وزیر اعظم مودی کی انتخابی مہم تمام پابندیوں سے آزاد

رشید انصاری

        ہر گزرتے دن کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں مودی اور بی جے پی کا موقف کمزور ہوتا جارہا ہے کیونکہ جیسا کے بارہا لکھا جاچکا ہے کہ مودی کے پاس اپنے کئے ہوئے کسی کام کا تذکرہ کرنے کے لئے کچھ ہے نہیں اور ناہی ان کے پاس کامیابی کی صورت میں آنے والے سالوں میں کچھ کرنے کے لئے کوئی اہم پروگرام ہے۔ 2014ء کے انتخابات میں مودی نے جتنے بھی وعدے کئے تھے اس میں سے شائد ہی کوئی پورا ہوسکے۔ اس لئے مودی کے پاس ہندو مسلم فرقہ پرستی کے فروغ کی کوشش اور پاکستان کو برا بھلا کہنے کے سوا کچھ اور نہ تھا گزشتہ انتخابات میں بھی وہ کانگریس کی اتنی برائی کرچکے تھے کہ اب مزید برائی کرنے کے لئے بھی ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ عوام فرقہ پرستی کی باتوں، پاکستان کی جابجا مخالفت اور کانگریس کی برائیاں سنتے سنتے عاجز آچکے ہیں۔ اس لئے انتخابات سے متعلق تمام اخلاقی اصولوں اور الیکشن کمیشن کی عائد کی ہوئی پابندیوں کو توڑتے ہوئے مودی نے بالاکوٹ میں ہندوستانی فوج کے فضائی حملے اور اس میں پاکستان پر لگائی گئی مبینہ ضرب کو ہی اپنا موضوع بنانا پسند کیا حالانکہ کسی بھی فوجی کارروائی کا سیاسی طور پر استعمال عام طور پر کیا ہی نہیں جاتا ہے اور کوئی کرے بھی تو اس کو پسند نہیں کیا جاتا لیکن مودی ایک سرجیکل اسٹرائیک اور بالاکوٹ پر کی گئی ائیر اسٹرائیک کو فوج کا کارنامہ بتانے کی جگہ اپنا کارنامہ بتانا پسند کرتے ہیں۔ دوسری طرف مودی نے اپنے سیاسی مخالفین خاص طور پر کانگریس اور کانگریسی قائدین جیسے سونیا گاندھی، راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی کے علاوہ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتابنرجی پر ہر قسم کی جائز اور ناجائز الزام تراشیوں کو اپنی کامیابی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔

        ہم نے 1962ء میں ہوئی چین کے خلاف ہوئی جنگ سے لے کر کارگل کی جنگ تک تمام جنگیں دیکھی ہیں کئی جنگوں میں ہندوستان کو شاندار کامیابی ہوئی۔ خاص طور پر 1971ء میں اندرا گاندھی نے اپنے دورِ حکومت میں ہندوستانی فوج سے پاکستان کے دو ٹکڑے کروادئے تھے اور پاکستان کے ایک حصہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوادیا تھا لیکن کسی بھی کانگریسی قائد یا کارگل کی جنگ کے وقت کے ہندوستان کے بھاجپائی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے تک اپنی کامیابی کا ذکر کرکے ووٹ لینے کی کوشش نہیں کی لیکن مودی کے پاس ووٹ لینے کے لئے سب کچھ جائز ہے۔ کسی بھی کامیابی کا سہرا مودی اپنے سر یوں بانتے ہیں ہندوستانی افواج نے نہیں بلکہ انہوں نے ذاتی طور پر یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ فوجی کارروائیوں پر سیاست کو مودی نے اپن وتیرہ بنالیا ہے جس پر اعتراض سیاستدانوں نے ہی نہیں بلکہ بعض اہم سابق فوجی اور سیول افسران نے بھی کیا ہے یا یوں تاثر پیش کیا جاتا ہے کہ جیسے ہماری افواج ہمارے ملک کی افواج نہیں ہیں بلکہ یوپی کے وزیر اعلیٰ ادتیہ ناتھ کے بقول ’’مودی سینا‘‘ ہے۔ یو پی کے وزیر اعلیٰ کی اس خوشامد پسندی پر مخالف پارٹیوں کے علاوہ خود بی جے پی کے بعض قائدین نے اعتراض کیا لیکن مودی نے ادتیہ ناتھ کی غلطی پر کوئی بات نہیں کہی حالانکہ سب سے پہلے ان ہی کو یو پی کے وزیر اعلیٰ کی سرزنش کرنی چاہئے تھی۔

        مودی اپنی ہر تقریر میں ’’نئے ہندوستان‘‘ کا ذکر کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی مضبوط حکومت کی وجہ سے پاکستان سے ہندوستان کے خلاف کی جانے والی دہشت گردی میں کمی آئی ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ نہ صرف دہشت گردی کے واقعات، ہندوستانی سپاہیوں کی ہلاکتوں اور مبینہ دہشت گردوں اور بے قصور عوام کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مودی کے اس دعوے پر‘ کے نئے ہندوستان میں ہم پاکستان میں گھس کر دہشت گردوں کو مارتے ہیں خاموش نہیں رہتے ہیں ‘کسی ہندوستانی صحافی نے یہ اعتراض کیا تھا کہ پاکستانی دہشت گرد تو آئے دن ہندوستانی علاقوں میں گھس کر ہندوستانی فوج، پولیس اور عوام کو نقصان پہنچاتے ہیں کیا اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ دشمن ہم سے زیادہ ہمارے ملک میں گھس کر ہم کو مارتا ہے کیونکہ بی جے پی کے ترجمان کے پاس اس کا کوائی جواب نہیں تھا اس لئے ٹی وی پروگرام کی میزبان (اینکر) صاحبہ نے کمرشیل بریک لے کر بھاجپائی ترجمان کی بڑی مدد کی۔ پلوامہ پر ہوئی حملے میں چالیس سے زیادہ ہندوستانی سپاہیوں کی ہلاکت اور دوسری طرف نکسل وادیوں کی ملک دشمن کارروائیوں میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔ چند دن قبل ہی مہاراشٹرا میں نکسل وادیوں نے نہ صرف 15 سپاہیوں کو ہلاک کردیا بلکہ سڑک کی تعمیر کے لئے مطلوبہ لاکھوں روپے کی گاڑیاں تباہ کردی لیکن ایسی باتوں پر مودی جی خاموش رہتے ہیں اور ملک میں نکسل وادی کارروائیوں میں اضافہ کا ذکر تو کجا ان کو دہشت گردانہ کارروائیاں بھی نہیں کہتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردانہ کاررائیوں کیلئے مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرانا ضروری ہے۔

        اپنی متوقع ناکامی کے خوف نے نہ صرف بھاجپا بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بری طرح بوکھلادیا۔ اس لئے اب ان کے پاس اپنی انتخابی تقریروں میں اپنے مخالفین کی برائی، پاکستان کے خلاف اپنی کامیابی کی بڑہاکنے اور سچے جھوٹے دعوے کرنے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔ اپنے مخالفین کو برا بھلا بولنے میں وہ تمام انتخابی ضوابط اور اخلاقی اصولوں کو پامال کرچکے ہیں اور مولانا مسعود اظہر کو بین الاقوامی دہشت گرد دئے جانے کی قرار داد کی سلامتی کونسل میں منظوری کو بھی مودی اب اپنی کامیابی بتاتے ہیں حالانکہ امریکہ اور مغربی ممالک نے اپنے مفادات کی خاطر یہ قرار داد پیش کی اور چین نے بھی نہ صرف اپنے بلکہ پاکستان کے مفادات کی خاطر اس کو ویٹو نہیں کیا۔ اس لئے اس معاملہ میں مودی کا رول صرف اس حدتک ہے کہ امریکہ کی بااثر آر ایس ایس لابی نے مذکورہ بالا قرار داد کو پیش کرنے کے لئے امریکی حکام پر اپنا اثر ڈالا تاکہ مودی کو ناکامی سے بچایا جاسکے۔ اب کوئی کیا کریں مودی اسے اپنا کارنامہ قرار دیں۔ مودی کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے دنیا بھر میں پاکستان کو یکاتنہاء کردیا ہے محض مبالغہ ہے کیونکہ ہندوستان کے سوا پاکستان کے تعلقات کسی اور ملک سے کشیدہ بھی نہیں ہے جو ملک پاکستان کی مدد کرتے رہے تھے وہ آج بھی پاکستان کی مدد کررہے ہیں۔ بالاکوٹ پر مجوزہ ہندوستانی حملے سے مچی تباہی وبربادی کی کسی بیرون ملک کے اخباری نمائندوں اور خبررساں ایجنسی نے تک تصدیق نہیں کی۔ مودی پاکستان کو یکا تنہاء کردینے کا مبالغہ آمیز دعویٰ محض ووٹوں کی خاطر کررہے ہیں۔

        کسی بھی بیرونی ملک کے خلاف خاص طور پر پاکستان کے خلاف مودی جو چاہیں کہیں کسی کوبھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے لیکن ہندوستانی سیاسی جماعتوں اور قائدین پر ان کی بے بنیاد لغو اور واحیات اعتراضات پر گرفت ضروری ہے۔ اسی طرح عوام کو تقسیم کرکے ہندو مسلم مسئلہ پیدا کرکے وہ ملک کے ماحول کو مسموم کررہے ہیں اگر مودی سمجھتے ہیں کہ ان کی انتخابی تقاریر جو وہ اکثر کسی نہ کسی ’’فینسی ڈریس‘‘ نما لباس میں کرتے ہیں۔ انتخابی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں تو ان یہ خواب شائد ہی شرمندئہ تعبیر ہو!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔