مکل رائے اور ممتا بنرجی میں دوری کے اسباب و نتائج

عبدالعزیز

 مکل رائے ترنمول کانگریس میں تین سال پہلے تک نمبر 2سمجھے جاتے تھے مگر محترمہ ممتا بنرجی کے بھتیجے ابھیشک بنرجی کے پارٹی میں عروج سے مکل رائے کی نمبر 2کی پوزیشن پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ آہستہ مسٹر ابھیشک بنرجی کی اہمیت اس قدر بڑھ گئی کہ وہ 2نمبر پر سمجھے جانے لگے۔ ممتا بنرجی نے اپنے بھتیجے کو پروموٹ کیا جس کی وجہ سے پارٹی کا ہر کوئی جو ممتا بنرجی کی خوشنودی اور قربت چاہتا تھا، اسے ابھیشک کو مکل رائے کے مقابلے میں ترجیح دینا پڑتا تھا۔ مسٹر مکل رائے کو اپنے سپریمو کی ادا ناپسند آنے لگی۔ اس کا احساس محترمہ ممتا بنرجی کو بھی ہوگیا ۔ مغربی بنگال اسمبلی الیکشن سے پہلے ہی یہ صورت پیدا ہوگئی تھی ۔ دونوں لیڈروں میں کشمکش کا حال یہ تھا کہ مکل رائے اپنے نئے راستے کے بارے میں غور و فکر کر رہے تھے۔ کانگریس، سی پی ایم اور ترنمول کے منحرف لیڈروں سے اپنا رشتہ استوار کر رہے تھے۔ محترمہ ممتا بنرجی کو یہ بار آور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ اسمبلی الیکشن جو قریب تر ہے وہ باغی لیڈروں سے مل کر اگر محاذ آرائی کریں گے تو ترنمول کانگریس کمزور ہوسکتی ہے اور الیکشن میں ہار بھی سکتی ہے۔ اس وقت ممتا بنرجی بھی قدم پھونک پھونک کر رکھ رہی تھیں اور یہی حال مکل رائے کا بھی تھا۔

   اس وقت ممتا بنرجی سب کچھ سمجھنے اور جاننے کے باوجود کہ مکل رائے ان کی لیڈر شپ کو چیلنج کرنے کے موڈ میں ہیں ۔ الیکشن کی وجہ سے مکل رائے کو باہر کا راستہ دکھانے کے حق میں نہیں تھیں بلکہ ایک ہوشیار اور چاک و چوبند سیاستداں کی طرح ہر ایک کو اپنی پارٹی سے جوڑنے کی فکر میں تھیں ۔ مکل رائے عبدالرزاق ملا، صدیق اللہ چودھری اور سی پی ایم اور کانگریس کے چند باغی لیڈروں کے رابطے میں تھے۔ اس وقت مکل رائے کا رخ بی جے پی کی طرف نہیں تھا مگر اب بہت سے لوگ جو مکل کا ساتھ دے سکتے تھے یا تو تھک کر بیٹھ گئے یا ترنمول کانگریس میں شامل ہوگئے۔ اب مکل رائے بہت حد تک بی جے پی کی طرف اپنا رخ یکسوئی کے ساتھ کر چکے ہیں ۔ کہا جارہا ہے کہ اپنے ایک قریبی ہمدرد کے ساتھ وزیر خزانہ ارون جیٹلی سے دہلی میں ملاقات کر چکے ہیں ۔ مسٹر ارون جیٹلی نے یقین دلایا ہوگا کہ ان کو بی جے پی میں شامل کر لیا جائے گا۔ مسٹر مکل رائے کے سر پر ناردا کیس کی تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ وہ سمجھ رہے ہیں کہ بی جے پی میں جانے سے ناردا کا سر پر جو بوجھ ہے وہ بھی ہٹ جائے گا اور ترنمول کانگریس کی سپریمو کو چیلنج بھی کرسکیں جس سے قیادت اور پارٹی کمزور ہوسکتی ہے۔

 مسٹر مکل رائے اور بی جے پی کے لیڈران مزید غور و فکر میں ہیں کہ مکل رائے کو نئی پارٹی بنانے کی تجویز دی جائے یا انھیں شامل کرلیا جائے۔ دونوں پہلوؤں پر غور کیا جارہا ہوگا۔ میرے خیال سے مکل رائے اگر نئی پارٹی بناتے ہیں تو وہ ترنمول کانگریس کو زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ اس وقت بی جے پی اپنے آپ کو مغربی بنگال میں نمبر 2 پر سمجھ رہی ہے، اس لئے ممکن ہے مکل رائے کو نئی پارٹی بنانے پر زور دے اور مسٹر مکل رائے بھی نئی پارٹی بناکر اپنی قسمت آزمانا چاہتے ہوں گے۔ ممتا بنرجی نے کانگریس سے الگ ہوکر ترنمول کانگریس بناکر جدوجہد شروع کی اور 17 سال میں ایک مستحکم حکومت کو اکھاڑ پھینکا تھا۔ اجے مکھرجی نے کانگریس سے نکل کر بنگلہ کانگریس کی تشکیل دی تھی ۔ وہ بھی کانگریس کو ایسا دھچکا لگایا کہ کانگریس پھر بنگال میں ابھر نہ سکی۔ مکل رائے کے سامنے ممتا بنرجی اور اجے مکھرجی کی مثالیں موجود ہیں ۔ مکل رائے میں تنظیمی صلاحیت ہے مگر وہ گراس روٹ (Grass Root) کے لیڈر نہیں بن سکے ہیں اور نہ ہی ان کیFollowing بہت زیادہ ہے۔ ان کے پاس حوصلہ اور عزم کی بھی کمی ہے۔ مکل رائے نے ترنمول کانگریس کو بنانے اور مضبوط و مستحکم کرنے میں ممتا بنرجی کے بعد سب سے زیادہ کام کیا ہے مگر جس پارٹی میں ایک ہی فرد سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے اس میں اندرونی جمہوریت نام کی چیز نہیں ہوتی۔ مسٹر مکل رائے بھی جو پارٹی بنائیں گے اس میں بھی وہی سیاہ و سفید کے مالک ہوں گے۔ ایسی پارٹیوں میں کامیابی کے وقت موروثیت (Dynasty) اپنی جگہ بنالیتی ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ مکل رائے سے زیادہ ممتا بنرجی کی خوبیوں اور کمزوریوں سے شاید ہی کوئی واقف ہو۔

 مغربی بنگال میں اگر کوئی بی جے پی میں شامل ہوتا ہے تو بی جے پی تو شاید اس کی وجہ سے مضبوط نہ ہو مگر وہ اپنی شناخت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کھو دے گا؛ کیونکہ ملک گیر اور ریاست گیر پیمانے پر اس وقت جو لڑائی ہے وہ فسطائیت اور فرقہ پرستی کے مقابلے میں جمہوریت اور سیکولرزم کی لڑائی ہے۔ اگر مکل رائے بی جے پی میں جاتے ہیں تو فسطائیت اور فرقہ پرستی کا ہاتھ مضبوط کریں گے۔ ان کو بھی فسطائی اور فرقہ پرستانہ موقف کو اپنانا ہوگا۔ یہ مغربی بنگال کیلئے بدقسمتی ہوگی کہ ترنمول کانگریس کے بانیوں میں شامل فرد اور ممتا بنرجی کا دست راست فرقہ پرستی اور فسطائی طاقتوں کا شکار ہوجائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔