سیاست دانوں میں اعلیٰ سوچ کا فقدان: بہار بند کے تناظر میں

رضی الہندی

   بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا کی ہر مذہبی قوم ہے اور اس کی آزادی کے بعد میں تمام لوگوں کو اپنی اپنی قوم کی سیاسی نمائندگی کرنے کا حق آئین ہند میں ہے۔اور اسی کا مظہر ہے کہ ملک بھر میں چھوٹی بڑی سیکڑوں سیاسی پارٹیوں کے وجود سے انکار محال ہے ۔

  مگر اس سے ملکی سطح پر بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے کیونکہ ہر چھوٹی بڑی مشکلات کا حل کرنے کے لئے مرکزی حکومت کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو اپنے اپنے ذاتی برادری اور قوم کے قائد ہر ایک مسئلہ پر بار بار مظاہرہ کرتے ہیں اور عوامی زندگی کی اشیاؤوں کو اپنی بات منوانے کے لئے نشانہ بناتی ہیں ۔

 ابھی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بہار کے مظفر پور میں عورتوں کی عزت و عصمت کو بار بار تار تار کرنے کی خبر نے انڈیا کو بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے اور یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا ہے اور

سپریم کورٹ نے بہار کے مظفر پور شیلٹر ہوم معاملے میں انتہائی سخت رخ اختیار کیا ہے۔ جمعرات کو عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی سماعت کی۔ اس معاملے میں عدالت نے سخت رخ اپناتے ہوئے مرکزی اور بہار حکومت کے ساتھ ساتھ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کو نوٹس بھی جاری کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے میڈیا سے بھی کہا ہے کہ وہ متاثرین کی پہچان ظاہر نہ کریں۔

  ایسے ہی واقعات دیش کے کونے کونے سے بار بار افق روزنامہ کی زینت بناکرتے ہیں اور پھر ایک بحث چھڑ جاتی ہے کہ کیا ملک میں عورتوں کو تحفظ حاصل ہیں ۔۔؟یوپی کے دیوریا، گھوسی مئو، بارہ بنکی، اور دیگر مقامات سے بھی دلدوز خبریں آئیں اور مدھیہ پردیش میں بھی ایسی گھٹنائیں عام ہیں تو کیرالہ ھند کے رول ماڈل صوبہ سے بھی یہ خبریں موصول ہوئیں اور دلی کو تو اس کی راجدھانی کہاجاتا ہے یہاں تک کہ گذشتہ سال کی عالمی رپورٹ کے مطابق بھارت عورتوں کے لئے غیر محفوظ ہونے کی اپنی رینک میں اور نیچے گرگیا اور دنیا کے میں بڑی شرمشاری کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔

  بگڑے حالات کو اعلیٰ قانون پاس کر روکا جاسکتا تھا لیکن اس پر جو توجہ دیکر قانون ایوانِ اقتدار میں پاس ہوا اسکا کوئی اثر نہیں ہوا ہے ۔

  یہی وجہ ہے کہ ماضی کی طرح ملک کی روایت کو زندہ کرتے ہوئے بہار کے مظفر پور شیلٹر ہوم میں ہوئے جنسی استحصال معاملے میں  بایاں محاذ پارٹیوں نے بہار بند کا اعلان کیا ۔ اپوزیشن پارٹیوں کے بہار بند کا آر جے ڈی سمیت کئی حزب مخالف پارٹیوں نے بھی حمایت کی ۔ راجدھانی میں بند کےد وران گاندھی میدان کے پاس پولس اور بند حامیوں کے درمیان تصادم کی خبریں بھی موصول ہوئی ہیں۔ بند کو دیکھتے ہوئے پٹنہ میں سبھی اسکولوں کو بند کر دیا گیا ہے۔

 ذرا سوچئے! 

   اسکول بند نقصان کس کا ۔۔؟ جرم کس کا اور سزا طالبعلموں کو ۔۔۔؟کیا اس طرح انصاف کا حصول ممکن ہے ملک میں مستقبل قریب میں بیداریوں میں اضافہ ہوگا یا مزید نقصان ۔۔؟ پولیس سے جھڑپ ہوئی ظاھر ہے حزب مخالف جتنا مضبوط ہوتا ہے اتنے ہی مصروف ترین شاہراہ عامہ پر مظاہرے کرتا ہے اور اسکا مطلب ہے سواری گاڑیاں، مریضوں کے ایمبولینس اور عام زندگی  متاثر ہو جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتا ہے ۔

کون سا انصاف ملا ۔۔؟

عوام کا کیا بھلا ہوا۔۔؟بے جا جانی نقصان پہنچا شہر کی اکانامی پر اثر پڑا اور بہت سے مزدوروں کی مجبوریوں میں اضافہ کا باعث بنا۔   یہ اثر محض بہار ہی نہیں پورے ملک میں جہاں بھی مظاہرہ کیا جاتا ہے اسکا منفی اثر وہاں پڑتا ہے اس اور توجہ دیکر مظاہرین کے آقاؤں کو چاہیے کی غیر مصروف علاقوں میں اپنے دھرنے و مظاہرے کرکے ،میڈیا کو جمع کریں اور سرکار کے خلاف اپنی تقاریر وبیانبازیاں کریں تو بہتر ہوگا ۔

ذرا اس تناظر میں آگے کی رپورٹ پر نظر ڈالیں۔

اپنے علاقوں کے عینی شاہدین کی رپورٹ کے مطابق بہار بند کا اثر پوری ریاست میں دیکھنے کو ملا، آراہ، گیا، جہان آباد، شیخ پورہ، نالندہ میں اپوزیشن پارٹی حامیوں نے ٹرین کو روکا تو کئی مقامات پر سڑک ٹرانسپورٹیشن بھی پوری طرح سے متاثر رہی۔ شیخ پورہ میں بہار بند حامیوں نے ہاوڑا-گیا ایکسپریس ٹرین کو روک دیا اور ریلوے ٹریک کو بھی جام کیا ہے۔ جہان آباد میں بند حامیوں نے پٹنہ-رانچی جن شتابندی ایکسپریس کو روکا جب کہ دربھنگہ میں آر جے ڈی اور سی پی ایم کارکنان نے بہار سمپرک کرانتی ٹرین کو روک دیا۔ مدھوبنی میں بھی گنگا ساگر ایکسپریس کو بند حامیوں نے روکا۔ اس کے علاوہ ریاست کے کئی حصوں میں بند کا اثر دیکھنے کو ملا۔

سیوان میں سی پی ایم کارکنان نے چکہ جام کر دیا اور  ان کے ساتھ آر جے ڈی بھی اس بند میں شامل رہی۔ مشتعل کارکنان نے حکومت کے خلاف زوردار نعرے بازی کی۔ کارکنان نے جے پی چوک پر ٹرک کھڑا کر ٹرانسپورٹیشن میں رخنہ پیدا کر دیا۔ آر جے ڈی کارکنان کشن گنج میں بس اسٹینڈ کے نزدیک این ایچ 31 کو جام کر مظاہرہ کر رہے ہیں۔

نوادا نالندہ ضلع جہاں کہ سینک اسکول ہے کے جنوب میں بسا ہے وہاں سی پی آئی ایم کے کارکنان نے حکومت اور  انتظامیہ کے خلاف مظاہرہ کیا ہے۔

مدھے پوری مظاہرین نے مدھے پورہ ضلع کے مرلی گنج میں این ایچ 1077 شاہراہ پر بینگا پُل کو جام کر مظاہرہ کیا۔ مدھے پورہ شہر کے کرپوری چوک کو بھی جام کر مظاہرہ کیا گیا۔

 دربھنگہ-جے نگر قومی شاہراہ 527 بی کو دڑیما چوک پر جام کر دیا گیا۔ قومی شاہراہ 577 کو بھی سمری تھانہ چوک پر بند حامیوں نے جام رکھا۔

 بہار بند تحریک کے دوران رہیکا–مدھوبنی، رہیکا-جے نگر، رہیکا- دربھنگہ (این ایس 105) پر گاڑیوں کی قطار لگ گئی۔

موتیہاری میں اپوزیشن پارٹیوں کے بند کی وجہ سے مینا بازار میں جام کی حالت بن گئی۔ موتیہاری میں اپوزیشن پارٹیوں کے بند کی حمایت میں سماجوادی پارٹی بھی سڑکوں پر اتری۔ مظفر پور میں شیلٹر ہوم کا واقعہ انجام دینے والے قصورواروں کو پھانسی کا مطالبہ کرتے ہوئے جلوس بھی نکالا گیا۔

گوپال گنج میں آر جے ڈی ضلع صدر اور سابق ممبر اسمبلی ریاض الحق راجو کو 1588 حامیوں کے ساتھ نگر تھانہ پولس نے گرفتار کیا۔ بہار بند کے دوران ایس ڈی پی او اور ایس ڈی ایم کی قیادت میں گرفتاری ہوئی۔

بتیا کے میناتاڑ میں سی پی آئی ایم حامیوں نے بتیا–میناتاڑ شاہراہ کو جام کر دیا۔ بانس بلے سے گاؤں کی طرف جانے والے راستوں کی بھی گھیرابندی کی۔

اس درمیان آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار پر نشانہ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’’وزیر اعلیٰ نتیش کمار جی سے مظفر پور عصمت دری واقعہ پر منھ کھلوا کر رہوں گا۔ ان کی مجرمانہ خاموشی تڑوا کر رہوں گا۔ ان کے کمبھ کرنی ضمیر کو جگا کر رہوں گا۔ ان کی فرضی اخلاقیات ظاہر کر کے رہوں گا۔ ان کا بناوٹی مکھوٹا اتار کر رہوں گا۔ چاہے جو بھی وقت لگے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ بار مظاہروں، بندیوں، اور بازیگری سے جو نقصان پہنچ رہا اس پر فکر و تدبر کیا جائے اور عمدہ سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمدہ تدبیریں اختیار کی جائیں اور غریب عوام کے کروڑوں روپے کے نقصان کو روکا جائے اور ان کے حق میں مناسب قانون لایا جائے اور بلتکاریوں کو سخت ترین سزائے موت دی جائے تاکہ عورتوں کا استحصال رکےاور یہ مسئلہ بار بار سیاست  کا موضوع نہ بن سکے۔اور دیوی کی طرح عورتوں کو پوجے جانے والے ملک میں عورتوں کا وقاربلند ہو اور یہ ایک شریف بچہ کی ماں اورعظیم قوم کی معمار بن سکیں اور ملک کے کروڑوں روپے بچت کرنے والی عوام دے سکیں ۔اور قابلِ فخر سیاست دانوں کی فوج تیار ہو ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔