وزیر اعظم مودی کا یومِ آزادی پر خطاب، حقائق سے بالاتر

رضی الہندی

تاریخِ ہند میں یہ پہلا موقع ہے جبکہ آزاد ملک میں کرائے کے قلعہ سے وزیراعظم نے خطاب کیا ہے اور وہ بھی 82منٹ تک۔

خطابات اور عوام کا سننا اور ان کے آزاد اذہان میں غلامی کا تصور ابھی تک سب کچھ باقی باقی سا دکھ رہا ہے۔ ملک کو آج ضرورت تھی کہ یکساں حقوق اور نفاذِقانون پر کچھ تشفی بخش پیغامات ملتے لیکن دو باتوں کے سوا یہ خطاب عام بھی سیاست کی آمیزش سے پر رہا۔ ملک کی آزادی کے 71 سال مکمل ہو گئے ہیں۔ بدھ کو ملک نے 72 واں یوم آذادی منایا۔ اس موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی نے صبح 7:30 بجے لال قلعے کی فصیل پر پرچم کشائی کی اور  ملک کو خطاب کیا۔ پی ایم نے اپنے خطاب میں دو اعلان کئے ہیں 72ویں یوم آزادی کے موقع پر وزیر اعظم نے لال قلعے سے اپنے خطاب میں ایک بڑی خوش خبری سنائی کہ 2022 تک ہندستان خلائی جہاز بھیجے گا اور وہاں ترنگالہرائے گا۔ کیا ترنگا لہرانے سے دیش کو عزت ملے گی ہاں یہ فائدہ تو ہوگا ہی ساتھ عزم و حوصلہ جوانوں کو ملے گا کہ جھنڈا خلاء میں بھی ہے۔ دوسری بڑی خبر یہ ہے کہ25 ستمبر 2018 کو پنڈت دین دیال اپادھیائے کی جینتی پر ملک میں آیوشمان بھارت یوجنا نافذ ہوگی۔ یہ وہی دیال اپادھیائے ہیں جنکے نام پر مغل سرائے ریلوے جنکشن کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جوکہ 25ستمبر 1916کو پیدا ہوا اور انتہاء پسند تنظیم جن سنگھ کا بانی مانا جاتا ہے یہ اب بی جےپی کی صورت میں ہے یہ 1968 میں اسی ریلوے سٹیشن پر مشکوک حالت میں مراملاتھا اس سے پہلے اس اسٹیشن کو لال بہادر شاستری کے نام سے منسوب کرنے کی کوشش بھی ہوچکی ہے مگر اس بار اپادھیائے کو بھکتوں نے اس کے جنم دن پر بھینٹ کردیا۔

علاقوں کے نام تبدیل کر کے عوام کو بہکایا و بہلایا جا رہا ہے۔

ویسے 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے پی ایم مودی کا یہ لال قلعے کی فصیل سے آخری خطاب ہے۔

 اپنے خطاب میں تین طلاق کے مسئلے کا ذکر کیا کہ طلاق ثلاثہ نے ہمارے ملک کی مسلم بہنوں کو کافی پریشان کیا ہے۔ ہم نے سیشن میں اس کو لیکر پارلیمنٹ میں بل لانے کا کام کیا لیکن کچھ لوگ ابھی اسے پاس نہیں ہونے دے رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے خواتین پر جرم کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کیا۔ ” مہیلا شکتی کو چیلنج دینے والی راکشسی طاقتیں بھی پیدا ہو رہی ہیں۔ اس سے ملک کو آزاد بننا ہوگا۔ قانون اپنا کام کر ہا ہے لیکن ہمیں بھی اپنی سطح پر اس سے لڑنا ہوگا”۔ یعنی اسکے خلاف زبان کو زنگ لگا کر بولا کہ آشرموں، مندروں اور اسکولوں سے عورتوں کی عزت لٹنے کی شکایات اتنی تیزی سے آئی ہیں کہ ملک کا سر جھک گیا ہے۔

وزیر اعظم سے لوگوں نے کافی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ” 15لاکھ بی ایڈ پاس لوگوں کی تقرریاں کی جائیں "کا اعلان ہوگا، انکی ہمدردی کیلئے دو الفاظ بھی نہ نکلے۔ مہنگائی چرم پر ہے، بے روزگاری کا اہم مسئلہ حل نہیں ہو رہا، ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ اور روپیہ کی گرتی قیمت معیشت کو توڑ چکی ہے اور آئینِ ھند کی کاپیوں کو جلانے والوں پر کسی بھی طرح کی غداری کا لیکچر نہیں اور کسانوں کو پچھلے سال کہا تھا کہ 2022میں انکی انکم دوگنا ہوگی اس دفعہ انکی چارہ جوئی بھی نہیں ہے۔ پورے بھاشن دینے کے دوران پرانے ڈائلاگ دہرا دہرا کر اکہرے ہورہے تھے زبان پھسل رہی تھی بار بار نگاہیں کاغذوں پر جارہی تھیں کتنے نروس ہو چکے تھے صاف محسوس کیا گیا-اصل میں ناکامیوں کو چھپانے کیلئے این آر سی کے ایشو کو ہوا دیکر انکی سیاست میں درار اس وقت پڑی جب معلوم ہوا کہ آسام میں 15لاکھ سے زائد ھندو ہی بھارتی نہیں ہیں مزید بنگال میں 25لاکھ ھندو این آر سی کے چپیٹ میں ہیں۔ بہر حال اپوزیشن نے جھوٹ کا پلندہ اس خطاب قرار دیا ہے۔

 بہر حال ایک سیاسی جملہ کس کے بھکتوں کو خوش کردیا کہ ہم بٹر پر نہیں پتھر پر لکیر کھینچتے ہیں۔ اور کیسی رہی لیکر بنارس میں اوورفلائی تعمیر کے بعد ہی گرگیا تو ایسا ہی ایک حادثہ مغربی یوپی میں بھی۔ اور ان دھشت گردوں کے خلاف زبان خاموش رہی جو ماب لنچنگ کے نام پر قتل وغارت گری کرتے ہیں اور ان آتنکوادیوں پر ایک جملہ بھی نہیں بولا جنکے گھر سے 20بم اور کارخانے سے پسٹل، بم، اور دوسرے دھشت گردی پھیلانے کے سامان ملے ہیں۔

اپنا خطاب ختم کرنے سے پہلے وزیر اعظم نے ایک کویتا سنائی۔ انہوں نے کہا ” اپنے من میں ایک ہدف کیلئے، منزل اپنی پرتیکش لئے ہم توڑ رہے ہیں زنجیریں۔ ہم بدل رہے ہیں تصویریں۔ ،یہ نو یگ ہے، نو بھارت ہے، خود لکھیں گے اپنی تقدیریں۔ ہم نکل پڑے ہی پرن کرکے، اپنا تن من اپرن کرکے، ضد ہے ایک سوریے اگانا ہے۔ عنبر سے اونچا جانا ہے۔ ایک بھارت نیا بنانا ہے۔ ایک بھارت نیا بنانا ہے”۔

کویتا سے سندیش جمیع اہل وطن کو تھا یا صرف ایک خاص خیال کے لوگوں کو یہ وقت کے رحم میں ہے اور وقت پورا ہونے پر جنم لے لے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔