مغربی بنگال میں بھگوا بریگیڈ کے بڑھتے ہوئے قدم

عبدالعزیز

 اگر چہ جنوبی کنٹائی اسمبلی حلقہ میں بایاں محاذ کا غلبہ 1987ء سے نہیں ہے لیکن حالیہ اسمبلی حلقہ کے ضمنی نتیجہ انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ بایاں محاذ تیسرے نمبر پرہوگئی جبکہ بھاجپا اپنے آپ کو دوسرے نمبر پر کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ترنمول کانگریس کے امیدوار کو 56فیصد ووٹ ملے۔ گزشتہ سال سی پی آئی کے امیدوار کو ترنمول کے بعد سب سے زیادہ 34 فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ بھاجپا کو 8فیصد ووٹ پر ہی صبر کرنا پڑا تھا ۔ اس وقت بھاجپا تقریباً 31فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے جبکہ بایاں محاذ (سی پی آئی امیدوار) کو صرف 17فیصد ووٹ ملے۔  اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ بی جے پی کا عروج تیزی سے مغربی بنگال میں ہورہا ہے اور بایاں محاذ کا زوال بھی اتنی تیزی سے دکھائی دے رہا ہے اور یہ بھی سمجھ میں آرہا ہے کہ بایاں محاذ کے ووٹوں کو بی جے پی حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ بایاں محاذ کا زوال 2011ء اور 2014ء کے عام انتخابات سے جو شروع ہوا ہے، وہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ تریپورہ اور کیرالہ میں بھی بایاں محاذ کی گراوٹ شروع ہوگئی ہے۔

  مغربی بنگال میں بی جے پی کا اٹھان گزشتہ لوک سبھا سے شروع ہوا۔ 7فیصد سے 16فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ کوچ بہار کے لوک سبھا کے ضمنی انتخاب میں بی جے پی 28.32 فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئی اور حال ہی میں اپنے حق میں 30.97 فیصدووٹ درج کرالیا ان دو نتائج سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ بی جے پی ترنمول کانگریس کی متبادل کی صورت میں ابھر رہی ہے جو مغربی بنگال کی ریاست کیلئے زبردست خطرہ کی گھنٹی ہے۔ اڑیسہ میں بی جے پی کے پنچایت الیکشن میں حکمراں جماعت کے بعد سے زیادہ سیٹیں قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئی جس کی وجہ سے اڑیسہ میں بھی زعفرانی پارٹی کے لیڈروں نے دھاوا بول دیا ہے۔ مغربی بنگال اور اڑیسہ دونوں ریاستوں میں بھاجپا اور آر ایس ایس کی حکمت عملی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات برپا کئے جائیں ۔ جس سے ووٹوں کا پولرائزیشن ہو اور خاص اپوزیشن کا رول ادا کرنے میں کامیاب ہو۔

اڑیسہ میں کانگریس کی پوزیشن تیسری ہوگئی ہے۔ بایاں محاذ مغربی بنگال میں اتنی جلدی تیسری پوزیشن اختیار کرلے گی کوئی نہیں کہہ سکتا تھا۔ ایک اہم وجہ ہے کہ مارکسی قیادت تذبذب کی شکار ہے۔ قیادت دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک حصہ کا خیال ہے کہ بایاں محاذ یا سی پی ایم کو کسی کے ساتھ چلنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تنہا پارٹی ہے جو ترنمول کا مقابلہ کرسکتی ہے جبکہ دوسرے حصہ کا خیال ہے کہ موجودہ صورت حال میں ترنمول کا مقابلہ کرنے کیلئے جمہوری طاقتوں خاص طور سے کانگریس کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ پہلی سوچ پرکاش کرات کے گروپ کی ہے اور دوسری سوچ سیتا رام یچوری گروپ کا۔ کرات کا سیاسی تجزیہ ہی بایاں محاذ کے زوال کا سبب بنی ہے۔ مغربی بنگال کی یونٹ کرات گروپ کے ذہن سے الگ سوچتی ضرور ہے۔ سی پی ایم کے سکریٹری سوریہ کانت مشرا نے حالیہ نتائج کے بعد تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بایاں بازو کے ووٹرس بی جے پی کی حمایت کر رہے ہیں یہ سمجھ کر کہ ترنمول کو بی جے پی ہی سبق سکھا سکتی ہے اور اقتدار سے ہٹا سکتی ہے۔ مسٹر مشرا نے یہ بھی کہا ہے کہ بی جے پی ترنمول سے زیادہ خطرناک جماعت ہے۔ یہ ووٹروں کو سمجھنا چاہئے۔ مارکسی پارٹی اگر دور اندیشی سے کام نہیں لے گی تو وہ اپنا کھویا وقار حاصل نہیں کرسکے گی۔

 پورے ملک کے سیاسی منظر کر ہر سیکولر پارٹی کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ بھاجپا کا اقتدار پورے ملک کیلئے خطرے اور خسارے کا سبب ہے نہ صرف مسلم اقلیت خطرہ اور نقصان دہ ہے بلکہ ملک و قوم اور ہر گروپ اور جماعت کیلئے بہت بڑے خطرہ کا سبب ہے تمام جماعتوں اور گروپوں کو بی جے پی کو ہر حال میں سب سے بڑی دشمن اور سب سے بڑا خطرہ سمجھنا ہوگا۔ جب ہی بھاجپا سے ملک کے عوام کو نجات مل سکتی ہے۔ مغربی بنگال کی سی پی ایم یونٹ کو حتمی فیصلہ کرلینا ضروری ہے کہ وہ ترنمول کو اقتدار سے ہٹانے کے بجائے بی جے پی سے مغربی بنگال کو بچانے کی کوشش کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترنمول کی حکمت عملی بی جے پی کیلئے سود مند ہے۔ ترنمول کانگریس کے لیڈر اور کیڈرس بی جے پی کیلئے نرم رویہ شاید اس لئے رکھتے ہیں کہ انھیں مرکزی حکومت کی چابکدستی کا ڈر ہے، کیونکہ سی بی آئی ناردا اور شاردا کی جانچ کر رہی ہے۔

سی پی ایم اور کانگریس کیلئے حکمراں جماعت کا رویہ سخت گیر ہے۔ اس کے دفاتر تک کو ترنمول کانگریس  دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔ دونوں کی جدوجہد کو بھی اپنے لئے ناقابل برداشت سمجھتی ہے۔ محترمہ ممتا بنرجی کو اپنی حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہے جس طرح سی پی ایم مغربی بنگال کے سکریٹری کانت مشرا نے صفائی سے اپنی بات کہی ہے کہ بی جے پی سب سے زیادہ خطرناک جماعت ہے۔ اسی طرح ممتا بنرجی کو بھی بھاجپا کی خطرناکی کا نہ صرف ذکر کرنا ہوگا بلکہ نڈر اور بے خوف ہوکر بھاجپا کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔ اپوزیشن کیلئے کسی حال میں سی پی ایم اور کانگریس کے بجائے بی جے پی کیلئے اسپیس (جگہ) خالی کرنا۔ مغربی بنگال کی سر زمین کیلئے خطرہ اور خسارے کا سبب ہوگا۔

بھاجپا اور آر ایس ایس نے پورے ملک میں جو خلفشار اور خون خرابہ کر رکھا ہے اس سے مغربی بنگال کو ہر حال میں بچانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ مغربی بنگال کے مسلمانوں کا سیاسی شعور بھی بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال سے یہاں کے مسلمان اپوزیشن اور جمہوریت کی قدر و قیمت سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ انھیں ان دونوں کی ضرورتوں کی طرف توجہ دلانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ فرقہ پرستوں کے خلاف دلجمعی سے لڑسکیں ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔