ضمنی انتخابات کے نتائج سے مسلمان خوش کیوں؟

ذاکر حسین

گزشتہ دنوں اتر پردیش اور بہارمیں ہوئے ضمنی انتخابات میں نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں کی جیت پر مسلمانوں کی خوشی باعث ِ حیرت ہے۔ کیونکہ ان نام نہاد مسلمانوں کی جیت سے مسلمانوں کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا ہے۔ یہ کڑوی حقیقت ہیکہ ملک کی نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کا ثبوت ملک کے مسلمانوں کی موجودہ حالت ہے۔ یہ حقیقت ہیکہ مسلمانوں کی سب سے زیادہ ہمدرد سمجھی جانے والی سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس سمیت دیگر نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ فرقہ پرست طاقتوں کا خوف دلا کر مسلمانوں کے ووٹ لئے ہیں اور اس کے بعد انہیں فراموش کرنے کی روایت کو برقرار رکھا ہے۔

مسلم قوم اور مسلم رائے دہندگان سے اپیل ہیکہ جب بھی ایس پی اور کانگریس سمیت دیگر سیا سی جماعتوں کے لیڈران سے اپنی زبوں حالی کے اسباب جاننے کی ضرور کوشش کریں ۔آپ کو یاد ہوگا سماجوادی پارٹی نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں ایس پی نے مسلمانوں سے جو وعدے کئے تھے۔ اس میں سے ایک بھی وعدے پورے نہیں ہوئے ہیں ۔18 فیصدریزرویشن،مسلم نوجوانوں کی رہائی، مسلم اکثریتی علاقوں میں اردو میڈیم اسکولوں کا قیام جیسے بے شمار وعدے ایس پی حکومت نے پورے نہیں کئے۔ اب سماجوادی پارٹی اعلی کمان اور پارٹی کے امیدواروں سے سوال ہیکہ اگر مسلمانوں سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے گئے ہیں توہم کس بنا پر ایس پی کی جیت پر جشن منا رہے ہیں ۔ افسوس اس بات پر ہیکہ سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس خود کو سیکولر بتاتی ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہیکہ سماجوادی پارٹی اور کانگریس سمیت دیگر نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ مناقف کا رویہ اختیار کیا ہے۔ اب شاید کچھ سپا، کانگریس اور نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں کے حامی ہماری ان باتوں کی بنیاد پر ہمیں بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایجنٹ قرار دیں ۔لیکن ناچیز کو بی جے پی یا آر ایس ایس کا ایجنٹ بتانے سے قبل مندرجہ زیل باتوں پر غور کریں ۔

(۱) بہوجن سماج پارٹی، کانگریس اور سماجوادی پارٹی نے آرٹیکل 341پر لگی مذہبی پابندی کے خلاف کتنی بار آواز بلندکی ؟

(۲)مسلم نوجوانوں کی دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں مسلسل ہونے والی گرفتاری اور انکائونٹر کیخلاف نام نہاد سیکولر جماعتوں نے کتنی بار آوز بلند کی ؟

(۳)سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق ملک کے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدترکیوں ہے، اور مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں میں مسلمانوں کی نمائندگی ڈیڑھ فیصد ہے۔ اگرسیکولرپارٹیاں مسلمانوں کے مسائل کے تئیں سنجیدہ ہوتیں توکیا آج مسلمانوں کی حالت اتنی خراب ہوتی ؟

( ۴ ) ملک کے مسلم نوجوانوں کا پولس دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں آئے دن انکائونٹر کرتی ہے لیکن بہوجن سماج پارٹی، کانگریس اور سماجوادی پارٹی نے اس کے خلاف کتنی بار آواز بلند کی۔

(۵) ملک میں بے روزگاری کے معاملے میں مسلم قوم سر فہرست ہے لیکن سماجوادی پارٹی بہوجن سما ج پارٹی اور کانگریس نے ملک کے مسلمانوں کو سرکاری نوکری فرام کرنے کیلئے کتنے مواقع فراہم کئے۔

(۶) یہ تلخ حقیقت ہیکہ مسلمانوں کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے اس کی ذمہ داری ان سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو کئی بار اقتدار کے مزے لوٹ چکی ہیں ۔کیونکہ برسرِ اقتدار جماعتیں اسانی سے مسلمانوں کیلئے روزگار کے بہتر مواقع فراہم کر سکتی تھیں لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟

(۷) کیا اس حقیقت سے آپ کو انکار ہیکہ آپکو عوامی جگہوں اور اجنبی لوگوں سے خود کو مسلمان بتاتے ہوئے ڈر لگتا ہیکہ کہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے آپ کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتا ر نہ کر لیا جائے۔

اور یہ حقیقت ہیکہ جو پولس اہلکار آپ کو دہشت گردی کے الزام میں پھنساتے ہیں وہ یہی کانگریس، سماجوادی پارٹی جیسی دیگر جماعتوں کے اشارے پر کام کرتے ہیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس طرح کی حرکت انجام  دینے والے افسران کیخلاف ایکشن کیوں نہیں لیا جاتا؟

(۱۸) گزشتہ اسمبلی الیکشن میں سماج وادی پارٹی نے صوبہ کے مسلمانوں کو18 فیصد ریزویشن دینے کیلئے کہا تھا، کیا آپ کو ریزرویشن ملا؟

(۹) سماج وادی پارٹی نے دہشت گردی کے الزام میں جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کی رہائی کا وعدہ کیا تھا کتنے مسلم نوجوان جیلوں سے رہا ہوئے ؟بتا دیں کہ آئین ہند کی آر پی سی کی دفعہ ۳۲۱کے تحت ریاستی حکومت کو یہ اختیار نہیں ہیکہ وہ مرکزی حکو مت کے تحت آنے والے کسی بھی مقدمات کو واپس لے یا پھر اس قسم کے معاملے میں ریاستی حکومت کسی بھی قسم کی مداخلت کی اہل نہیں ہے لیکن سماجوادی اعلیٰ کمان نے مسلمانوں سے جھوٹا اور غیر آئینی وعدہ کیا اور مسلمانوں کے ووٹو ں کی بدولت اقتدار تک پہنچ گئی۔

 گزشتہ اسمبلی الیکشن میں صوبے کے مسلمانوں کے کثیر ووٹوں کی بدولت اقتدار میں آنے والی سماج وادی پارٹی نے اتر پردیش کے مسلمانوں کے کتنے مسائل حل کر دئے۔

قارئین کرام!

آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ سما ج وادی پارٹی کے دورِ اقتدار میں صوبے کے مسلمانوں کو مظفرنگر، فیض آبا د، استھان اور دیگرکئی جگہوں پر فسادات کی مار جھیلنی پڑی۔ مظفر نگر میں مسلمانوں کے ساتھ  کس طرح سے بر بریت اور وحشیانہ برتائو کیا گیا وہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو یہ بھی یا د ہو گا کہ اتر پرد یش کے کشی نگر ضلع میں ہندو یوا واہنی کے غنڈوں نے انگنت مسلم نوجوان لڑکیوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر ان کی عزت سے کھلواڑ کیا۔ اس وقت سماج وادی پارٹی ہی اتر پردیش میں برسرِ اقتدار تھی۔ سماج وای پارٹی، کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتوں کے حامیوں سے عام مسلمانوں کو سوال پوچھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے ووٹوں کی بدولت اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتیں بالخصوص سماج پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس مسلم مسائل پر گونگی، بہری اور اندھی کیوں ہوجاتی ہیں ؟

ملک میں مسلمانوں کے مسائل پر ہر وقت خاموش رہنے والی سیکولزم کا چولا پہن کر مسلم ووٹ لیکر اقتدار تک پہنچتی ہیں ۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کو آنکھوں میں امیدا ور حسرت کے بادل گردش کرتے ہیں کہ شاید اب یہ نام نہاد سیکولر جماعتیں ہمارے مسائل کو لیکر سنجیدہ اختیار کریں اور ہمیں اپنے مسائل سے چھٹکار ملے۔ لیکن ان جماعتوں کے اقتدار میں آنے کے ایک دن م دو دن حتیٰ کہ پورے پانچ سال گذر جاتے ہیں اور مسلمان مایوس اور غم کا مارا خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ یہ سلسلہ ایک نہیں ، دو نہیں پورے ستر سالوں سے جاری ہے۔ اب سوال ہیکہ اتنے طویل عرصہ میں جب نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی تو یہ کیسے مان لیا جائے کہ آئندہ یہ ہمارے مسائل کے تئیں سنجیدگی دکھائیں گی۔

مسلمانوں کو اپنے مسائل کو لیکر سنجید گی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔قوم کے سیاسی لیڈران کو متحد ہونا پڑے گا۔ راشٹریہ علماء کونسل کے قومی صدر مولانا عامر رشادی صاحب، پیس پارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر ایوب صاحب، مجلس سربراہ اسدالدین اویسی صاحب، ایس ڈی پی آئی کے اے سعید صاحب، اے آئی  یوڈ ایف کے بد رالدین اجمل صاحب، ویلفیئر پارٹی کے قومی صدر قاسم رسول الیاس صاحب، انڈین یونین مسلم لیگ قومی صدر پروفیسرقادر صاحب، انڈین نیشنل لیگ قومی صدر محمد سلیمان سمیت دیگر مسلم رہنمائوں سے ہم درخواست کرتے ہیں کہ وہ متحد ہوں ،تاکہ انتخابات کے اوقات میں قوم منتشر ہونے کے بجاٗے متحد ہوکر ووٹ کرے اور ہمیں اپنے مسائل کے حل کیلئے نام نہاد سیکولر جماعتوں کے دروازے پر دستک نہ دینی پڑے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔