سیاست کا بدلتا رخ اور سیاسی قائدین کی ذمہ داریاں

محمد حسن

حالیہ دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے احاطے میں جو واقعات پیش آئے قابل افسوس اور لائق مذمت ہیں، سیاست کا رخ کس طرف مڑتا جارہا ہے قیاس سے پرے ہے، کانگریس کے بزرگ لیڈر جناب سلمان خورشید صاحب کے کانگریس مخالف بیان سے ان کا مقصد چاہے جو بھی ہو لیکن ادا شدہ الفاظ سے سارے اجمال سے پوری طرح پردا اٹھ گیا ہے، سیاسی مبصرین نے اپنی بساط بھر قیاس آرائیاں کی ہیں اورمطلب نکالنے کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن وقتی طور پر اور تاریخی بنا پران کا بیان کانگریس مخالف ہی ہے اور ان کا رجحان کانگریس کے تئیں صاف ظاہر نظر آرہا ہے جوکہ گزرتے دنوں کے ساتھ آشکارا ہوگا۔ ابھی یہ واقعہ زبان زد عام تھا اور اس کو لے کر سیاسی بازار گرم ہی تھا کہ اسی احاطے میں سابق نائب صدرجمہوریہ حامد انصاری صاحب کو تاحیات رکنیت دئے جانے کے دن لوک سبھا ممبر ستیش کومار گوتم صاحب نے نیا ہنگامہ برپا کردیا اور سبزہ زار لہولہان بنا دیا، جناح صاحب کی تصویر یونیورسٹی کے یونین ہال کی دیوار میں لگی دیکھ کر ستیش صاحب برہم ہوگئےاور ہندوجاگرن منچ کے افراد نے توڑپھوڑ مچادی اور پھر پولس لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ہوائی فائرنگ تک کی نوبت پیش آئی۔

ملک ہندوستان میں سیاسی دخل اندازی کا دائرہ محدود ہے اور نہ ہی میدان متعین ہے، کس چیز کو لے کر سیاست کی جانی چاہئے، کون سا عمل سیاست میں داخل ہے اور کون سا نہیں اس کا وجود نہیں ملتا اگر ہے بھی تو سیاست کے کارپردازوں نے اسے بے نام ونشاں کردیا ہے۔ یوں تو ہمارے ملک ہندوستان میں سیاست اور سیاسی چہروں کی اپنی ایک طویل تاریخ رہی ہے لیکن وہیں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جس کو سیاست کا کاز نہ بنایا گیا ہو اوراس پر سیاسی روٹیاں نہ سینکی گئی ہوں۔ اِن دنوں ملک جہاں دیگر گوں حالات سے گزررہا ہے مذہب سیاسی خطرے میں ہے، عزت وناموس داؤ پر ہے، ہزاروں جانیں سولی لٹکتی نظر آرہی ہیں وہیں اب دانش گاہوں پربھی نظر بد رکھ دی گئی ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد سرسید خان نے آزادی سے پہلی رکھی تھی اور یہ ادارہ اس وقت وجود میں آیا جب پاکستان کا کوئی نام ونشان نہ تھا اور جناح صاحب نے تقسیم ہند سے پہلے صرف ہندوستان کے لئے آواز بلند کی اور عَلمِ ہند کو اونچا کیا اور انگریزوں کے ظالم پنجوں سے ہندو۔مسلم سب نے مل کر آزادی چھینی اور چین وسکون کا سانس لیا پھر بعد میں تقسیم ہند کا عمل انجام تک پہونچا اور ایک نئے ملک کا جنم ہوا جس سے چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی مراسم ابھر پائے اور نہ ہی تعلقات استوار ہوپائے۔ لیکن ستیش گوتم صاحب نے جناح صاحب کی تصویر کو فتنے کی عینک سے دیکھا اور بجائے حالِ دل معلوم کرنے کے رقیبوں کی طرح بکھیڑا کھڑا کردیا، ان کی یہ تصویر یونین ہال کی جس دیوار پر لگی ہے وہاں اور بھی تصویریں ہیں جن پر شاید ان کے چشمے کا نمبر خراب ہونے کی وجہ سے ان کی نظر نہیں پڑی اور اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا، انہیں صرف جناح کا جن نظر آیا اور واویلا مچا دیا۔۔۔۔۔ گوتم صاحب نے اگرہوش کا ناخن لیا ہوتا تو انہیں معلوم پڑتا کہ یہ تصوریں یونیورسٹی کے اپنے پاس ولحاظ میں ان افراد کو تاحیات رکنیت دئے جانے کی بنا پرچسپاں کی جاتیں ہیں جو یونیورسٹی کے خدمات سے جڑے ہوتے ہیں چاہے وہ کسی قوم وملت کے ہوں اور وہیں جناح صاحب کی تصویر کے ساتھ سرسید خان، گاندھی جی، ڈاکٹر راجندرپرساد، جواہرلعل نہرو اور بھیم راو امبیڈکر صاحب وغیرہ کی بھی تصویرں ہیں جن سے انہیں کوئی بیر نہیں اگر بیر ہے تو صرف ایک فرد سے جو ان کی آنکھوں میں کائی کی طرح جم گیا ہے اور وہ ہے کسی بھی ایسے مسلم فرد کا نام جس پر سیاسیت کو گرمایا جا سکے اور سیاسی روٹیاں سینکی جاسکیں، ورنہ یہ ایک بہت معمولی سوال تھا اور بہت چھوٹی سی بات تھی جس کے بارے میں وائس چانسلر صاحب سے جواب طلب کئے جانے کے بجائے یونیورسٹی کے ایک معمولی طالب علم سے بھی صاف ستھرے لفظوں میں اس کا جواب حاصل کیا جا سکتا تھا، چہ جائے کہ یونین صدر کو ہی سوال داغا جائے یا اس کو حل کرنے کی اور بھی کئی صورتیں تھیں جو فساد سے بہت دور تھیں لیکن جن کے ذہن میں فساد جوش مار رہا ہو وہ فساد بھڑکانے کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتے ہیں، جہاں پر اطمیان علمی بحثوں کے بعد تصویر کو مزید آویزاں کرنے اور نا کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ لیا جاسکتا تھا وہیں اس معاملہ کو عدلیہ کے سپرد بھی کردیا جانا چاہئے تھا جس پر ملک کی بنیاد ہے نہ کہ فساد کو گرمایا جائے اور ملک کی چھوی بگاڑی جائے، کسی بھی معاملہ میں فیصلہ لینے اور انصاف دلانے کا حق صرف قانون اور دستور کو ہے جس پر بھروسہ رکھنا ملک کے ہر شہری کا فرض ہے اور ایسے ہنگامی حالات پیداکرنا قانون کے خلاف ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کو کیفرکردار تک ضرور پہونچایا جانا چاہیے۔

سیاسی قائدین اور سیاسیت کے کارپردازوں کومعمولی واقعات میں الجھنے کے بجائے گزشتہ سالوں سے رواں فسادات کے تئیں انسدادی اقدامات کرنے اور ملک کی اقتصادی اور سیاسی فضا کو خوشگوار بنانے کے بارے میں زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت ہے نہ کہ مخالفت اور منافرت کی سیاست کرکے ملک کو دوراہے پر لاکر کھڑا کرنے اور فرقہ وارانہ تقسیم کے رجحان کو ہوا دینے کی ورنہ وہ دن دور نہیں کہ اس سیاسی ہلچل میں ہم سب گم ہوجائیں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. badrudduja کہتے ہیں

    bht khoob

تبصرے بند ہیں۔