نتن گڈکری: وزیراعظم عہدے کے مضبوط دعوے دار؟

خالد سیف الدین

  ملک میں بی جے پی کا عروج لال کرشن اڈوانی کا مرہونِ منّت ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اگر لال کرشن اڈوانی رام رتھ یاترا نہیں نکالتے تو بی جے پی اقتدار تک کبھی پہنچ نہیں پاتی۔ لال کرشن اڈوانی کی قیادت میں رام رتھ یاترا کا آغاز  ۲۵؍ ستمبر ۱۹۹۰ ء کو سومناتھ مندر       ( گجرات ) سے کیا گیا تھا جبکہ اس کا اختتام  ۳۰ ؍ اکتوبر ۱۹۹۰ ء ایودھیا میں ہوا۔  اس رتھ یاترا کا مقصد وشو ہندو پریشد کی تحریک کی حمایت کرنا تھا، جو چاہتی تھی کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر ہو تو دوسری جانب اہم ترین پسِ پردہ اسکا سیاسی مقصد یہ تھا کہ مرکز میں بی جے پی حکومت کے قیام کے لیے ملک کی تمام ہندو قوم پرست تنظیمو ں کو منظم کیا جاسکے۔ اس وقت لال کرشن اڈوانی بی جے پی کے قومی صدر تھے جو اس رتھ یاترا کے ذریعے اپنے اس سیاسی مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔  ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد مسمار کر دی گئی۔ اس سانحہ کے بعد بی جے پی کا سیاسی گراف مسلسل بڑھتا چلا گیا اور نتیجتاً۱۹۹۸ء  سے ۲۰۰۴ ء تک اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی نے مرکز میں حکومت کی جبکہ بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے والے لال کرشن اڈوانی کے حصہ میں وزارتِ داخلہ کا قلم دان آیا اور ۲۰۰۲ ء میں پارٹی کے لیے انکی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں انہیں نائب وزیر اعظم کا عہدہ بحال کر دیا گیا۔ ۲۰۰۴ ء اور ۲۰۰۹ ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کی مسلسل شکست و ناقص کار کردگی نے بی جے پی اور اسکی مشفق و ناصح جماعت آر ایس ایس ( سنگھ پریوار ) کے ہوش اڑا دیے جبکہ ان کے لیے لمحہ فکریہ یہ بھی تھا کہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے سردار منموہن سنگھ اس مجوزہ ہندو راشٹر  کے وزیر اعظم بنے بیٹھے ہیں۔ آر ایس ایس جو خود کو ایک غیر سیاسی جماعت کہلوانا پسند کرتی ہے لیکن ملک کی سیاست میں دخل اندازی کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ پاتی اور خصوصاً اس وقت جبکہ ملک کی قیادت بی جے پی کر رہی ہو۔

 ۱۹۷۷ ء کے عام انتخابات میں آر ایس ایس نے اندرا گاندھی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے میں اہم کر دار ادا کیا تھا اب اسی طرز پر  آر ایس ایس ۲۰۱۴ ء کے عام انتخابات میں سردار منموہن سنگھ حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے اور بی جے پی قیادت والی مرکزی حکومت قائم کرنے کے لیے کوشاں تھی اسی بناء پر ایک مکمل لائحہ عمل تیار کیا گیا جسے عملی جامہ پہنانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی گئی۔ آر ایس ایس چونکہ ایک مستقل عملہ ( Cadre Base) رکھنے والی جماعت ہے۔ اس جماعت سے وابستہ کارکنان میں دور اندیش، تعلیم یافتہ، نفسی اور ذہنی طور پر تربیت یافتہ، صبر اور تحمل کے ساتھ حکم کی تعمیل کرنے والے، سنگھ سے طئے شدہ مقاصد کے لیے جد و جہد کرنے والے، سنگھ کے تئیں وفادار اور وقت ضرورت جارہانہ رویہ اختیار کرنے والے افراد شامل ہیں۔ اسی بنیادی طاقت کی بناء پر آر ایس ایس کے لیے کسی بھی طرح کی منصوبہ بندی کرنا اور اسے عملی جامہ پہنانا مشکل کام نہیں ہوتا۔ ایک بوتھ دس یوتھ (ایک پولنگ بوتھ پر دس نوجوان کارکنان )، فارمولہ کے علاوہ سوشل میڈیا کا استعمال، الیکٹرانک میڈیا کا یک طرفہ استعمال کے علاوہ بے شمار سیاسی حربے اس منصوبہ بندی کا حصہ تھے۔ گویا آر ایس ایس نے عام انتخابات ۲۰۱۴ ء بی جے پی کو جتوانے میں اپنے آپ کو پوری طرح جھونک دیا تھا۔ ان انتخابات سے بہت پہلے ہی بی جے پی کے سنئیر قائد اٹل بہاری واجپائی خرابی ء صحت کا عذر پیش کر چکے تھے اور آئندہ الیکشن نہ لڑنے کا بھی اعلان کر چکے تھے۔ اب وزیر اعظم عہد ے کے لیے بی جے پی اور آر ایس ایس کے پیش نظر لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور راجناتھ سنگھ کے نام تھے لیکن یہ دونو ں جماعتیں اچھی طرح جانتی تھیں کہ اگر بی جے پی کو انتخابات جیتنے ہو ں تو انہیں بی جے پی کے ضعیف ڈھانچہ میں نئی روح پھونکنی ہونگی  اس وقت بی جے پی صدر راجناتھ سنگھ اور گوا کے وزیر اعلی منوہر پاریکر کی مداخلت، سفارش اور کوششوں سے سنیئر قائدین کو حاشیہ پر رکھ دیا گیا اور بطور وزیر اعظم گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کے نام کو قطعیت دی گئی۔ امیت شاہ کی حربہ بازیاں، نریندر مودی کی دروغ گوئیاںاور آر ایس ایس کی حکمت عملی کام کر گئی اور اس طرح ۲۰۱۴ ء میں بی جے پی نے نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی حکومت بنا لی۔

اس وقت سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ گمان تھا کہ نریندر مودی اپنے سنئیر قائد لال کرشن اڈوانی کو اسپیکر لوک سبھا، مرلی منوہر جوشی کو وزیر دفاع اور یشونت سنہاء کو وزیر خزانہ کے قلم دان تفویض کر ینگے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ۔۔۔ ؟جبکہ سنگھ پریوار نے شاید یہ سوچ کر نریندر مودی کی تائید کی تھی کہ وہ اپنے دور حکومت میں پوری طرح سے آر ایس ایس کے قابو میں رہتے ہوئے انکے ۸۰ سالہ منصوبوں کو ثمر آور کرنے میں معاوین و مددگار ثابت ہونگے لیکن سنگھ پریوار اپنی اس سوچ میں ناکام رہا اور پھر امیت شاہ بطور بی جے پی صدر نامزد ہونے کے بعد سے سنگھ پریوار کے تمام منصوبوں پر پانی سا پھر گیا۔ مودی۔ شاہ نے سنگھ پریوار کے نظریہ ( Ideology) کو طاقِ کچ پر رکھتے ہوئے صرف اور صرف نفرت کی سیاست کی۔ اس حکومت کے اقلیتوں کے تئیں سخت تیور سنگھ پریوار کو قطعی منظور نہیں تھے جبکہ سنگھ پریوار اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ ملک میں ہندو راشٹر کا خواب اور یکساں سِول کوڈ کا نفاذ ملک کی اقلیتوں کے وجود کے بغیر ناممکن ہے،  مودی۔ شاہ کے خود مختارانہ رویہ پر شکنجہ کسنے کے لیے اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی کے دیرینہ رفیق، سنگھ پریوار کے بنیادی رکن اور بی جے پی بانیان میں سے ایک سنگھ پریہ گوتم نے ایک فارمولہ پیش کیا تھا جسکے تحت وہ چاہتے تھے کہ شیو راج سنگھ کو بی جے پی صدر اور نتن گڈکری کو نائب وزیر اعظم بنا دیا جائے لیکن اس فارمولہ پر بھی عمل نہیں ہوا جسکی وجہہ سے سنگھ پریوار اور مودی حکومت میں سرد جنگ چھڑ گئی، تلخیاں بڑھنے لگیں جسکے چلتے ایک طرف سنگھ پریوار کے بھیاء جوشی نے  ’’ وکاس ‘‘ ( ترقیاتی کاموں ) پر تو دوسری طرف سنگھ پریوار کے مکھیہ موہن بھاگوت نے سرحدوں پر شہید ہو رہے فوجی جوانوں پر سوال اٹھانے شروع کردیے جو ا س حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ مودی حکومت اپنے دور ِ اقتدار میں اپنی غلط پالسیوں کی وجہہ سے عوامی سطح پر مقام بنانے میں ناکام رہی اور نہ ہی سنگھ پریوار کے معیار پر کھری اتر سکی جسکی بناء پر سنگھ پریوار مودی کے رویہ اور کام کرنے کے طریقہ سے بدزن ہو چکا تھا۔ اسکے علاوہ بی جے پی کے وہ تمام سنئیر لیڈرس جو بنیادی طور پر جن سنگھ، آر ایس ایس اور سیاسی طور پر بی جے پی سے منسلک تھے گذشتہ پانچ برسوں میں ایک کے بعد دیگرے حاشیہ پر چلے گئے جن میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، یشونت سنہاء، جسونت سنگھ، ارون شوری، کرتی آزاد اور نا جانے کتنے چھوٹے بڑے ناموں کے ساتھ یہ فہرست طویل ہوتی چلی گئی۔

سابق وزیر اعلی مدھیہ پردیش بابو لال گور نے بی جے پی صدر امیت شاہ کو اس خدشہ سے خبردار کر دیا تھا کہ اگر بی جے پی اپنے سنئیر لیڈرس کو اس طرح حاشیہ پر رکھتی ہے تو اسے ۲۰۱۹ ء کے عام انتخابات میں اس کا خمیازہ چکانا پڑیگا اور آج بابولال گور کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوتی نظر آرہی ہے۔  ۸ مرتبہ گجرات سے ایم پی رہیں لوک سبھا اسپیکر سمیترا مہاجن نے پارٹی صدر اور وزیر اعظم کو اعتماد میں لیے بغیر اس مرتبہ الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کر دیا جبکہ بہت پہلے سشما سوراج خرابی ء صحت کا عذر پیش کر چکی ہیں اور وہ بھی الیکشن میں حصہ نہیں لے رہیں ہے۔  جس سوشل میڈیا نے ۲۰۱۴ ء کے عام انتخابات میں بی جے پی اور نریندر مودی کو سر آنکھوں پر اٹھایا تھا  ’’ اب کی بار مودی سرکار ‘‘ کا نعرہ ملک کے ہر عام و خاص تک پہنچایا تھا اب وہی سوشل میڈیا  ’’ چوکیدار چور ہے ‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے مودی سرکار کی کشتی ڈبونے میں لگا ہواہے۔ اْدھر سنگھ پریوار نے اپنے آپ کو اس الیکشن کی تشہری مہم میں اس طرح نہیں جھونکا جس طرح کا نظارہ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میںدکھائی دیا تھا۔ ملک میں انتخابات کے تمام ۷؍ مراحل اختتام پذیر ہو چکے ہیں، ملک اچھی طرح جانتا ہے کے اس مرتبہ کوئی بھی واحد پارٹی خود کے بل پر حکومت سازی نہیں کر سکے گی۔ حکومت سازی کے لیے مضبوط دعویدار پارٹی کو نتائج کے اعلانات کے بعد ازسر نو دیگر علاقائی پارٹیوں کی تائید حاصل کرنی ہوگی۔  اس صورت حال میں بی جے پی کی جانب سے نتن گڈکری وزیر اعظم عہدہ کے اْمید وار ہو سکتے ہیں اس طرح کا نظریہ آر ایس ایس کی جانب سے پھیلایا جا رہا ہے کہ اگر بی جے پی کو حکومت سازی کے لیے دیگر علاقائی پارٹیوں کی ضرورت پڑتی ہو تب وزیر اعظم عہدہ کے لیے نتن گڈکری اتفاق رائے سے ( Consensus Candidate)اْمید وار ہو سکتے ہیں کیونکہ اکثر علاقائی پارٹیوں کو مودی سے اختلاف ہے نتن گڈکری سے نہیں اس طرح کی خبریں پھیلا کر سنگھ پریوار کی جانب سے مودی کو گھیرا جا رہا ہے۔

نتن گڈکری بنیادی طور پر آر ایس ایس کے پسندیدہ سوئیم سیوک گردانے جاتے ہیں جنہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر عدم روا دار ہونے اور مصنوعی نمائش و اشتہار بازی (Artificial Marketing)  میں ملوث رہنے کے الزامات لگائے تھے اسکے علاوہ نتن گڈکری نے مودی پر راست یہ بھی ظنز کیا تھا کہ ’’ جو کوئی اپنے گھر کا خیال نہیں رکھ سکتا وہ ملک کا کس طرح خیال رکھ سکے گا ‘‘۔ نتن گڈکر ی مرکزی کابینہ میں واحد وزیر ہیں جو نریندر مودی سے کبھی متاثر نہیں ہوئے اور جنکی کار کردگی کی اپوزیشن بھی ستائش کر تا رہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی سیاست کیا کیا رنگ بدلتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔