صدارتی انتخابات کی ہلچل: کون ہوگا اگلا صدر جمہوریہ؟

ڈاکٹر ریحان غنی

صدارتی انتخابات کی ہلچل ابھی سے شروع ہوگئی ہے۔موجودہ صدر جمہوریہ پرنب مکھر جی کی مدت اس سال 25جولائی کو ختم ہوجائے گی۔اس سے قبل صدارتی انتخاب ہونا ہے۔ پرنب مکھر جی 25جولائی 2012میں اس عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ حکمراں این ڈی اے اور اپوزیشن پارٹیوں میں ابھی سے اس سلسلے میں اپنی حکمت عملی بنانا شروع کر دیا ہے۔ ایک طرف حکمراں این ڈی اے جس میں شیو سینا بھی شامل ہے کی فہرست میں صدارتی امیدوار کے لیے جھارکھنڈ کی موجودہ گورنر دروپدی مرمو،سابق مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی، لوک سبھا کی اسپیکر سمرتا مہاجن ، موجودہ وزیر خارجہ سشما سوراج اور سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی کے نام شامل ہیں ۔

وہیں کانگریس کی قیادت والے یوپی اے صدارتی امید وار کے لیے سابق مرکزی وزیر شرد یادوموجودہ نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری، مغربی بنگال کے سابق گورنرگوپال گاندی اور لوگ سبھا کی سابق اسپیکر میرا کمارکے نام پر غور کر رہا ہے۔بہار کے وزیر اعلیٰ اور جنتا دل یو کے قومی صدر نتیش کمار کی خواہش ہے کہ موجودہ صدر جمہوریہ پرنب مکھر جی کو دوبارہ موقع دیا جانا چاہیے یعنی این ڈی اے اور اپوزیشن پارٹیاں انہیں ہی متفقہ طور پر منتخب کرلیں ۔ گذشتہ روز پٹنہ میں ـ’’لوک سمواد پروگرام‘‘ سے الگ ہٹ کر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے نتیش کمار نے کہا کہ اس باوقار عہدہ کے لیے کسی رہنما کے نام پر اتفاق کر لیا جائے تو اس سے صحت مند روایت قائم ہوگی۔ اس کے لیے اپوزیشن پارٹیوں سے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر اپوزیشن پارٹیاں اپنا امید وار کھڑا کریں گی ہی۔ اس سیاسی ہلچل کے دوران گذشتہ دنوں ترنمل کانگریس کی صدر اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی راجدھانی دہلی پہنچیں اور انہوں نے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سے ملاقات کی ۔ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے محترمہ گاندھی سے صدارتی انتخاب کے تعلق سے بھی باتیں کی اور اس سلسلے میں کئی دوسرے امور پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔

   صدارتی انتخاب میں ملک کی شہری براہ راست ووٹ نہیں دیتے بلکہ ان کے منتخب نمائندے یعنی منتخب اراکین پارلیمنٹ اور منتخب اراکین اسمبلی اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں اور ان کے ووٹوں کی قیمت (Value) پر صدر جمہوریہ کا انتخاب ہوتا ہے۔اس وقت لوک سبھاکے 543اور راجیہ سبھا کے 233منتخب اراکین ہیں ۔ اس طرح دونوں ایوانوں کے منتخب اراکین کی مجموعی تعداد 776ہے ۔ ان اراکین پارلیمنٹ کے776 ووٹو ں کومختلف ریاستوں کے منتخب اراکین اسمبلی کے مجموعی ووٹوں کی قیمت(Value) جو 5لاکھ49ہزار 474 ہوتی ہے، ڈیوائڈ (منقسم) کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہر رکن پارلیمنٹ کے ووٹ کی قیمت 708ہوتی ہے ۔ چونکہ صدارتی انتخاب میں اراکین اسمبلی بھی ووٹ دیتے ہیں اس لیے ان کے ووٹ کی بھی قیمت نکالی جاتی ہے ۔ لیکن اراکین پارلیمنٹ کی طرح اراکین اسمبلی کے ووٹ کی قیمت یکساں نہیں ہوتی اور ہر ریاست کے ووٹوں کی قیمت الگ الگ ہوتی ہے۔اراکین اسمبلی کے ووٹو ں کی قیمت نکالنے کے لیے 1971کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی اور اسمبلی کے سیٹوں کی تعداد کو 1000سے ڈیوائڈ (منقسم) کرنے سے جو تعداد ہوتی ہے وہ اس ریاست کے رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت ہوتی ہے۔مثال کے طور پریوپی کے منتخب اراکین اسمبلی کے ووٹ کی قیمت نکالنا ہے تو 1971کی مردم شماری کے مطابق اس ریاست کی مجموعی آبادی 8کروڑ38لاکھ49ہزار 9سو 5کو اسمبلی کی 403سیٹ سے ڈیوائڈ (منقسم) کرنے کے بعد پھر اسے 1000سے تقسیم کرنے پر نتیجہ 208نکلتا ہے۔اس طرح یوپی کے ہر رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت 208، بہار کے ہر منتخب رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت 173اور کیرلا کے ہر رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت 152ہے۔ملک بھرمیں منتخب اراکین اسمبلی کی تعداد4120ہے ۔اس طرح ان کے ووٹوں کی قیمت 5لاکھ49ہزار4سو74ہوتی ہے ۔ صدارتی انتخاب کے لیے تمام منتخب اراکین پارلیمنٹ اور تمام منتخب ارکین اسمبلی کے ووٹوں کی مجموعی قیمت 10لاکھ97ہزار 998ہوتی ہے ۔84ویں آئینی ترمیمی قانون 2001میں اس بات کا نظم ہے کہ جب تک 2026کے بعد کی پہلی مردم شماری کے اعداد و شمار شائع نہیں ہوجاتے اس وقت تک صدارتی انتخاب کے لیے ووٹوں کی قیمت 1971کی مردم شماری کے مطابق ہی ہوگی۔

 مرکز میں ان دنوں این ڈی اے کی حکومت ہے ۔ اس کے پاس اراکین اسمبلی کے 2لاکھ 41ہزار 645اور اراکین پارلیمنٹ کے دو لاکھ 92ہزار404یعنی اس کے پاس مجموعی طور پر5لاکھ 34ہزار 58ووٹ ہیں اسے اپنے امید وار کو کامیاب بنانے کے لیے 14ہزار 942ووٹ چاہیے۔ وہیں حزب مخالف یوپی اے کے اراکین اسمبلی کے ووٹ ایک لاکھ 47ہزار 735اور اور اراکین پارلیمنٹ ایک لاکھ7ہزار 616یعنی یوپی اے کے پاس 2لاکھ 54ہزار 65ووٹ ہیں اور اسے اپنے امید وار کو کامیاب بنانے کے لیے 2لاکھ 94ہزار 349ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ اس طرح دونوں سیاسی اتحاد کو دوسری پارٹیوں سے مدد لینی پڑے گی ۔اس طرح صدارتی انتخاب میں کس سیاسی اتحادکا کون امیدوار ہوگا اور کس امید وار کو کامیابی ملے گی یہ کہنا وثوق کے ساتھ مشکل ہے۔ویسے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کا کہنا ہے کہ این ڈی اے نہیں چاہے گا کہ پرنب مکھرجی دوبارہ صدر جمہوریہ بنیں ۔ اس کی کوشش ہوگی کہ بھگوا ذہنیت اور بھگوا سیاسی پس منظر رکھنے والے رہنما کو ہی اس عہدہ کا امیدوار بنایا جائے ۔ خواہ اس کے لیے اسے جو بھی حکمت عملی اپنانی پڑے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔

اب تک کے صدر جمہوریہ

ڈاکٹر راجندر پرساد:  26 Jan 1950 – 12 May 1962

رادھا کرشنن: 13 May 1962 – 13 May 1967

ڈاکٹر ذاکر حسین:  13 May 1967 – 03 May 1969

وی وی گری:  03 May 1969 – 20 July 1969 ّ(کارگزار صدر)

محمد ہدایت اللہ :  20 July 1969 – 24 Aug 1969  ّ(کارگزار صدر)

وی وی گری:  24 Aug 1969 – 24 Aug 1974

فخر الدین علی احمد:  24 Aug 1974 –  11 Feb 1977

بی ڈی جٹی:  11 Feb 1977 – 25 July 1977 ّ(کارگزار صدر)

نیلم سنجیواریڈی  25 July 1977 – 25 July 1982

گیانی ذیل سنگھ :  25 July 1982 –  25 July 1987

آر وین کٹ رمن:  25 July 1987 – 25 July 1997

شنکر دیال شرما:  25 July 1992 – 25 July 1997

کے آر نارائنن:  25 July 1997 – 25 July 2002

اے پی جے عبدالکلام:  25 July 2002 – 25 July 2007

پرتبھا دیوی سنگھ پاٹل: 25 July 2007 – 25 July 2012

پرنب مکھر جی:  25 July 2012   تا حال

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔