مودی یوگی کے دَور میں شادیاں سوگ سبھا بن گئیں

حفیظ نعمانی

یہ بات قلم سے کئی بار نکل چکی ہے کہ ہم سنبھل کے رہنے والے ہیں اور سنبھل میں بھی ایک مخصوص محلہ دیپا سرائے میں پیدا ہوئے جو سنبھل کا مغربی حصہ ہے۔ اس پورے محلہ میں روسی ترکستان سے آئے ہوئے ایک قبیلہ کے لوگ آباد ہیں پچاس ساٹھ ہزار کی آبادی میں غیرمسلم تو کیا غیرترک بھی نہیں ہے۔ نہ علوی ہیں نہ فاطمی نہ فاروقی ہیں نہ صدیقی ہیں نہ عثمانی۔ اسی لئے ازدواجی رشتے اپنے قبیلہ میں ہی ہوتے ہیں اور پوری دیپا سرائے میں ہر کسی کی کسی سے قریبی رشتہ داری ہے، کسی سے دور کی رشتہ داری۔ اور یہ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ چند سال سے شادی کے کارڈ چھپنے لگے ہیں کیونکہ اب سنبھل سے باہر ہماری طرح پردیسیوں کی تعداد کافی ہوگئی ہے۔ ورنہ ایک فہرست خاندانی نائی کو دے دی جاتی تھی اور وہ سیکڑوں گھروں میں دعوت دے آتا تھا۔

پروردگار نے اپنا فضل فرمایا ہے اور اکثریت ان کی ہے جن کو خوشحال کہا جائے گا وہ شادی میں اور کچھ کریں نہ کریں جہیز بہت دیتے ہیں اور کھانا بہت پکواتے ہیں۔ آدتیہ ناتھ یوگی سے پہلے بڑے جانور اس طرح کٹتے تھے جیسے لکھنؤ میں بکرے کٹتے ہیں کہ ایک جانور کا گوشت پک رہا ہے ایک کو قصائی کاٹ رہے ہیں اور ایک انتظار میں ہے کہ کم پڑجائے تو اسے بھی قربان کردیا جائے۔

میرے حقیقی چچازاد بھائی کے دو بچوں کی شادی ہے۔ انہوں نے ہم لکھنؤ والوں کے لئے کارڈ لے کر ایک بیٹے کو بھیجا تھا۔ ہم نے معلوم کیا کہ آج کے حالات میں کیا کرتے ہو؟ کہنے لگا کہ ایک چھوٹا سا میریج ہال ہے وہاں انتظام کردیا ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ فیکٹری سے گوشت لینا پڑتا ہے 200  روپئے کلو گوشت ہے۔ اپنا جانور کسی قیمت پر فیکٹری کے باہر کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ بعض لوگ جو آبادی سے دور بھینس کاٹ بھی لیتے ہیں تو وہاں سے گوشت لانا ایسا ہے جیسے افیم لارہے ہیں۔ اور اس پر بھی نظر رکھی جاتی ہے کہ کس کے گھر شادی ہے کتنا گوشت خریدا اور کتنے مہمان آئے؟ دیپا سرائے میں کون خاندان ہے جس کے پاس کھیت یا باغ نہیں ہے اور دیپا سرائے میں جتنے شکاری ہیں اتنے پورے ضلع میں نہیں ہیں آج بندوقیں لاٹھیوں کی طرح پڑی ہیں اور ہر کھیت میں پہلے نیل گائے کے جھنڈ آتے تھے اب پلے ہوئے جانور کھیت کے کھیت صاف کئے دے رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ وہ جو مویشی جانور بازار لگتے ہیں آپ ذرا آکر وہاں کا تماشہ دیکھیں کہ بوڑھی گائے اور بوڑھے بیل کسان بیچنے کے لئے آتے ہیں اور کوئی ان کی رسّی ہاتھ میں پکڑکر نہیں کھڑا ہوتا۔ اور جب شام تک وہ نہیں بکتے تو ایسے ہی چھوڑکر چلے جاتے ہیں۔

حکومت نے گائے اور بیل یا بچھڑے پر پابندی لگائی ہے۔ مسلمانوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ سفید جانور نہیں کاٹیں گے لیکن وہ بوڑھی بھینس یا کھڑے جو کسی مصرف کے نہیں انہیں بھی رشتہ دار بنا رکھا ہے۔ کسی لائسنس والے کی ہمت نہیں ہے کہ کھیتوں سے جانوروں کو بھگانے کے لئے ہوائی فائر ہی کرسکے۔ اس کے بجائے اب یہ ہورہا ہے کہ بھوکی گایوں اور سانڈوں کے پیچھے کسان جب کھیت میں لاٹھی لے کر دوڑتا ہے تو وہ مقابلہ پر آتے ہیں اور اب تک کئی آدمی مرچکے ہیں۔

آزادی کے بعد ایک سے ایک سنگھی وزیراعلیٰ آئے لیکن ہم ترکوں کو گوشت کی پریشانی نہیں ہوئی۔ ایک تو پورا ملک نوٹ بندی کا مارا ہوا تھا ہی اب اسے بیگن کاشی پھل چنے کا ساگ اور بتھوا حلق سے اتارنا پڑرہا ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی ایسے پروگرام بنا رہے ہیں جیسے شیخ چلی بنایا کرتے تھے۔ مندر میں رہ کر پوجا پاٹ کرنے والے پجاری کیا جانے کہ آوارہ جانور صرف چھری سے قابو میں آتا ہے یوگی کو آئے ہوئے ابھی دو برس بھی نہیں ہوئے ہر کسان اس کا دشمن بن گیا ہے کل جسے وہ ماں کہتا تھا صرف زبان سے کہتا تھا مانتا نہیں تھا۔ اگر مانتا ہوتا تو بازار میں اسے چھوڑکر نہ جاتا۔ اگر وزیراعلیٰ یوگی کو یقین نہ ہو تو وہ الیکشن کرالیں اور ہر اس آدمی سے معلوم کرائیں جس کے گھر گائے ہو۔ وہ کسان ہو دودھ کا کاروبار کرتا ہو یا اپنے بچوں کیلئے پالتا ہو کہ جب وہ ناکارہ ہوجائے گی تو اسے ماتا مان کر رکھو گے یا آدھے پیسوں میں فروخت کردوگے؟ ہمیں یقین ہے کہ 90  فیصدی وہ ہوں گے جو کہیں گے کہ اسے بیچ کر دوسری لیں گے۔ ہوسکتا ہے 2  فیصدی کہہ دیں کہ رکھیں گے لیکن یہ جھوٹ ہوگا۔

یوگی حکومت نے 10  جنوری تک کی حد مقرر کی تھی کہ آوارہ جانوروں سے کھیتوں کو بچا لیا جائے اور ہر بلاک میں دو دو گئوشالہ بنا دیئے جائیں۔ جس ملک میں وزیراعظم ہزاروں کروڑ روپئے خرچ کرکے پیخانے نہ بنوا سکے جس کا تعلق بیٹی بچائو اور گینگ ریپ کی جیسی گندی حرکت سے ہے تو وزیراعلیٰ ان آوارہ گایوں کے لئے جن کے اوپر چوراہوں پر سانڈ چڑھتے ہیں اور آوارہ نسل بڑھاتے ہیں کون گئو شالہ بنائے گا اور اگر اس کے لئے بجٹ دیا جائے گا تو بعد میں تحقیق ہوتی رہے گی کہ کس نے کتنا کھایا؟

یوگی نے جو فیصلے کئے ان سے ان کو کیا ملا یہ وہ جانیں لیکن بڑے خاندانوں کی شادیاں پھیکی کردیں لاکھوں کسانوں کو گائے کی قیمت سے محروم کردیا اور یہ ایک کی نہیں ہر گائوں کی کہانی ہے کہ کسان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ جو بچہ شادی کے کارڈ دینے آیا تھا اس کے بھائی کے دو ٹرک تھے دونوں بک گئے کہ کام نہیں ہے دوسرے بھائیوں کے بھٹے بند پڑے ہیں کہ گذشتہ سال کی اتنی اینٹ رکھی ہے وہی بک جائے قصائی چھپ کر بھینس کاٹنے پر تیار نہیں ہے کیونکہ نہ جانے کتنے جیل میں ہیں پوری قریشی برادری مودی اور یوگی کے نشانہ پر ہے سب کو اس دن کا انتظار ہے جس دن ہر گھر سلاٹر ہائوس بن جائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔