ووٹرس سمجھانے سے نہیں بہکانے سے ووٹ دیتے ہیں؟

عبدالعزیز

 وزیر اعلیٰ اتر پردیش اکھلیش یادو نے انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘کے ایک انٹرویو میں ووٹروں کے بارے میں اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ ووٹ دینے والے سمجھانے سے نہیں بہکانے سے ووٹ دیتے ہیں۔ اکھلیش یادو کی بات میں آج جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں ایک سچائی ہے کہ ووٹرس ہوں یا عوام کا کوئی حصہ ہو وہ بہانے یا گمراہ کرنے والی باتوں پر زیادہ کان دیتے ہیں اور بہت آسانی سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر جب انتخابی ماحول ہوتا ہے تو ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی دوڑ میں سیاستداں سمجھانے کے بجائے بہکانے اور وعدوں کا انبار لگانے کی کچھ زیادہ ہی کوششیں کرتے ہیں۔

جب سے مودی جی سیاست میں آئے ہیں ، بہکانے والی بات کچھ زیادہ ہی ہونے لگی ہے۔ اتر پردیش کے الیکشن میں مودی نے بہکانے گمراہ کرنے کی حد کردی۔ بنارس میں جاتے ہیں تو نہایت من گھڑت اور فرضی باتیں کرتے ہیں۔ ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے لوک سبھا والے الیکشن کے موقع پر کہا تھا کہ ’’نہ میں یہاں آیا ہوں او رنہ مجھے کسی نے لایا ہے بلکہ گنگامیا نے مجھے بلایا ہے‘‘۔ یہ بات کتنی پرفریب ، جھوٹی اور مضحکہ خیز ہے مگر عوام کی سادگی کا حال یہ ہے کہ گنگا کو ماں کا رتبہ دیتے ہیں اور اس میں پیسے روپئے بھی پھینکتے ہیں یہ سمجھ کر کہ ان کی فرضی ماں اسے قبول کرے گی۔ اگر ان سے کوئی کہتا ہے کہ آپ پانی میں پیسے پھینک رہے ہیں ، اسے غریب کو دیتے تو کچھ بھلا ہوتا ہے تو جواب میں وہ کہتے ہیں کہ اپنا اپنا وسواس، آستھا (عقیدہ) ہے۔ اسی کو اندھ وسواس (Blind Faith) کہتے ہیں۔ یہ اندھی تقلید یا اندھ بسواس شمالی ہندستان میں کچھ زیادہ ہی ہے جسے گائے والا علاقہ (Cow Belt) کہتے ہیں۔

 ووٹروں کا حال تو یہ ہے کہ وہ ذات پات کی بنیاد پر بھی ووٹ دیتے ہیں۔ پیسے روپئے لے کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ ڈر اور خوف سے بھی ووٹ ڈالنے کی روش قائم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کو بگاڑنے اور بنانے والیا سب سے بڑی مشنری حکومت کی ہوتی ہے۔ حکومت میں زیادہ تر یہی بگڑے سیاستداں ہوتے ہیں جو عوام یا ووٹرس کو ہر طرح سے بہکاکر یا مالی طاقت (Money Power) یا ڈر اور خوف دکھلا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ ان کو اچھا خاصہ تجربہ ہوجاتاہے کہ ووٹروں کو سمجھانے کی نہیں بہکانے کی ضرورت ہے۔ مسٹر نریندر مودی اس کام میں سب سے آگے ہیں۔ لوک سبھا کے گزشتہ الیکشن کے موقع پر ووٹروں کے سامنے وعدوں اور گمراہ کرنے والی باتوں کا انبار لگا دیا تھا۔ وعدہ کیا تھا کہ ہر ایک کے کھاتہ (Bank Account) میں پندرہ لاکھ روپئے دیا جائے گا اور یہ روپئے کالا دھن سے حاصل کیا جائے گا۔ ہر سال ڈھائی لاکھ لوگوں کو نوکریاں دی جائیں گی۔

’’سب کا ساتھ، سب کا ویکاس ہوگا‘‘۔ ان میں سے مودی جی نے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اپنے حلقۂ انتخاب بنارس میں بھی وہ اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے۔ گنگا کے سارے گھاٹوں کی صفائی کا وعدہ کیا تھا۔ یہاں 84گھاٹ ہیں جب نریندر مودی کسی گھاٹ پر جاتے ہیں تو ان کے جانے سے پہلے اس گھاٹ کو صاف ستھرا کر دیا جاتا ہے۔ ان کے لوک سبھا حلقہ انتخاب میں آٹھ اسمبلی کی سیٹیں ہیں۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ووٹرس ان سے مایوس بھی ہیں اور ناراض تو انھوں نے کئی مندروں اور گئو شالہ کا چکر لگایا تاکہ عوام پر یہ اثر ہو کہ وہ بڑے دھارمک ہیں۔ قبرستان، شمشان، رمضان اور دیوالی کی باتیں پہلے ہی کرکے انھوں نے بہکانے اور گمراہ کرنے کی باتیں کی تھیں۔ ان کو معلوم ہے کہ یوپی میں بھاجپا کی بھی حکومت رہ چکی ہے۔ اس سے ان کو پوچھنا چاہئے کہ کلیان سنگھ یا راج ناتھ سنگھ نے کتنے شمشان گھاٹ بنوائے ہیں مگر محض سماج وادی پارٹی کو نیچا دکھانے کیلئے اپنے ہندو دشمن بتانے کیلئے گمراہ کن باتیں کیں۔ ٹی وی چینلوں میں انٹرویو کے دوران بہت سے لوگوں نے نریندر مودی کی ان باتوں کو حق بجانب بھی ٹھہرایا جبکہ ہر ہندو کو معلوم ہے کہ شہر میں تو ہندوؤں کے مستقبل شمشان گھاٹ ہوتے ہیں مگر دیہاتوں میں ہندو بھائی ندی کنارے یا جنگل میں لاشوں کو جلا دیتے یا پھینک دیتے ہیں۔ ایسا رواج دیہاتوں میں صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ خود مودی جی گجرات میں تین بار وزیر اعلیٰ رہے۔ ان سے پوچھنا چاہئے کہ کس قدر انھوں نے شمشان گھاٹوں کی تعمیر دیہاتی علاقوں میں کی ہے۔

امیت شاہ سے کسی نے پوچھا کہ 15 لاکھ تو دور کی بات ایک ہزار روپیہ بھی کسی کے بینک کھاتے میں نہیں آیا؟ امیت نے فوراً کہا کہ یہ سب پرانی باتیں ہیں۔ ان کو نہ کریدیئے تو بہتر ہے۔ امیت شاہ اور ان کی پارٹی نے مظفر نگر کے کیرانہ میں ہندوؤں کے اخراج کابھی مسئلہ اٹھایا تھا مگر نیوز چینلوں اور اخبارات نے سچی اور حقیقت پسندانہ خبریں دے کر بھوجپا کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ امیت شاہ اور ان کے صاحب نے جس طرح چاہا ووٹروں کو بہکانے کی کوششیں کیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ان دونوں کے بہکاوے میں ضرور آگئی ہوگی۔ راہل گاندھی، اکھلیش یادو اور مایا وتی نے نریندر مودی کے جھوٹوں کا پردہ ضرور فاش کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جو لوگ جھوٹوں کو اس کے گھر تک پہنچانے کا کام کرنے کی کوششیں کی ہیں وہ کہاں تک کامیاب ہیں۔ اگر اتر پردیش میں امیت شاہ اور ان کے صاحب کی کامیابی ہوتی ہے تو یہ اتر پردیش کیلئے بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی کہ ایسے جھوٹے سیاستدانوں کے بہکاوے میں ووٹرس آگئے۔ ایسا خدانخواستہ ہوا تو اتر پردیش میں پھر کلیان سنگھ یا راج ناتھ جیسے لوگوں کی حکومت ہوگی۔ ایسی حکومت عوام کے ذہنوں کو سنوارنے کے بجائے بگاڑنے کی بات کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں فساد برپا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔