مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی یا حکومت کی مکاری!

ندیم عبد القدیر

1891ء میں لوکمانیہ تلک نے انگریزوں کے ذریعے ہندو لڑکی کی شادی کی عمر 10؍سال سے 12 ؍کئےجانے کے اقدام کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا ۔ انہوں نے اسے ’ہندو سول کوڈ‘ میں انگریز راج کی مداخلت قرار دیا تھا ۔اسی طرح 1956ء میں ڈاکٹر راجندر پرساد ’ہندو کوڈ بل‘ کے سخت خلاف ہوگئے تھے۔ اس بل میں ہندو خاتون خانہ کو اس کے شوہر کی جائیداد میں حصہ دینے کے حق کی بات کہی گئی تھی ۔ راجندر پرساد نے بھی اسے ’ہند وسول کوڈ ‘ میں مداخلت کہا تھا۔ اُس وقت کسی نے بھی اِن لیڈران کو اُن القاب سے نہیں نوازا تھا جن سے آج آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ یا جمعیۃ العلماء کو یاد کیا جارہا ہے ۔ لوکمانیہ تلک اور راجندر پرساد پر نہ ہی ’ہندو خواتین کی دشمنی‘ کا داغ لگا تھا اور نہ ہی ’مرد کی برتری قائم رکھنے والی ذہنیت‘ کا الزام عائد ہوا تھا ۔ یہ لیڈران آج بھی قابل تعظیم ہیں۔ہمارے ملک کی بدقسمی یہ ہے کہ یہاں ہندو اور مسلمان کے نام پر ہمیشہ سے دوہرہ رویہ رہا ہے ۔

ہمدردی کا جذبہ بہت نیک جذبہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ خلوص نیت سے خالی اور بدنیتی سے لبریز ہوتو اسے مکاری کے سوا کوئی اور عنوان نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ مودی سرکار کے سینے میں مسلم خواتین کے تئیں ایسی ہی غم گساری کا سونامی ٹھاٹھیں ماررہا ہے۔ مکارانہ کمال کو چھونے والی ہمدردی کا یہ جذبہ اپنے اس نقطہ کمال کو پہنچ گیا اور حکومت نے طلاق ثلاثہ، تعدد ازدواج اور حلالہ یعنی شرعی قوانین کے خلاف بغیر کسی کی شکایت کے ہی رضاکارانہ طور پر عدالت سے رجوع کرلیا۔ نفرت ، عصبیت ، دشمنی کےنظریات میں لوتھڑے اس اقدام نے سنگھ پریوار کے مقاصد کو کھول کررکھ دیا۔

عدلیہ بھی گویا اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی۔عدالت نے نامعلوم وجوہات پردائرہ کو محدود کرکے صرف طلاق ثلاثہ کو گھیر لیا۔ عدالت نے سب پہلے یہ واضح کیا کہ وہ یکساں سول کوڈ پر بحث نہیں کرے گی بلکہ طلاق ثلاثہ پر فیصلہ کرے گی۔ نکتہ یہ ہے کہ عدالت یکساں سول کوڈ پر بحث کیوں نہیں کرے گی؟ اور جب وہ یہ سمجھتی ہے کہ اسے یکساں سول کوڈ پر فیصلہ کا اختیار نہیں ہے تو وہ یہ کیسے سمجھ سکتی ہے کہ اسے طلاق ثلاثہ پر فیصلہ کا اختیار ہے ؟  غالب نے کہا تھا؎ کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہئے۔ کیا یہ بھی کسی کے اشارے پر ہورہا ہے ؟

عام طور پر عدالتوں میں گرمی میں چھٹیاں منائی جاتی ہیں لیکن اس کام کو سپریم کورٹ نے گرمی کی تعطیلات میں نمٹا دینے کا عہد کر لیا ۔ اتنا جوش ِ عدل، عدلیہ کی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ 11؍سے 19؍مئی کے درمیان ۵؍ رکنی بینچ معاملے کی شنوائی کرے گی۔ 27 ؍مارچ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء نے بھی اپنا مؤقف داخل کردیا اور کہا کہ آئین کے مطابق عدالت عظمیٰ کو مسلم پرسنل لاء میں دخل اندازی کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ عدلیہ آئین کا پاسدار ہوتا ہے اس سے بالاتر نہیں ہوتا اس لئے اسے چاہئے کہ وہ اس کی پاسداری کرے ۔

پاکستان کی مثال

بی جےپی حکومت کی مسلم ممالک میں طلاق ثلاثہ پر پابندی کی دلیل ،اپنی مکاری پر مسلم ہمدردی کی ملمع کاری کی انتہائی گھٹیا کوشش ہے۔ اس دلیل میں سب سے زیادہ پاکستان کا نام لیا جاتا ہے ۔اگر پاکستان کی طرز پر ہی قوانین وضع کرنے کا رجحان ہے تو پھر یہ کرم نوازی صرف طلاق ثلاثہ تک ہی کیوں محدود رہے ۔ ہمیں دیگر قوانین بھی پاکستان کی طرز پر بنانے چاہئیں۔ جیسے ایک مسلم لڑکی کا ہندو لڑکے سے شادی کرنا؟ ایسی شادی کو پاکستان میں اجازت نہیں ہے اور ایسے رشتے پاکستان کے ’زنا آرڈیننس ‘ کے تحت آجاتے ہیں۔ کیا ہم پاکستان کے ’زنا آرڈیننس‘ کی طرز پر ہمارے یہاں بھی اسی قسم کے قوانین عمل میں لائیں گے۔ وہاں ایسی ہندی فلموں کو بھی اجازت نہیں مل پاتی جن میں ہندو لڑکا اور مسلم لڑکی بتائی جاتی ہے ۔

اگر اقلیتوں کی ہمدردی کی بات ہے تو پاکستان سےپارلیمنٹ میں اقلیتوں کو نمائندگی دینے کا درس تو ضرور سیکھنا چاہئے۔ کیا ہم اس میں بھی پاکستان کی تقلید کریں گے؟پاکستان کی پارلیمنٹ(قومی اسمبلی) کے ایوان زیریں(ہمارے یہاںلوک سبھا ) میں کل 342؍نشستیں ہیں۔ ان میں 10 ؍نشستیں مذہبی اقلیتوں کیلئے ریزرو ہوتی ہیں ۔ ایک بات اور ذہن نشین کرلیں پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی 65؍لاکھ ہے ۔ اس لحاظ سے اگر ہم پاکستان کی تقلید کریں تو ہمیں اپنی 545؍رکنی لوک سبھا میں 20؍کروڑ اقلیت کیلئے کم از کم100 ؍سیٹیں ریزرو کرنی پڑیں گی۔ کیا مودی حکومت ایسا انصاف کرنے کی ہمت جٹا سکتی ہے ؟ کیا طلاق ثلاثہ پر پاکستان کے قانون کے نقش قدم پر چلنے کی آواز اٹھانے والی طاقتیں ، پارلیمنٹ میںاقلیتوں کیلئے سیٹوں کے ریزرویشن کا قانون بھی پاکستان سے مستعار لینے کیلئے تحریک چلائیں گی؟

مسلم ریزرویشن پر حکومت کی ہمدردی کہاں چلی گئی؟

مودی حکومت کے کوئے جنون میں مسلم خواتین کی ہمدردی کی جو لہر اٹھی ہے اس میں خلوص نیت کا بھیانک فقدان ہےکیونکہ اگر اس میں ذرا سی بھی ایمانداری کا عنصر ہوتا تو بی جےپی حکومت مسلمانوں کو یا پھر کم از کم مسلم خواتین کو سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن دلانے کے لئے تو محنت کرتی ، جیسی کہ محنت حکومت طلاق ثلاثہ پر کررہی ہے ۔ جتنی جدو جہد وہ مسلم خواتین کے مبینہ بہبود کےلئے طلاق ثلاثہ کے خلاف کررہی ہے اتنی ہی محنت حکومت کو مسلم خواتین کو سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کو یقینی بنانے کیلئے بھی کرنی چاہئے تھی ، لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مہاراشٹر بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ملازمتوں کیلئے ریزرویشن دینے کی بات تو کجا اُلٹا گزشتہ حکومت اور بامبے ہائی کورٹ نے جو ریزرویشن دیا تھا اسے بھی روک لیا ۔ مہاراشٹر میں گزشتہ حکومت نے مسلمانوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں ۵؍فیصد ریزرویشن دیا تھا ۔اس معاملہ پر بامبے ہائی کورٹ نے بھی تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی ہدایت دی تھی لیکن طلاق ثلاثہ پر مسلم خواتین کی غم گساری میں ہلکان ہونے والی بی جےپی حکومت نے مسلمانوں کو تعلیمی اداروں تک میں کوٹہ دینے سے انکار کردیا۔ مہاراشٹر کی بی جےپی حکومت نے مراٹھا طبقہ کے ریزرویشن کی بات تو مان لی لیکن مسلمانوں کے خلاف اپنی اصل ذہنیت کا اظہار کردیا۔

جنسی مساوات کا جھوٹ

طلاق ثلاثہ کے خلاف سارے فلسفے درحقیقت جنسی مساوات کے سوتوں سے پھوٹتے ہیں لیکن اس فلسفہ کے ماننے والے اپنے نظریات کے تئیں بھی بے ایمان ہی ہیں۔ جنسی مساوات کا اطلاق صرف مسلمانوںپر ہی کیوں؟

 سب سے زیادہ جنسی مساوات کی بات فلم انڈسٹری سے وابستہ آزاد خیال طبقہ کی طرف سے اٹھائی جاتی ہے اور سب سے زیادہ جنسی عدم مساوات ہمیں وہیں دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ایسی عدم مساوات کی مثالیں ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتیں۔ ایک فلم کے لئے ہیرو کو جتنی رقم ملتی ہے بے چاری ہیروئن کو اس کی آدھی رقم بھی نہیں ملتی۔ اگر ’اے‘ گریڈ کےاداکاروں کا جائزہ لیا جائے تو ان اداکاروں کو 30؍کروڑ سے 60؍کروڑ روپے تک فیس ملتی ہے جبکہ ’اے ‘ گریڈ کی اداکاراؤں کو ان کے کام کے عوض ۸؍تا 10؍کرور پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے ۔ اس جنسی عدم مساوات کے بارے میں آواز کون اٹھائے گا؟ یہ نا انصافی محض جنس کی بنیاد پر ہوتی ہے لیکن اس پر ہمارے آزاد خیال طبقہ کے فلسفۂ جنسی مساوات پر کوئی آنچ نہیں آتی۔

ہماری حکومت کو بھی جنسی مساوات کا نشہ چڑھ گیا ہے اور اسی خمار میں وہ مسلم خواتین کیلئے طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کے لئے بے قرار ہے لیکن خود حکومت کے وزارت کھیل کے ذریعے مردوخواتین کھلاڑیوں میں کئے جانے والے بھید بھاؤ پر جنسی مساوات کے کوچہ و بازار میں کوئی ہنگامہ برپا نہیںہوتا۔ ہندوستان کرکٹ کنٹرول بورڈ نے کھلاڑیوں کو’اے۔ بی ۔سی اورڈی‘زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ ’اے‘ زمرے کے مرد کھلاڑیوں کیلئے فیس ایک کروڑ روپے سالانہ ہے جبکہ ’اے ‘ زمرے کی ہی خاتون کھلاڑیوں کیلئے یہ رقم 15؍لاکھ روپے ہے۔ ’بی‘ زمرے کے مرد کھلاڑیوں کی فیس 50؍لاکھ روپے ہے جبکہ ’بی‘ زمرے کی خواتین کھلاڑیوں کو بی سی سی آئی سالانہ ’10؍لاکھ‘ روپے دیتی ہے ۔ اسے جنسی مساوات کی اجتماعی عصمت دری کہتے ہیں۔ ہمدردی کا جذبہ بہت نیک جذبہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ خلوص نیت سے خالی اور بدنیتی سے لبریز ہوتو اسے مکاری کے سوا کوئی اور عنوان نہیں دیا جاسکتا ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔