سیاست میں مسلمانوں کی حصہ داری، وقت کی اہم ضرورت 

احساس نایاب

 کرناٹک سمیت پورے ہندوستان میں لوک سبھا چناو کو لے کر جس طرح کی گہما گہمی ہے اُس کا گہرائی سے جائزہ لیں گے تو پتہ چلے گا کہ ملک میں حالات وہم و گماں سے بھی کئی گنا زیادہ سے بدتر ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ہر باشعور انسان غور و فکر کرنے پہ مجبور ہے۔

دراصل ہندوستان کی آب وہوا میں ہندوتوا کا زہر اس قدر گھُل چکا ہے کہ آج حکمران کا چناؤ ملک کی فلاح بہبودی پہ نہیں کیا جارہا بلکہ ذات, دھرم, گوتھر کو فوقیت دی جارہی ہے. جس کے چلتے مسلمانوں کے حق میں سیکولر کہلانے والی نہ کوئی سیاسی جماعت کھڑی ہے اور نہ ہی سیکولرازم کا دم بھرنے, اتحاد و ایکجہتی کی دہائی دینے والوں میں کوئی اعتبار کے قابل ہے کیونکہ آج حب الوطنی کے نام پر ہندوتوادی سوچ کا غلبہ ہے جو لوگوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے، جس کا خلاصہ ہم پورے وثوق کے ساتھ کریں گے، اس یقین کی وجہ وہ نظریہ ہے جو چند سالوں سے اپنے اطراف و اکناف پیش آرہے چھوٹے بڑے واقعات اور لوگوں کی ایک ایک حرکت پہ گڑھی ہوئی ہے۔

مثال کے طور پر حال ہی میں شہر کے کئی علاقوں میں جانا ہوا جن میں پارک بھی شامل ہے اور یہاں پر اتفاق سے میڈیا کی پوری ٹیم اپنے کیمروں کے ساتھ موجود تھی جو ہونے والے انتخابات کے لئے پبلک اوپینین کے غرض سے آئی تھی، ان کے ارد گرد لوگوں کا ایک بڑا ہجوم بھی جمع ہوچکا تھا، اتنے بڑے ہجوم کو دیکھ کر ہمارا بھی تجسس بڑھا، انتخابی ماحول جاننے کی نیت سے ہم بھی اُس بھیڑ کا حصہ بن کر لوگوں کے ہاؤ بھاؤ کا جائزہ لینے لگے جن میں عوام کے علاوہ بی جے پی سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے کارکناں موجود تھے۔

بی جے پی کارکنان انتخابی تیاریوں کو لے کر اتنے سنجیدہ نظر آئے کہ اپنے نیتاؤں نمائندوں کو جتانے کی خاطر جھوٹ اور فریب کا سہارا لیکر پورے جوش و خروش کے ساتھ پیش پیش نظر آئے، یہاں تک کہ انہوں نے پروپگینڈا کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا تکلیف دہ بات یہ بھی رہی کہ اس عمل میں انہیں وہاں موجود عوام کا بھرپور ساتھ مل رہا تھا۔

تو دوسری طرف کانگریس, جے ڈی ایس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے کارکنان بےمطلب کہ مطالبات کرتے ہوئے خواب آغوش میں نظر آئے ایسا لگ رہا تھا مانو انہیں کانگریس یا اپنی پارٹی کی ہار جیت سے کوئی لینا دینا ہی نہ ہو۔

اسی دوران زمینی سطح سے جڑے اور کئی حقائق کا سامنا ہوا کہ کوئی کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ جڑا ہو مگر سارے کسی نہ کسی انداز میں حمایت بی جے پی کی ہی کررہے تھے.

ٹرولنگ نامی جو جنگ سوشل میڈیا پہ چل رہی ہے اب وہ سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہی بلکہ سوشل میڈیا سے نکل کر شہر کی گلی و کوچوں پارکوں اور تمام پبلک مقامات پہ پیر پسارے ہوئے ہے، جن کی ذمہ داری مودی کی جئے جئے کار کرتے ہوئے بھاچپائی لیڈران کے دفاع میں ہاتھا پائی کرنا ہے وہ بھی بنا کسی خوف کے کیمرہ مین اور میڈیا کا دیگر عملہ وقتا فوقتا اس بھیڑ کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کرتا رہا، ساتھ ہی لوگوں سے کئی سوالات پوچھے گئے, جن کے جوابات بےحد چونکا دینے والے تھے،

رپورٹر نے پوچھا ” اس دفعہ کس پارٹی کو کن مدعوں کی بنیاد پر ووٹس دینی چاہئیے ڈیولپمنٹ یا …؟؟

تو جوابات کچھ یوں تھے

“سرجیکل اسٹرائک کیا گیا ہے اسلئے …. طلاق بل پاس کروایا گیا…. پاکستان سے بدلا لینے والی یہ واحد پارٹی ہے …. یوگی ,مودی سے ہندوتوا ہے اور ہندوتوا سے ہمارا وجود ہے …. راہل کو بات کرنی نہیں آتی مگر مودی باتیں بہت اچھی کرتے ہیں وہ ہمارے لئے بھگوان ہیں اگر وہ راگھویندر کی جگہ کسی گدھے کو بھی امیدوار بناتے تو ہم خوشی خوشی اُس کو ووٹ دیتے کیونکہ پوری دنیا کے آگے مودی کی بدولت ہی ہندوستان کی آن بان شان ہے ” وغیرہ وغیرہ

اکثر لوگ بی جے پی کی حمایت کررہے تھے اور اُن کی نظر میں ووٹ دینے کے لئے ان وجوہات کے سوا کہیں پر بھی ملک کی فلاح و بہبودی کا ذکر بھی نہیں تھا اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہاں جتنے بھی لوگ موجود تھے سارے کہ سارے کسی نہ کسی شعبے سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ “گنوار” تھے

اسی بیچ رپورٹر سے ہماری بھی کچھ لمحے گفتگو ہوئی دوران گفتگو یہ محسوس ہوا کہ میڈیا کا جھکاؤ یا لگاؤ جو بھی سمجھیں زیادہ تر اُسی طرف ہے جدھر سے مودی کے نام کی آواز گونجتی ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ صرف نیشنل میڈیا ہی نہیں بلکہ تمام میڈیا ہاؤز مودی کی مالا جپ رہا ہے۔

لیکن بہت زیادہ برا تو اُس وقت لگا جب کانگریس کارکنان پیٹھ پیچھے بی جے پی کی حمایت کر جس تھالی میں کھا رہے ہیں اُسی میں چھید کررہے تھے۔

اس لئے کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کو چاہئے کہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے کارکنان کی ناک میں نکیل ڈالیں ورنہ یہ پانچ سال کیا آنے والے کئی سالوں تک اقتدار کا خواب محض خواب ہی بن کر رہ جائیگا۔

ان حالات میں گائے جیسے سیدھے سادھے بھولے بھالے مسلمان اس قدر کانگریس کے مرید بن کر خود کو فریب دے رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہمارا یہ بھروسہ , اعتبار, اندھا یقین ہماری ہی واٹ لگائیگا کیونکہ اکا دکا لوگوں کے علاوہ کانگریس کے زیادہ تر کارکنان سنگھی ذہنیت کے حامی ہیں جو سلو پوائزن بن کر ایک طرف کانگریس کو اندرونی طور سے کھوکلا کر رہے ہیں تو دوسری طرف مخفی طریقے سے بی جے پی کو جتانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگار ہے ہیں یا یوں کہیں ہار کے ڈر سے بوکھلائی کانگریس خود ووٹ کاٹنے کا کردار ادا کر رہی ہے جسے آپسی تال میل سانٹھ گانٹھ کہا جاسکتا ہے، جیسے دکنی زبان میں کہتے ہیں ” تو مارے جیسا کر میں روئے جیسا کرتوں ” شاید اسی لئے کانگریس نے مسلم قیادت والی پارٹیوں کو سرے سے نظرانداز کیا ہے , مظبوط امیدواروں سے ہاتھ ملانے کہ بجائے نوسیکھوں کو میدان میں اتارا ہے۔

آخر سیاست ہے جہاں جیتو یا ہارو دونوں زاویہ میں ذاتی مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔

ان تمام حالات کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد بھی مسلمان کانگریس سے جنم جنم کا ساتھ نبھانے کی ضد پر اڑے ہیں , ہمارے سروں پہ وفاداری کا بھوت سوار ہے جس کو نبھانے کے چکر میں گھن چکر بن کر دُم ہلاتے ہوئے گھوم رہے ہیں, کبھی وفاداری کے نام پہ تو کبھی ذاتی مفاد کی خاطر قوم کے مستقبل کو تباہ و برباد کر رہے ہیں جی حضوری کو شیوہ بنا کر اپنی غیرت کا جنازہ انکال رہے ہیں خود تو ڈوب ہی رہے ہیں ساتھ میں قوم کو بھی لے کر ڈوب رہے ہیں۔

سمجھ نہیں آرہا آخر ان کی عقلوں پہ کونسا پردہ پڑا ہے, حالات صاف ہیں کانگریس راہل گاندھی, سونیا, پرینکا, من موہن سنگھ , غلام نبی آزاد یا دوچار لوگوں کے ساتھ سے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی بلکہ کئی وفادار ایم پی, ایم ایل اے, کارپوریٹرس اور لاتعداد کارکنان کا اتحاد ضروری ہے مگر جہاں ہندوتوادی ذہنیت نے سیکولرزم کا عارضی لبادہ اوڑھا ہوا ہو وہ نہ کانگریس سے وفا نبھائیں گے نہ کبھی ملک و ملت کے لئے کام کرینگے نہ ہی مسلمانوں کے ہمدرد بنیں گے۔

ویسے بھی آج مسلمانوں کو جھوٹی ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں اپنا حق, سیاسی حصے داری چاہئے۔

یہاں غورطلب بات یہ بھی ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کی 72 سالہ وفاداری کو فراموش کر کے ہمارے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کیا ہے جبکہ مسلمانوں کی نمائندگی ہی اُس کے لئے جیت کی علامت ہے باوجود اس کے کانگریس نے ہمیشہ سے مسلمانوں کو ٹیشو پیپر کی طرح استعمال کر پھینک دیا یا کٹھ پتلیوں کی طرح انگلیوں پہ نچایا ہے۔

جس کا ثبوت پارلیمنٹ میں چلی وہ بحث ہے جو کبھی بھلائی نہیں جائے گی جس وقت ہماری شریعت میں جبرا مداخلت کرتے ہوئے طلاق ثلاثہ کو مدعا بناکر پارلیمنٹ میں بحث کی گئی اور اُس مشکل وقت میں ہمارے بزرگ رہنماء اسرارلحق قاسمی رحمہ اللہ جی جو بہترین انداز میں اسلام کی ترجمانی کرسکتے تھے مگر کانگریس نے انہیں بحث میں حصہ لینے سے روک دیا۔۔!

آج ہمیں ماضی سے جڑے ان تمام واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے 2019 میں یہ فیصلہ لینا ہوگا کہ مستقل ہمیں کانگریس کے اشاروں پہ ناچنا ہے یا اپنی غیرت و جراءت کے ساتھ ملک و ملت کی خاطر ایوانوں میں مسلمانوں ,مظلوموں , اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے حق میں مضبوط آواز بن کر کھڑا ہونا ہے ؟

 یہاں اس بات کو بھی ذہن نشین کرلیں کہ کانگریس جیتے یا بی جے پی ہارے دونوں صورت حال میں مسلمانوں کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا ہے۔

اس حقیقت کو ایکسیپٹ کرتے ہوئے ابھی سے ہم اپنے آنگن کے پودوں کو پانی دینگے تو انشاءاللہ وہ بہت جلد سایہ دار شجر بن کر تپتی دھوپ میں سایہ فگن بنے گا ……… اگر اس کے برعکس دیمک لگے کھوکھلے تنے کو ہم کتنا بھی مضبوط کرنے کی کوشش کریں وہ مضبوط تو نہیں بنے گا بلکہ جو اُس سے قریب ہے وہ اُسی پر آفت بن کر گرے گا۔

سو وقت کا یہی تقاضہ ہے کہ اوروں میں سہارا تلاش کرنے کے بجائے خود کو مضبوط کریں جس کے لئے مسلمانوں کو متحد ہوکر دلتوں اور دیگر تمام اقلیتی طبقات کو اپنے ساتھ شامل کر کے بی جے پی اور کانگریس کو اپنی طاقت و جراءت سے روبرو کروائیں

آخر میں اس بات کو واضح کرنا بھی بیحد ضروری ہے کہ حال ہی میں ایک نیوز پورٹل کی اور سے کئے گئے کانکلیو کی رپورٹ کے مطابق کئی اسکالرس, علماء , دانشوران نے انتخابات 2019 میں ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی حصہ داری , موثر نمائندگی اور اقتدارمیں شراکت کو لے کر کھل کر بحث کی، الیکشن 2019 کے پیش نظر سبھی کا کہنا تھا کہ ستر سالوں میں ہم نے کانگریس , آرجے ڈی , ایس پی , بی ایس پی , ٹی ایم سی , جے ڈی ایس , سی پی ایم سمیت تقریبا سبھی پارٹیوں پر بھروسہ کیا، ان کے نمائندوں کو مسلم اکثریتی حلقوں سے ووٹ دیکر کر ایوان میں بھیجا۔

لیکن رواں انتخابات میں ملک کے لوک سبھا کی جن سیٹوں پر آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ, آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ( AIMIM ), سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ( SDPI ), ویلفیئر پارٹی آف انڈیا, راشٹریہ علماءکونسل, سمیت متعدد قابل ذکر مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کے نمائندے انتخاب لڑ رہے ہیں وہاں مسلمانوں کو انہیں بھر پور سپورٹ کرنا چاہیئے، بڑی تعداد میں ووٹ دیکر انہیں پارلیمنٹ میں پہونچانا چاہیئے، یہ لوگ ہندوستان کے مسلمانوں, کمزوروں, مظلوموں, اقلیتوں, دلتوں اور پسماندہ طبقات کی مضبوط آواز ہوں گے اور انشاءاللہ ان کے حقوق کی لڑائی لڑیں گے اور نظریاتی سطح پر ہماری ترجمانی کریں گے، جسطرح مظلوموں کے لئے انصاف, اقلیتوں کے حق کا مطالبہ کرتے ہوئے اسدالدین اویسی کی بےباک آواز پارلیمنٹ میں گونجتی آئی ہے،

بقیہ دیگر سیٹوں پر آپ سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دیجئے ان کے نمائندوں کو ایوان تک پہونچایئے۔

کیونکہ دیگر سیکولر پارٹیاں مسلم قیادت کو پنپنے نہیں دینا چاہتی ہے، ان کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر کمزور و بےبس بے اختیار اور محتاج بن کررہیں۔

یاد رہے وقت رہتے ہم نے صحیح اقدام نہیں اٹھائے , ستر سالہ غلامی کی سوچ کو نہیں بدلا تو اللہ نہ کریں مستقبل میں ہم سے ووٹ دینے کا حق بھی چھین لیا جائے گا اس لئے بہتری اسی میں ہے کہ آج سے ہی ہم یہ عزم کرلیں کہ ہمیں ہر حال میں متحد ہوکر مسلم قیادت والی پارٹیوں کو کامیاب کر ایوان تک پہنچاتے ہوئے ہماری سیاسی طاقت کو مضبوط بنانا ہے اس کے لئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے رہنماء و دانشوروں کے اس فیصلے کو خوش دلی کے ساتھ خیرمقدم کریں کیونکہ یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔