکوں، اسپتالوں وغیرہ کی سہولیات سے محروم ہیں۔

لوگوں کووقت پر راشن نہیں ملتا، اگر ملتا ہے تو پورا نہیں ملتا، سرکاری اسکول ہیں تو اساتذہ نہیں، اساتذہ ہیں تو عمارت نہیں، عمارت واساتذہ ہیں تو پڑھائی نہیں ہوتی، سڑکوں کے نام پر علاقہ میں جگہ جگہ JCBاور بلڈوزر مشینیں لگا کر کھدائی کر کے چھوڑ دی گئی ہے۔سرکاری ملازمین عوام کے خدمتگار(Public Servant) کم سیاسی ایجنٹ اور شاہکار زیادہ ہیں،سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں،دو اڑھائی ددہائیوں سے زیرتعمیرسڑکیں ابھی بھی ابتدائی مراحل میںہیں۔منریگا کے تحت مزدوروں کو کام نہیں ملتا، کام ملتا ہے تو اجرتیں نہیں دی جاتیں۔پٹواری حضرات نے لوگوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ مہینے میں بمشکل ایک مرتبہ لوگوں کو اس عظیم شخصیت کے دیدار نصیب ہوتے ہیں۔ زمینی نقولات ، خسرہ گرداوری وغیرہ کی حصولی کے لئے کئی کئی ماہ صبر کرنا پڑتاہے۔ایلوپیتھک ڈسپنسریوں ، سب ہیلتھ سینٹرز، پرائمری ہیلتھ سینٹرز، کیمونٹی ہیلتھ سینٹرز، سب ضلع اسپتال، ضلع اسپتال بد نظمی کا شکار ہیں۔ عملہ، ادویات ومطلوبہ ڈھانچہ دستیاب نہیں، نہ جانے کن کن مشکلات سے لوگ گذر رہے ہیں۔ ماہانہ چار سو روپے جوکہ اب حکومت نے ایک ہزار کی ہے ، کی حصولی کے لئے ایک عمر رسیدہ شخص کو ہزاروں روپے خرچ کرنے کے علاوہ کئی کئی ماہ تک دفاتر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، وہاں پر چپراسی سے لیکر ضلع سوشل ویلفیئردفتر کی منت وسماجت کرنی پڑتی ہے۔امیروں کو بی پی ایل راشن ملتے ہیں، غریبوں کو کچھ بھی نہیں، راشن کارڈ بنانے میں بھی دھاندلیاں، آدھار کارڈو ں میں جان بوجھ کر غلطیاں، ان سب کا بیان کرنا میرے اس مضمون کا موضوع نہیں۔ اصل موضوع’خطہ پیر پنچال کی سیاست اور عوامی امنگیں ہے‘، ہم اپنے آپ کو موضوع پر ہی لاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج تک نہ طور پیر پنچال خطہ کو حکومتی وانتظامی سطح پرمناسب نمائندگی مل سکی اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے ہاں ہم لوگ وہ قدر منزلت پاسکے جس کے حقدار تھے۔آخر کیاوجہ ہے کہ ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں، کیوں اہلیت، قابلیت، تجربہ ہونے کے باوجود ہماری وہ اہمیت نہیں، ہم نا انصافی، امتیاز اور متعصبانہ رویہ کا شکار ہیں۔ہمیں خود اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے  ساتھ ایسا کیوںہورہاہے۔ کیوں ہماری آواز اتنی کمزور پڑ گئی کہ کوئی سیاستدان ، حکمران ہماری بات پر توجہ نہیں دیتا۔ کیوں ہمیں صرف ووٹ بنک سیاست کے طور استعمال کیاجاتاہے۔ کیوں ہر کوئی ہمارا استحصال کرتاہے، ہماری تزلیل کی جاتی ہے۔ یہ سب سوال تلخ اور کڑوے ضرورہیں لیکن ان کے جواب تلاش کرنے ، سچائی ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے۔ اپنا محاسبہ وقت کی اہم پکار ہے۔

سیاست پیشہ میں دلچسپی ، شوق وجذبہ ہونا اوراچھے ڈھنگ سے سیاست کرنے میں بڑا فرق ہے۔سیاسی دھڑے بندی، آپسی اختلافات، رسہ کشی اور خود ہی سب کچھ بننے کی دوڑ میں ہماری حالت اس طرح کی ہوگئی ہے کہ ’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، نہ اِ دھر کے رہے نہ اُدھر کے‘۔ہمیں یہ مان کر چلنا چاہئے کہ ایک وقت میں صرف ایک ہی ایم ایل اے بن سکتا ہے اور دو یا تین ایم ایل سی ہی بنائے جاسکتے ہیں۔ ہم سب سوچتے ہیں کہ سبھی ایم ایل اے بن جائیں سبھی کو ایم ایل سی کا عہدہ مل جائے جومشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ساعمل ہے۔اس وقت خطہ پیر پنچال سیاست کامشاہدہ کیاجاتاہے تو نہ صرف حزب اختلاف بلکہ حکمراں جماعتیں بھی دھڑے بندی کا شکار ہیں۔راجوری،کالاکوٹ، درہال، نوشہرہ،مینڈھر، حویلی پونچھ اور سرنکوٹ سبھی اسمبلی حلقوں میں یہی صورتحال ہے۔

نیشنل کانفرنس، کانگریس، پی ڈی پی ، بھارتیہ جنتا پارٹی جوکہ اہم سیاسی جماعتوں میں دھڑے بندی، آپسی رسہ کشی ، اختلافات اس قدر سنگین ہیں کہ کوئی صورت بھر نہیں آتی۔سبھی سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنما پارٹی قیادت سے اعلیحدہ اعلیحدہ وفود کی صورت میں مل کر خود ہی خوب تعریف، قصیدہ گوئی کرتے ہیں تو دوسرے ساتھیوں کی سینکڑوں خامیاں پارٹی لیڈرشپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ اسی طرح پارٹی کا دوسرا دھڑہ بھی جب پارٹی ہائی کمان سے ملتا ہے تو اپنے ساتھیوں کے کپڑے ادھیڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ انتخابات کے دوران ٹکٹوں کی تقسیم ہو، حکومت میںکوئی عہدہ دینے کی بات ہو، تنظیم میں کو ئی ذمہ داری دینے کی بات ہو، یہاں پر ایک جماعت کے لیڈران خود ہی آپس میں دست وگریبان ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کی بظاہر وخفیہ بھرپور مخالفت کی جاتی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پیر پنچال خطہ میں اسمبلی انتخابات کے دوران کسی امیدوار کی ہار اس کے حریف کی مضبوطی کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اپنے ساتھیوں، اپنی پارٹی کے ورکروں، لیڈران کی غداری اور منفی رول کی وجہ سے ہوتی ہے جو بظاہر تو ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن ’منہ میں رام ، بغل میں چھری‘کے مترادف ، اندر ہی اندر شکست دلانے کی ہرممکن تیاریاں کرتے ہیں۔اس حوالہ سے چند برس قبل میں نے ایک سیاسی لیڈر سے یہ پوچھا کہ آپ کا اچھا اثر رسوخ تھا پھر بھی آپ کی جماعت کا امیدوار ناکام ہوگیاتو اس نے جواب دیا’جناب ہم بظاہر اس کے ساتھ تھے لیکن اندر سے ہم نے اپنے ووٹروں کو بھول رکھاتو اس کو ووٹ مت تو کیونکہ وہ جب ایم ایل اے بن گیا تو ہماری کیا اہمیت رہے گی ، ہمیں پارٹی میں کون پوچھے گا، اس لئے اس کو ہروایا تاکہ پارٹی کو ہماری طاقت کا احساس ہوسکے‘۔یہ جواب سن کر مجھے ہنسی بھی آئی اور دکھ بھی ہواکہ ہم کتنے گرچکے ہیں کہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے اور اپنے وقار کو کم کرنے کو ہم اپنی فتح سمجھتے ہیں۔

حکمراں جماعتوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ ایک لیڈر جب کوئی پروجیکٹ یا مسئلہ لیکر کسی وزیر کے پاس آتاہے تو اس کی بھنک جب دوسرے کو لگتی ہے تو وہ بھی منسٹر کے پاس پہنچ کر اس کی بھر پور مخالفت کر کے اپنا اعلیحدہ سے مطالبہ کرتاہے۔زمینی سطح پر عوامی جلسوں، میٹنگوں میں ہر کوئی خود کو سب سے بڑا لیڈر اور حکومتی عہدادران سے بالکل قریب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور پارٹی قیادت کی نظروں میں سبھی اپنی قدرومنزلت کھوچکے ہیں اور کوئی بھی مقبول نہیں ۔صرف سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ مذہبی، سماجی، رضاکار تنظیمیں بھی تفرقہ بازی کا شکار ہیں۔ہماری حالت یہ ہے کہ’’ ہمیں کوئی بُرا کہے یہ ہم برداشت نہیں کرتے اور ہم کسی کو اچھا کہیں یہ کبھی ہونہیں سکتا‘‘۔ آج حکومتی سطح پر ہماری کوئی سن کر راضی نہیں۔ بڑے بڑے پروجیکٹوں ، منصوبوں کی بات تو دور پانی ، بجلی اور سڑک کے مسائل حل نہیں ہورہے۔کہتے ہیں جوچیز عام ہوجاتی ہے اس کی اہمیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ ہر گھر، محلہ، گاؤں، پنچایت میں سیاسی لیڈران کی بھر مار سے ’سیاست‘ پیشہ کی اہمیت وافادیت بالکل کم ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ کہنامبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ خطہ پیر پنچال ’سیاسی دیوالیہ پن کا شکار ہے۔ہمارے ذاتی مفادات کی تکمیل تو ہورہی ہے لیکن ہم عوام کے لئے کچھ نہیں کر پارہے۔یہ میرے رائے ہے  ضروری نہیں کہ کوئی اس سے متفق ہو۔سیاست، انتظامیہ، عدلیہ، سماجی کاموں، اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں برابر کا توازن برقراررکھ کر ہی ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہم اکیلے سب کچھ ہوکر بھی کچھ نہیں، ساتھ مل کر چلنے میں ہی ہماری کامیابی ہے۔

ایکدوسرے کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلیں۔ آپسی اختلافات، رسہ کشی، رنجشوں کو درکنارہ کر اتفاق واتحاد کا مظاہرہ کرکے خطہ پیر پنچال کے عوامی وترقیاتی مسائل کوحل کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ ہمیں دوسروں پر الزام تراشیاں کرنے، ان میں کمیاں ڈھونڈنے کے بجائے ، ان سے شکوہ شکایت کے بجائے خود اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی خامیوں کو تلاش کرکے انہیں دور کرتے ہوئے اپنے منصوبوں کی تکمیل میں محو ہونے کی ضرورت ہے۔ خطہ پیر پنچال ریاستی سطح ُکی سیاست وحکومت میں وہ جائز مقام نہیں پاسکتا جس کے ہم مستحق ہیں، جب تلک سیاسی جماعتوں سے وابستہ سیاسی لیڈران دھڑے بندی، آپسی رسہ کشی، اختلافات ، رنجشوں کو درکنار کر کے اہلیت، قابلیت، تجربہ اور دور اندیشی کی بنیاد پر کسی کو اپنا رہنما چنیں، اس کاساتھ دیں تاکہ ہمارے مسائل کی حکومتی سطح پر سنوائی ہو، سیاسی جماعتوں کے اندر ہمیں مستحق مقام ملے۔

ایک عام ووٹر سے التجا رہے گی کہ وہ پہاڑی، گوجر، کشمیری، ڈوگرہ کے نام پر چل رہی سیاسی دکانوںپر روک لگاکر اپنی اہمیت کو سمجھے، موقع پرست ، مفاد پرست سیاستدانوں کو اپنے ووٹ کی قیمت کا احساس کرائے۔ مذہب، ذات، پات، علاقہ اور فرقہ کے نام پر کی جانے والی سیاست سے عام ووٹرکو کچھ نہیں ملنے والا، اس سے تو ایک Creamy Layerبن رہی ہے جوکہ ہم سب کا استحصال کرتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔