ملک کی سلامتی خورش وپوشش کی یکسانیت میں ہرگزنہیں!

محمد جمیل اخترجلیلی ندوی

جب کسی مہمان کی آمد کی خبرگھرمیں آتی ہے توگھرکاپوراماحول بدل جاتاہے، ہرکام معمول سے زیادہ اورجلدانجام دے ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے، صفائی وستھرائی، آراستگی وپیراستگی اورغذائی لوازمات کی تیاری ، پھران کے بارے میں تبادلۂ خیال بھی خوب ہوتاہے، مہمان کالحاظ رکھتے ہوئے عمدہ سے عمدہ کھانے تیارکئے جاتے ہیں اوراگروہ کسی ’’خصوصیت‘‘ کی حامل شخصیت ہوتومذکورہ تمام امورمیں ’’اضعافاً مضاعفہ‘‘کا عمل اپنایاجاتاہے۔

حضرت انسان کی حیثیت اس کے خالق کی نگاہ میں کسی بھی محترم مہمان سے کہیں زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی تخلیق سے بہت پہلے اس وسیع وعریض کائنات کا وجود بخشاگیا، پھراس کی آراستگی اس خوبی سے کی گئی کہ ہرذی ہوش بے ساختہ اپنی زبان سے ’’تبارک اللہ أحسن الخالقین‘‘کہہ اٹھتاہے۔

کائنات کی سجاوٹ کے بعد حضرت انسان کی تخلیق حضرت آدم وحضرت حواء علیہماالسلام کی شکل وصورت میں ہوئی اورایک متعین مدت کے بعدکائنات کی جانشینی ان دونوں حضرات کے سپردکردی گئی، جس کے لئے انھیں ’’اشرف المخلوقات‘‘ کے تمغۂ امتیاز سے سرفراز کرتے ہوئے ’’خلدبریں ‘‘ سے اس حکم کے ساتھ کائنات میں بھیجاگیاکہ ’’جوکچھ آسمانوں اورزمین میں ہے، وہ سب تمہارے لئے ہے‘‘(الجاثیۃ: 13)۔

آسمانوں اورزمین کی ساری چیزیں جب انسانوں کے لئے ٹھہرادی گئیں تو انھیں ایسے گُربھی سکھائے گئے، جن کی مددسے وہ ان ’’ساری چیزوں ‘‘سے استفادہ کرسکیں ؛ تاکہ زندگی کی گاڑی پٹری پردرستگی کے ساتھ صحیح سمت پرراستہ طے کرتے ہوئے وقتِ مقررہ پر ’’منزلِ مقصود‘‘ تک پہنچ سکے اوردورانِ سفرکسی قسم کی ادنی تکلیف بھی انھیں نہ ہو۔

کائنات کی ’’ساری چیزوں ‘‘سے استفادہ کے جوگرانسانوں کے سکھائے گئے، وہ دوقسم کے ہیں ، ایک وہ، جس میں انسان کے علاوہ کائنات کی دوسری ’’جاندار‘‘ مخلوق بھی شامل ہے، اسے علمی اصطلاح میں ’’فطری‘‘ کہتے ہیں ، جیسے: بھوک وپیاس اورخواہشاتِ نفسانی کے تکمیل کے گر کہ یہ ہر جاندارمخلوق کومعلوم ہے، اس میں ’’انسان‘‘ کی کوئی خصوصیت نہیں ۔

دوسرا وہ، جس میں انسان کے علاوہ دوسری کوئی مخلوق شامل نہیں ، علمی اصطلاح میں اسے ’’اکتسابی‘‘ کہتے ہیں ، جیسے: روٹی بنانے کی ترکیب وغیرہ، یہ گرانسان اپنی عقل کے استعمال سے سیکھتاہے اورچوں کہ عقل صرف انسان کے پاس ہے؛ اس لئے وہ اس گرمیں ممتاز ہے، اس کاکوئی شریک نہیں ، اسی گر کی وجہ سے انسان جب بھی کائنات کی کسی چیز سے فائدہ اٹھانا چاہتاہے تودرج ذیل باتوں کوپیش نظررکھتاہے:

1۔ عقلی فائدہ:جب بھی انسان کسی چیز سے فائدہ اٹھاناچاہتاہے، وہ اس میں عقلی فائدہ کوپیش نظررکھتاہے، مثلا: خواہشات کی تکمیل جب جانورکرتے ہیں تووہ صرف اپنی طبعی تقاضہ کوپوراکرتے ہیں ، اس کے لئے وہ نہ تووقت دیکھتے ہیں اورناہی جگہ کاخیال رکھتے ہیں ، اسی طرح وہ کسی قسم کی رشتہ داری کابھی لحاظ نہیں کرتے، نیز اس سے ان کا کوئی دوسرافائدہ بھی مقصودنہیں ہوتا؛ لیکن یہی عمل جب انسان کرتاہے تووقت اورجگہ کاخیال رکھتے ہوئے رشتہ داری کابھی خیال رکھتاہے، پھریہ بات بھی اپنے سامنے رکھتاہے کہ اس کے ذریعہ سے ہم ’’غلط کام‘‘ سے بچے رہیں گے۔

2۔ نفاست کاخیال:پھرفائدہ اٹھاتے وقت وہ اس میں نفاست کاخیال رکھتاہے، جب کہ جانورصرف یہ چاہتاہے کہ اس کی ضرورت پوری ہوجائے، مثلا: بھوک کومٹانے کے لئے جانورسڑے گلے کی تمیز نہیں کرتا، وہ پیٹ کے اندرپہنچاتارہتاہے؛ لیکن انسان اس کی تمیز کرتاہے، عمدہ سے عمدہ کوتلاش کرتاہے اورسڑے گلے کوبھینک دیتاہے۔

3۔ عقل منداورزیرک لوگوں سے استفادہ:انسان کے اندرچوں کہ عقل کی ایک نمایاں صفت پائی جاتی ہے، جوہرایک کے اندریکساں نہیں ہوتی؛ اس لئے کسی بھی چیز سے نفع حاصل کرنے میں وہ ایک دوسرے کاتعاون لیتے ہیں ، بالخصوص عقل وخردکے لحاظ سے جوبڑھے ہوئے ہوتے ہیں ، ان کے مقابلہ کم عقل رکھنے والے ان سے خوب استفادہ کرتے ہیں ، مثلا: اندھیرے کوہرشخص اپنے اپنے اعتبارسے دوکرنے کی کوشش کرتاہے، کوئی لکڑی جلاکر، کوئی مٹی کاتیل استعمال کرکے، کوئی گیس کے ذریعہ سے اورکوئی کرنٹ(بجلی) کااستعمال کرکے، ظاہرہے کہ ان میں سے مفیدتراستعمال بجلی کااستعمال ہے، اسی لئے تمام لوگوں نے تاریکی کودورکرنے کے لئے اسی ذریعہ کواختیارکیا، پھریہ بھی ظاہرہے کہ اس کاتیارکرنے والا دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ زیرک تھا؛ اسی لئے لوگوں نے اس کی عقل مندی سے بھرپوراستفادہ کیا۔

کائنات کی چیزوں سے استفادہ کے لئے جوبھی گرسکھائے گئے، ان کامقصدہی یہ ہے کہ انسان آسائش کی زندگی گزارسکے، راحت اورسکون کی نیندسوسکے اورسکھ وچین کی سانس لے سکے، اس کے لئے ضروری تھاکہ انسانی مزاج کوسامنے رکھتے ہوئے کچھ اصول ایسے بنادئے جائیں ، جوہرذی شعورشخص کے نزدیک مسلم ہو؛ البتہ ان اصولوں کوبرتنے کے لئے جوطریقہ اختیارکیاجائے، اس کوعرف وعادت پرچھوڑدیاجائے؛ تاکہ کائنات کی ساری چیزوں سے نفع اندوزی کامقصد ہرگز فوت نہ ہو، اب آےئے کچھ اہم اورمشہوراصول اوران برتنے کے مختلف طریقوں کوبھی دیکھیں ۔

ایک مشہوراورمسلم اصول یہ ہے کہ زناکرنے والوں کی زجرکی جائے، دنیاکاکوئی بھی معتدل مزاج رکھنے والاشخص اس سے انکارنہیں کرسکتا؛ کیوں کہ اگراس کی اجازت دی جائے توپورے معاشرہ میں بگاڑپیداہوجائے گا، بھائی بہن کی تمیزمٹ جائے گی، ماں بیٹے اورباپ بیٹی کاتقدس تارتارہوجائے گااورایک ایسامعاشرہ وجودمیں آئے گا، جو’’جانوروں کا معاشرہ‘‘ کہلائے گا، اس کامشاہدہ ان علاقوں میں کیاجاسکتاہے، جہاں زناکے تعلق سے معمولی بھی کوتاہی برتی گئی ہے اورجس کے نتیجہ میں معاشرہ سے رشتہ داری کو ایساکاری زخم لگاہے، جوشایدکبھی نہ بھرسکے۔

ایک اصول یہ بھی ہے کہ چورکی سرزنش کی جائے؛ کیوں کہ اگراس کی سرزنش نہ کی گئی تولوگوں کے قیمتی اموال کبھی بھی محفوظ نہ رہ سکیں گے، ایک آدمی دن بھرمحنت مزدوری کرکے کوئی سامان لائے اوراس انتظارمیں گھرکے اندررکھ دے کہ صبح اس سے فائدہ اٹھائیں گے، جب صبح کے ساتھ اس سامان کی چوری کی خبرملے گی تواس کے ہوش ٹھکانہ میں بالکل نہیں رہ سکتے اورعجب نہیں کہ ’’ہارٹ اٹیک‘‘ کی نوبت بھی آجائے۔

اسی طرح ایک اصول یہ بھی ہے کہ ایک مرداورایک عورت سے اپنی خواہش کی تکمیل ’’نکاح‘‘ کے ذریعہ سے ہی کرسکتا ہے، نکاح کے بغیرتعلق قائم کرنے کو دنیا کی کوئی بھی ایسی قوم، جومعتدل مزاج رکھنے والی ہو ، درست نہیں سمجھتی، اسی لئے نکاح کی ’’تشہیر‘‘ کوبھی لازم قراردیاگیاہے؛ تاکہ ’’نکاح‘‘ اور’’زنا‘‘ میں فرق قائم کیاجاسکے ۔

ایک اصول یہ بھی ہے کہ شرم گاہ کوچھپایاجائے، کوئی بھی معتدل اوراخلاق کاحامل شخص کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دیتاکہ شرم گاہ چھپائے بغیر جہاں چاہے آئے جائے؛ حتی کہ طوائف،بھی جس نے اپنادھندہ ہی جسم فروشی بنالیاہے، بازارمیں کھلے عام بے لباس پھرناپسندنہیں کرتی، معلوم ہواکہ سترپوشی ایک ایسامسلم اصول ہے کہ ایک حیاباختہ عورت بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔

مذکورہ اصولوں کی طرح ایک اہم اورمشہورمسلم اصول یہ ہے کہ مردہ انسان کے جسم سے اٹھنے والی بدبوکوختم کیاجائے ؛ کیوں موت کے کچھ دنوں کے بعد اس سے عفونت آنی شروع ہوجاتی ہے، اگراس کودورنہ کیاجائے تودنیامیں انسانوں کارہنابسنادوبھرہوجائے؛ اسی لئے تمام اقوامِ عالم کا اس پراتفاق ہے کہ اس کی بدبوکوزائل کیاجائے۔

ایک اصول یہ بھی ہے کہ بھوک اورپیاس کودورکیاجائے؛ تاکہ انسان اپنے منعم حقیقی کاشکراوراپنے جسمانی قوت میں اضافہ کرسکے؛ یہاں تک کہ بعض دفعہ اس کومٹانے کے لئے مردارکھانے بھی اجازت دی گئی ہے، دنیاکوکوئی بھی شخص اس کاانکارنہیں کرسکتا۔

مذکورہ مسلمہ اصولوں پرغورکیجئے، معلوم ہوگا کہ دنیاکے اس کونہ سے لے کراس کونہ تک، کوئی مذہب، کوئی مسلک ، کوئی قوم ، کوئی طبقہ اورکوئی ایسافرد، جس کامزاج تندرست اورمعتدل ہو، وہ ان اصولوں کاانکارنہیں کرسکتا؛ بل کہ وہ ان اصولوں پرکاربند نظرآئے گا؛ البتہ ان اصولوں کے برتنے میں نمایاں فرق نظرآسکتاہے، جوقومی، ملکی، مذہبی اور علاقائی بُعداورتفاوت کی وجہ سے ہوتاہے، ان اصولوں کے برتنے کے طریقے میں جوفرق ہوتاہے، اسے علمی اصطلاح میں ’’رسوم‘‘ کہاجاتاہے، رسوم قوم ومعاشرہ کے لئے کتنی اہمیت کی حامل ہے؟ اس کااندازہ اسی ملک کے رہنے والے بارہویں صدی کے ایک عظیم مسلم اسکالرکی تحریرسے ہوسکتاہے، جن کودنیا’’شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ‘‘ کے نام سے جانتی ہے، وہ لکھتے ہیں : جان لیناچاہئے کہ رسوم کوارتفاقات(یعنی کائنات کی چیزوں سے استفادہ کرنے کی مفیدتدبیروں )میں وہی حیثیت حاصل ہے، جوجسم انسانی میں دل کوہے، اللہ کی شریعتیں بھی اولاً اوربالذات انہی کاارادہ کرتی ہیں ، قوانین الٰہیہ میں بھی انہی سے بحث کی جاتی ہے اورانہی کی طرف اشارات بھی ہیں ‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ: 1؍100) ۔۔۔۔ یعنی جس طرح دل کے بگڑنے سے جسم انسانی میں بگاڑ اورخرابی پیداہوجاتی ہے اوردل کی درستگی سے جسم انسانی میں درستگی برقراررہتی ہے، اسی طرح اگررسوم میں خرابی آئی تو ارتفاقات میں بھی خرابی آئے گی، اور جب ارتفاقات میں خرابی آئے گی تومعاشرہ کے اندربھی خرابی درآئے گی۔

مسلمہ اصولوں کے برتنے کے جومختلف طریقے ہیں ، ان پربھی ایک نظرڈال لینی چاہئے؛ تاکہ سمجھنے میں سہولت پیداہوجائے، اس سلسلہ میں سب سے پہلے ’’زنا‘‘ کو لیتے ہیں ، زانی کے زجر کی شکلیں مختلف قوموں میں مختلف ہے، بعض کے نزدیک کوڑے برسانا اورسنگ سارکرناہے، بعض کے نزدیک مارپیٹ، بعض کے نزدیک مالی جرمانہ اوربعض کے یہاں قیدوبندمیں ڈالناہے، ’’چور‘‘ کی سرزنش کاطریقہ بعض کے یہاں ہاتھ کاٹنا، بعض کے نزدیک تکلیف دہ مارپیٹ، بعض کے نزدیک مالی جرمانہ اوربعض کے یہاں جیل کی ’’کھچڑی‘‘ کھلاناہے، ’’نکاح‘‘ کے اعلان کاطریقہ بعض کے نزدیک گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول اورولیمہ کرناہے، بعض کے نزدیک دف اورگانابجانااور بعض کے نزدیک اچھے اچھے لباس پہننا ہے، آج کل اسی کی ایک صورت کارڈچھپواکراس کی تقسیم کرنابھی ہے، ’’سترپوشی‘‘بعض کے نزدیک کپڑوں کے ذریعہ ہوتی ہے اوربعض کے نزدیک پتوں کے ذریعہ ، ’’مردہ جسم کی بدبو‘‘ کوزائل کرنابعض کے نزدیک دفن کے ذریعہ ہوتا ہے، بعض کے نزدیک جلاکراوربعض کے یہاں سمندرمیں پھینک کر، اسی طرح ’’بھوک اورپیاس‘‘ کومٹانے کے ذرائع بھی الگ ہیں ؛چنانچہ بعض صرف دودھ پیتے ہیں ، بعض باقاعدہ کھاناکھاتے ہیں ، بعض پھل فروٹ لیتے ہیں ، اسی طرح پینے میں پانی، کول ڈرنکس اورشربت وغیرہ استعمال کرتے ہیں ، پھرکھانے میں کوئی بریانی پسندکرتاہے اورکوئی صرف سبزیاں ہی کھاتاہے، اسے گوشت سے الرجک ہے۔

رسوم یعنی مسلمہ اصولوں کے برتنے کے طریقے جب مختلف ہیں توان میں یکسانیت پیداصرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے، جب روئے زمین پربسنے والوں کے مزاج، رہن سہن اوردین ومذہب میں یکسانیت پیداہوجائے، اس کے بغیرچاہے جتنی بھی کوشش کرلی جائے، ناممکن ہے؛ بل کہ اس کوشش کے نتیجہ میں سوائے فسادبرپاہونے کے اورکچھ بھی فائدہ نہیں ہوسکتا۔

اس پس منظرمیں ہمارے ملک کے حالات پرغورکیجئے، اس ملک کی خصوصیت اس کی گنگا جمناتہذیب ہے، یہاں رحمن کی عبادت کرنے والے بھی رہتے ہیں اوررام کی پوجاکرنے والے بھی، یہاں نانک کی بھی کیرتن کی جاتی ہے اوربدھ کی پرستش بھی، یہاں عیسائی بھی ہیں اورپارسی بھی، یہاں جین مذہب کے لوگ بھی بستے ہیں اوربوہرہ فرقے کے لوگ بھی، یہاں سکھ بھی آبادہیں اوریہودبھی، ظاہرہے کہ سب کی تہذیب، سب کاتمدن، تمام لوگوں کارہن سہن اور خورش وپوشش بالکل دوسرے سے جداگانہ ہے، اگران تمام کوکسی ایک حالت اورہےئت کاپابندبنایاجائے تولازماً دوسرے کوشدیدتکلیف ہوگی اوراس جمہوریت کاخون ہوگا، جس کاڈنکاپورے عالم میں بجتاہے؛ لیکن اگرسب کوان کی اپنی حالت پر چھوڑدیاجائے توکسی کوکسی سے کوئی تکلیف نہ ہوگی۔

حالیہ دنوں میں ’’بیف‘‘ کابڑا چرجارہاہے، اتنازیادہ کہ اس کے لئے کئی لوگوں کی جانیں تک لے لی گئیں ، سوال صرف یہ ہے کہ آپ(بزعم خود) اپنے مذہب کے مطابق جیناچاہتے ہیں تودوسروں کوان کے مذہب کے مطابق جینے سے کیوں روک رہے ہیں ؟ بقول عزت مأب وزیراعظم ’’اگرقبرستان بنے گاتوشمشان بھی بنے گا‘‘؛ لیکن جب ’’شمشان‘‘ بن رہے ہیں تو’’قبرستان‘‘ پرپابندی کیوں ؟’’عیدمیں بجلی رہے گی توہولی میں بھی رہنی چاہئے‘‘؛ لیکن ہولی میں توبجلی کی آنکھ تک نہیں جھپکتی ؛ لیکن عید میں اس کی آنکھ کیوں نہیں کھلتی؟

اگرایک کی خواہش ’’بیف‘‘ پرباندی لگوانے کی ہے تودوسروں کی خواہشوں کاخون کیوں کیاجائے؟ کسی کی خواہش ہے ’’خنزیر‘‘ پربندی لگوانے کی، اس پربھی عمل کروایاجائے، جوسبزی خور ہیں ، ان کی خواہش ہے کہ ہرقسم کے گوشت ؛ حتی کہ انڈااورمچھلی پربھی پابندی لگائی جائے، ان کی خواہش کابھی احترام ضروری ہے، یہ ملک چوں کہ سب کا ہے؛ اس لئے سب کی خواہشات کالحاظ رکھناضروری ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اپنی ہرخواہش توپوری کرنے کی کوشش کی جائے اوردوسروں کی خواہشوں پرلات ماردی جائے؟ یہی مسئلہ’’ لباس‘‘ کے سلسلہ میں ہوگا، کورٹ پینٹ والوں کی خواہش ہوگی کہ ہرشخص کورٹ پینٹ ہی پہنے، کرتاپاجامہ والوں کی خواہش ہوگی کہ ہرفردکرتاپاجامہ ہی پہنے، نقاب پہننے والی خواتین کی خواہش ہوگی کہ ہرعورت نقاب پہنے اورننوں کی خواہش ہوگی کہ ہرعورت نن بن جائے، کیاایساممکن ہے؟ ظاہرہے کہ ہرذی شعوراورمعتدل مزاج رکھنے والے کا جواب ہوگا: ہرگز نہیں !کیوں کہ اس طرح توکھانے پینے کی تمام چیزوں پرپابندی لگ جائے گی، اسی طرح بہت سارے لباس پربھی پابندی عائد کرنی ہوگی توپھراس طرح کی بے جاکوشش چہ معنی دارد؟

اگرپابندی لگانی ہے توہرایسی کھائی جانے والی چیزپرپابندی لگائی جائے جوصحت کے لئے مضرہو، ہرایسے معاملہ پرلگائی جائے، جوملکی معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہو، ہرایسی تعلیم پرلگائی جائے،جواخلاق کادیوالیہ نکالنے والے ہوں ، جوچھوٹوں سے بڑوں کے احترام کوچھین لے، جوعورت کی عزت کونیلام کردے اوربھائی چارہ کے خلاف ذہن سازی کرے۔

ملک اورجمہوریت کی سلامتی اسی میں ہے کہ ہرمذہب والے کواس کے مذہب کے مطابق جینے دیاجائے، کسی کی ’’خواہش‘‘ کی خاطر کسی کی ’’خواہش‘‘ کاخون کرناہرگز درست نہیں ، نہ اس کی کوشش کی جائے اورناہی اس کوہوادی جائے؛ البتہ لوگوں کی سوچ کوبدلنے کی ضرورت ہے اوریہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جب ایک باپ کے دوبچوں کی خواہشیں الگ ہوتی ہیں اورباپ ہرایک کی خواہش پوری کرتاہے توپھرملک کے تمام بسنے والی قوموں کی خواہشیں کیوں کر پوری نہیں کی جاسکتیں ؟ملک کے اندراس بھائی چارہ کو لانے کی ضرورت ہے، جوانگریزوں کے زمانہ میں قائم ہواتھا اورجس کے نتیجہ میں یہ ملک آزادہوسکا، اگراس وقت بھائی چارہ کی یہ فضا قائم نہ ہوتی توہم آج بھی غلام ہوتے، لہٰذا ملک کے دانشوروں اوراچھی سوچ رکھنے والوں سے درخواست ہے کہ وہ اس کے لئے آگے بڑھیں اورملک کے اندرجو’’جاہلوں والی سوچ‘‘ پیداہوگئی ہے، اسے ختم کریں ؛ تاکہ ملک ہراعتبارسے ترقی کرسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔