موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟

تبسم فاطمہ

مودی حکومت کی غلطی یہ ہے کہ حزب مخالف کو کمزور تسلیم کرلیا گیا ہے۔ ملک میں سیاسی بحران اس وقت پیدا ہوتا ہے جب حزب مخالف کمزور ہو۔ تین برسوں میں حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مودی اور آر ایس ایس کی سیاسی دور اندیشی کا ہر صفحہ ان کے مشن کو کھلے طور پر بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس مشن کی بنیاد بہت سوچ سمجھ کر رکھی گئی تھی اور اسی لیے 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل کانگریس مکت بھارت کا نعرہ بھی اچھالا گیا۔ کانگریس ہندوستان کی قدیم پارٹی ہے۔ وہ اس نعرے کی اصلیت کو سمجھنے سے قاصر رہی۔ پھر ان تین برسوں میں جو کچھ ہوا، وہ ہندوستانی عوام کے سامنے ہے۔ کانگریس الگ تھلگ پڑ گئی۔ اترپردیش میں ایس پی  اور بی ایس پی کا اثر و رسوخ کم ہوا۔

ممتا کے بنگال میں بی جے پی نے تیزی کے ساتھ قدم بڑھانا شروع کیا۔ یہ سب اس ایک مشن کی کرامت ہے کہ اگر حزب مخالف کا قلعہ ڈھا دیا جائے تو کم از کم دس برسوں تک بی جے پی کو کمزور کرنے والی کوئی طاقت ہندوستان میں نہیں رہے گی۔ اس وقت ملک کا اصل منظرنامہ یہ ہے کہ بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی پارٹیاں حاشیہ پر چلی گئی ہیں اور جو پارٹیاں ابھی بی جے پی کے ساتھ نہیں ہیں ، وہ اپنی شناخت اور مستقبل کو دیکھتے ہوئے آئندہ کوئی بھی بڑا قدم اٹھا سکتی ہیں ۔ بی جے پی کی طاقت اور مقبولیت کا گراف یہ ہے کہ کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے بڑے لیڈران سیاستی تحفظ کے لیے اب بی جے پی کا دامن تھامنے لگے ہیں ۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ طاقت اور غرور کے نشہ میں بھی اکثر حکومتوں کوزوال آیا ہے۔ بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، نوٹ بندی، امیروں کو فائدہ پہنچانے والی سیاست اور تاناشاہی کی طرف بڑھتے قدم نے بھلے آر ایس ایس اور مودی کی طاقت میں اضافہ کیا ہو، لیکن ملک کو کمزور اور کھوکھلا کردیا ہے۔ ملک اس وقت جس خاموش انقلاب سے گزر رہا ہے، ابھی حکومت کو اس کی آہٹیں سنائی نہیں دینگی لیکن یہی انقلاب کی آہٹیں ایک دن تخت وتاج کو چھین بھی لیتی ہیں ۔

برسراقتدار حکومت تین برسوں میں اپنا کوئی بھی وعدہ وفا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تین برسوں میں ہندوستانی معیشت کمزور ہوگئی۔ بے روزگاری بڑھ گئی۔ وکاس کے نعرے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ نوٹ بندی کے اثرات سے باہر نکلنے میں ابھی ہندوستان کو وقت لگے گا۔ تین برسوں میں جمہوریت کمزور ہوئی۔ ہندوستان کے سیکولر کردار کو دھکا پہنچا۔ عوام تقسیم ہوگئے۔ مذہبی اقلیتیں اپنے مستقبل سے خوفزدہ ہوگئیں ۔ خصوصی طور پر دلتوں اور مسلمانوں میں یہ سوچ کر بے چینی بھر گئی کہ حکومت ہر جگہ، ہر موقع پر ان کا شکار کررہی ہے۔ مذہبی مسائل کو اٹھا کر حکومت نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔

مسلم مخالف اکثریت کو متحد کیا اورمسلمانوں کو خانوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ گئو کشی کے نام پر حملے تیز ہوئے۔ مسلم مخالف بیانات کے سلسلے جاری رہے۔ زخموں کو سہلانے کے لیے کبھی کبھی وزیر اعظم کی طرف سے کوئی بیان آجاتا تھا۔ اس لیے گئو کشی کے معاملے پر یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ اگر وزیر اعظم مودی کومسلمانوں اور دلتوں سے واقعی ہمدردی ہے تو وہ اپنا بیان عدالت میں تحریری طور پر کیوں نہیں دیتے؟ اس بات کا صاف جواب ہے کہ جو کچھ بھی ملک میں ہورہا ہے، وہ حکومت کی شہہ پر ہورہا ہے۔ اشتعال انگیز بیانات کی زمین جان بوجھ کر ہموار کی گئی ہے۔ اور اس کے پس پردہ 2019 کا انتخاب ہے۔ مودی کی نظر اس انتخاب پر ہے۔ مندرجہ بالا سطور میں یہ بات اٹھائی گئی ہے کہ طاقت کا غرور اور نشہ ہی حکومت کو کمزور کرتا ہے۔ اس طاقت کی کمزوریاں اب آہستہ آہستہ بے نقاب ہونے لگی ہیں ۔ جب من موہن سنگھ کی حکومت تھی اور فوج کا معاملہ سامنے آتا تھا تو سشما سوراج سے لے کر اسمرتی ایرانی تک کانگریس حکومت کو چوڑیاں پہننے کی تلقین کیا کرتی تھیں ۔

ہندوستان میں فوج کو لے کر عقیدت کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ پاکستانی فوج کی بربریت کے باوجود مودی حکومت کا خاموش رہنا ابھی عوام کے صبرو تحمل کا امتحان لے رہا ہے۔ عوام حقیقت اور حقیقت کے پردے کی کہانی کو سمجھنے لگے ہیں ۔ جیسے عوام اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ بی جے پی امیروں کی پارٹی ہے۔ امبانی اور اڈانی کی پارٹی ہے۔ حکومت آسانی سے وجے مالیا کو ملک سے بھگا بھی دیتی ہے اور اس کے ٹیکس بھی معاف کردیتی ہے۔ عوام یہ بھی جان چکے ہیں کہ حکومت، پاکستان پر اس لیے بھی ہاتھ ڈالنے سے گھبرا رہی ہے کہ امبانی اور اڈانی کے بڑے بڑے پراجیکٹ اس وقت پاکستان میں چل رہے ہیں اور اڈانی، امبانی جیسے لوگ اس وقت ملک کا مضبوط حصہ ہیں ۔ اصل سیاسی بحران یہ ہے کہ ملک امیر اور غریب کے درمیان تقسیم ہے۔ مذہبی اقلیتوں کو کمزور اس لیے کیا گیا کہ اکثریت کو اقتصادی طور پر مضبوط کرنا ہے۔ حزب مخالف کا شیرازہ اس لیے بکھیر دیا گیا کہ حکومت کے راستہ میں آنے والے کا نئے دور ہوں تاکہ سیاست میں من مانی کی جاسکے۔ یہ رخ ہندوستان کے عوام کے سامنے ہے۔ نوٹ بندی، فوج کے معاملات اور دیگر امور کو لے کر اکثریت بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ حکومت کا کھیل تماشہ مستقبل میں کیا رنگ لائے گا۔؟

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کانگریس کمزور ضرور ہوئی ہے لیکن کانگریس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کانگریس کی بنیاد کے پیچھے جمہوریت اور سیکولرزم کی مضبوط زمین رہی ہے۔ کانگریس نے جیسے ہی اس زمین کو نظر انداز کیا، اس کے حوصلے پست ہوئے اور عوام کے درمیان اس کا گراف گر گیا۔ اب اس جائزے میں عآپ کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ جب بی جے پی نے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگایا، انا ہزارے کی قیادت میں اس آواز پر لبیک کہنے کا کام عآپ نے کیا۔ اس لیے اجے ماکن کی اس بات میں دم ہے کہ جس پارٹی کی پرورش انا ہزارے کی تحریک سے ہوئی ہو، اس پارٹی کو آر ایس ایس مشن کا ایک حصہ ہی سمجھنا چاہیے۔ عآپ در اصل کانگریس کو کمزور نہیں کررہی تھی بلکہ ہندوستانی سیاست کے لیے بحران پیدا کررہی تھی۔ اس مشن سے فائدہ بی جے پی نے اٹھایا۔ جب فائدہ اٹھالیا تو بی جے پی عآپ کو تہہ نشیں کرنے میں لگ گئی۔ اروند کجریوال کی سیاسی مجبوری نے ملک کو ایک ایسے اندھے کنویں میں ڈال دیا جہاں وہ خود بھی ڈوبے اور کانگریس کو بھی ڈبو دیا۔ گوا، منی پور، دلی کے ایم سی ڈی انتخاب میں فتح کا پرچم لہرانے کے بعد اب بی جے پی کے حوصلے بڑھ چکے ہیں لیکن عوام کا امتحان ابھی باقی ہے۔ مودی اور آر ایس ایس اب بھی یہ بھول کررہے ہیں کہ صرف ہندوتو کے سہارے ہندوستان کی نئی سیاسی تاریخ لکھی جاسکتی ہے۔ اب اس سیاسی تاریخ میں چور دروازے سے مودی کے مقابلہ میں یوگی کے آنے سے امت شاہ کیمپ میں ہلچل مچ گئی ہے۔

یوگی اونچی ذات سے بھی ہیں اور برہمنوں کی پسند بھی۔ میڈیا جس طرح یوگی کو پراجیکٹ کررہا ہے، اس سے بھی یہ صاف نظر آرنے لگا ہے کہ 2019 میں آر ایس ایس کی پسند یوگی بن سکتے ہیں ۔ یوگی متنازعہ بیانات سے الگ روزگار سے اترپردیش کو جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں ۔  اکیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ روز گار اور ترقی ہے۔ مودی حکومت نے ان تین برسوں میں روزگار اور ترقی کے دروازے بند کررکھے ہیں ۔ کسانوں کے مسائل اپنی جگہ ہیں ۔ اقتصادی گراف میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔

ابھی عوام کی اکثریت میں مودی کی مقبولیت برقرار ہے لیکن سیاسی بحران سے پیدا شدہ مسائل عوام کو پریشان بھی کررہے ہیں ۔ سانپ سیڑھی کے گیم میں الجھی ہوئی حکومت کے لیے راستہ آسان نہیں ۔ کیونکہ عوام کی دلچسپی ہندوتو کے نعرے سے زیادہ زندگی اور روزگار میں ہے۔ کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے لیے راستہ ابھی دشوار نہیں ہے۔ اتحاد کے مظاہرے سے عوام تک پہنچا جاسکتا ہے۔ سیکولرزم اور جمہوریت کی بقا کے لیے اب مضبوط آوازوں کا سامنے آنا ضروری ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تانا شاہی اور ظلم کو زیادہ دنوں تک رائج نہیں کیا جاسکتا۔ ابھی بھی مودی حکومت اس بات پر غور نہیں کررہی کہ وہ اپنے ہی کھیل میں الجھتی اور پھنستی جارہی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔