مسلمانان ہند کومودی کی عوامی حمایت کا پیغام

ڈاکٹراسلم جاوید

حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج نے دنیاکے سامنے اس بات کا ثبوت پیش کیاہے کہ ہندوستان میں بڑی تیزی کے ساتھ ہمہ جہتی تبدیلی آرہی ہے،ملک کی سیاست میں بدلاؤ کے علاوہ کئی  دوسری تبدیلیاں دھیرے دھیرے عیاں ہورہی ہیں ،جس سے امید کی جارہی ہے کہ آنے وقت میں ہندوستان دنیاکے نقشے پر خودکو ایک کامیاب ملک کی شکل میں متعارف کرانے میں ضرور کامیاب رہے گا۔اس تبدیلی میں کئی محکموں کی کارکردگی نمایاں رول اداکرسکتی ہے اوراس سے میں ملک کے اقتصادی شعبہ میں آنے والی تبدیلی مستقبل میں کہاں تک جاگی اس بارے میں یقینی طور پر تو کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا،مگرحکومت ہند کی اب تک سرگرمیوں سے معاشیات میں آنے والی تبدیلی کے اشارے صاف بتارہے  ہیں کہ اگرچہ اس تبدیلی کا راست فائدہ پسماندہ اور غریب ہندوستانیوں کو ملتا ہوا نظرنہیں آتا ہے،مگر کئی طبقات ملک میں ایسے بھی ہیں ،جنہیں اس کافائدہ ابھی سے ہی ملنے لگا ہے اور دیرسویر عام لوگوں کو بھی اس تبدیلی کا فائدہ ضرور ملے گا ۔حالاں کہ مبصرین کا ایک بڑاحلقہ اس موضوع پر تذبذب کا شکار ہے۔اس قبیل کے متعدد شواہد بھی آئے دن میڈیا میں چھائے رہتے ہیں ،جبکہ عملی شکل میں متعددایسے  ثبوت بھی مل رہے ہیں ناقدین کا ایک وسیع حلقہ اس توقع کی تردید  اور اس کے دلائل کو مسترد کرتے ہیں اوردعوے کرتا ہے۔

اس کے برعکس موجودہ مودی سرکار کے کئی منصوبوں نے یہ احسا س دلانا شروع کردیا ہے کہ ملک میں تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے جومستقبل کے ہندوستان میں اپنی افادیت کا احساس دلانے میں کامیاب رہے گا۔اس حوالے سے میں اس تحریر میں بنیادی طور پر جن دھن یو جنا ،آدھار  اور موبائل ٹیکنالوجی کے تین نکاتی ایجنڈے کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھتا ہوں ،جن میں حکومت کی پیش رفت نے اپنااثر دکھانا شروع بھی کردیا ہے۔ جنہیں اقتصادی سروے میں ’’جام‘‘کانام دیا جارہاہے۔ وزیر اعظم کے جن دھن یوجنا کا مقصد بینکاری اور مالیاتی خدمات کا دائرہ کوبڑھاناہے اور اس منصوبے تک عام لوگوں ، خاص طور سے دیہاتیوں کی پہنچ کویقینی بنانا ہے۔ حالاں کہ اس تشویش کا ازالہ ابھی تک نہیں ہوسکا ہے کہ’’ جن دھن یوجنا‘‘کا راست فائدہ کب تک مل سکے گا۔’’جن دھن یوجنا‘‘ کاتصور بنیادی طور پر ایک ایسے منصوبہ کی شکل میں کیا گیا ہے، جو مالیاتی ذخیرہ بڑھانے میں مددگار ہویہ صاف نظرآ رہا ہے ۔

اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس منصوبہ پر حزب اختلاف سمیت کئی سماجی تنظیموں کی جانب سے تنقیدیں کی جارہی ہیں ،جسییکسر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ،ان کے جوجائز اعتراضات ہیں اس میں کھلے دل سے ترمیم کرنی چاہئے اور جو اعتراضات غلط فہمی کی بنیاد پر اٹھائے جارہے ہیں ،انہیں منصوبے کے دوررس فوائد سے آگاہ کرکے مطمئن کرنے کی کوشش بھی ہونی چاہئے۔اس سے مرکزکی این ڈی اے حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی کو عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں مزید کامیابی مل سکتی ہے۔اسے بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتاکہ ’’ڈیجیٹل انڈیا‘‘ جیسے منصوبے اب  معاشی روایت کا حصہ بننے لگے ہیں اور جب کوئی منصوبہ روایتی شکل اختیار کرلے تو اس کے خلاف محاذ آرائی اور مخالفت کے کوئی بھی حربے کامیاب نہیں ہوسکتے۔یادرکھئے! کہ روایتی ڈیجیٹلا ئزیشن اب معیشت کی بنیاد بن چکی ہے۔جس کے خلاف تحریکیں چھیڑنے سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ اس کے تئیں عوام میں بیداری لائی جائے ۔

اگر حزب اختلاف اسے عوام تک پہنچانے کی مہم چلائے تو اس سے بھی وہ بڑی کامیابی اور عوامی مقبولیت پاسکتاہے۔’’آدھار‘‘،جن دھن منصوبہ اور ڈیجیٹلائزیشن جیسے منصوبے کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی ساری کابینہ سیاسی قوت ارادی اور انتظامیہ کی کارکردگی اس منصوبہ کو کھاد پانی دے رہی ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ ایسی صورت میں ان منصوبوں کواوربھی زیادہ ترقی ملے گی ،جبکہ اس کی مخالفت کرنے والے عوام کے ارادوں اور سرگرمیوں سے ناواقف ہیں ،وہ’’ جن دھن یوجنا‘‘کی تشکیل کے وقت سے ہی اس کے مضرات پر پروپیگنڈے چلاتے رہے ہیں ۔مگریہ دیکھئے کہ ا ن کی مخالفت اور مظاہروں کو عوامی تائید ملی یا نہیں ؟

ان حقائق کے باوجود حزب اختلاف مثبت پالیسی مرتب کرنے میں اب تک ناکام ہی ہیں اور آئندہ بھی  انکی تحریکیں بارآور ہوسکیں گی ،یہ مشکل تر معلوم ہوتا ہے۔اب آپ’’ جن دھن یوجنا‘‘ کوہی دیکھ لیجئے ،اس منصوبہ کی مخالفت کرنے والوں نے آسمان سرپر اٹھالیاتھا۔مگرسچائی یہ ہے کہ ان کے احتجاج اور تنقیدوں کو عوام الناس نے بیک لفظ مسترد کردیا اور’’جن دھن یوجنا‘‘ کے تحت ملک بھر میں 28 کروڑ بینک اکاؤنٹ کھولے گئے، جن میں سے 60 فیصدکھاتے دیہی علاقوں میں کھولے گئے ہیں ۔کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ حزب اختلاف کی دھماچوکڑی کے باوجود ملک کے عام باشندوں کو وزیر اعظم نریندر مودی کے اس منصوبہ میں شامل ہونے سے روکنے میں کامیابی نہیں مل سکی۔

اسی طرح آدھار کارڈ بھی جلد ہی ملک کی تمام بالغ آبادی کے پاس پہنچنے والا ہے۔دریں اثناحال ہی میں عالمی بینک کے چیف اکانومسٹ پال رومور نے بھی ہمارے اس آدھار سسٹم کی تعریف کرتے ہوئے اسے ’دنیا کا سب سے بہتر ین شناختی کارڈ قراردیا د ہے۔ اتناہی نہیں ،بلکہ رومور نے دوسرے ممالک سیبھی ہندوستان کے اس نظام کواختیار کر نے کی اپیل کی ہے۔ بہر حال ایک مضبوط، قابل اعتماد اور وسیع تر مفادات کی حامل ڈیجیٹل کنیکٹوٹی تک لوگوں کی زیادہ سے زیادہ پہنچ یقینی بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ’’بھارت نیٹ پراجیکٹ‘‘ کے ذریعے اس شعبے پر سنجیدگی کے ساتھ بھرپور  توجہ دی جائے۔نیٹ پراجیکٹ کی توسیع کاری کے منصو بہ  میں نجی شعبے کو شامل کرکیہندوستان نیٹ کو’’بوٹ‘‘یعنی بی او او ٹی (بائلڈآن آپریٹ ٹرانسفر) بنا کر اور 2 جی نیٹ ورک کو 3 جی، 4 جی میں اپ گریڈ نگ کیلئے نجی آپریٹرز کی حوصلہ افزائی کر کے ایسا کیا جا سکتا ہے۔حالانکہ حکومت ہندنے اس سمت میں کام کرنا بھی شروع کردیا ہے،البتہ  یہ کام دیہی علاقوں کے لئے خاص طور سے ضروری ہے۔اس لئے کہ نیٹ ورکنگ شعبہ میں جن نجی اداروں کو شامل کیا گیا ہے ،اب تک ان کی ساری توجہ شہروں تک ہی محدود ہے۔وزیراعظم مودی کے بظاہر سخت نظر آنے والے منصوبوں انتہائی سست روی سے ہی سہی  مگراپنی کامیابی دکھانی ضرورشروع کردی ہے۔حالیہ اسمبلی انتخابات میں حکومت کوحاصل ہونے والے بے پناہ عوامی  مینڈیٹ کامارکیٹ نے بھی استقبال کیاہے اورناقابل یقین گرم جوشی دکھائی ہے۔

بی ایس ای انڈیکس میں تقریبا 500 پوائنٹ کی ریکارڈ اچھال درج کی گئی، جو مارچ 2015 کے بعد سب سے زیادہ تھی۔ اسی طرح این ایس ای نیفٹی بھی اب تک کی سب سے اونچی سطح پر پہنچا۔روپے میں بھی 78 پیسے کی مضبوطی آئی اور وہ تقریبا ڈیڑھ سال کے سب سے زیادہ سطح پر 65.82 روپے فی ڈالر پر پہنچی۔ موڈیز انویسٹرس سروس کا تو یہ کہنا تھا کہ’ ریاستی انتخابات کے نتائج حکومت ہند حکومت کی پالیسیوں کو وسیع پیمانے پر عوامی  حمایت ملنے کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔ بی جے پی کوملنے والے  یہ تاریخی کامیابی اس کے اصلاحات کے آئندہ منصوبوں کے نفاذ میں معاون  ثابت ہو گی۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ  راجیہ سبھامیں وزیر اعظم نریندر مودی کو  اگلے سال تک مشکلات کا سا منا رہے گا،لیکنانہیں اوران کے منصوبوں کو یوں ملنے والی عوامی حمایت کا نفسیاتی اثر پارلیمنٹ میں بہتر ہم آہنگی پیدا کرنے میں بی جے پی کی راہ آسان کرسکتا ہے۔ویسے بھی آنے والے 2018میں ہی مودی جی کو اکثریت ملنے والی ہے،جس سے انہیں اور زیادہ تقویت حاصل ہوگی۔ان تمام صورت حال میں ہمارے لئے بس ایک ہی سبق نظر آتاہے،وہ یہ کہ ہم مخالفت اور وزیراعظم یابی جے پی کیخلاف مظاہرے کرکے کچھ حاصل نہیں کرپائیں گے،بلکہ اس کے بر عکس ہمارے حکومت مخالف مظاہرے فرقہ پرست عناصر کواستحکام بخشیں گے۔ اس کی کئی مثالیں ہم نے اسی سال انتخابی مہم کے دوران اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کی ہیں ۔

ایک طرف ساری مخالف جماعتیں وزیراعظم اور بی جے پی کے خلاف محاذ آراء تھیں ،مگران میں سے ایک بھی سیاسی جماعت رائے دہند گان کووزیراعظم نریندر مودی کی ناکامیوں کا یقین دلانے کامیاب نہ ہوسکیں ،توہم اقلیتیں کس کی کھیت کی مولی ہیں ۔لہذا مصلحت کا تقاضہ یہی ہے حکومت کیخلاف مظاہرے اور محاذ آرائی کے بجائے حکومت سے راست طور پر رابطہ کرنے کی کوشش کی جائے۔یہی ایک ایسالائحہ عمل ہے جو ہمیں بڑی حد تک اپنی حیثیت منوانے اور حقوق دلوانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔