وہ تیار ہیں، انصاف کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے  کے لیے!

مشرّف عالم ذوقی

مت سوچئے کہ ملک کہاں جا رہا ہے۔ مت غور کیجئے کہ کس طرح  انصاف کے تابوت میں حکومت  آخری کیل ٹھوکنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ پھر آپ ایک ایسے ملک کے مردہ شہری ہونگے جس کے پاس لکھنے، پڑھنے، سوچنے، دیکھنے کے لئے صرف سرکاری وسائل ہوں گے۔ حکومت آپکی آزادی پر لگام لگا چکی ہے۔ اب صرف آپکو مردہ ثابت کیے  جانے کا تماشہ باقی ہے۔ اور اسی لئے چیف جسٹس جوزف کی تقرری کو لے کر رندیپ سنگھ سرجیوالہ کو کہنا پڑا کہ اس وقت عدلیہ پر سب سے بڑا حملہ ہو چکا ہے۔ اگر ملک اس حملے کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا ہے تو جمہوریت خطرے میں پڑ  جائے گی۔ سپریم کورٹ بار ایسو سیشن کے سو وکلا نے موڈی حکومت کے فیصلے کے خلاف پٹیشن داخل کی ہے لیکن ذمہ داری عوام کی بھی ہے کہ عدلیہ کو بچانے کے لئے وہ اپنی مہم تیز کرے۔ خدشہ اس بات کا ہے کہ عدلیہ کی موت کے ساتھ جرائم بڑھ جایئنگے۔ قاتلوں اور مجرموں کے اچھے دن تو پہلے ہی آ چکے ہیں ، انکی چاندی ہو جائے گی۔ جمہوریت کی لاش پر ایک ایسا ملک تعمیر ہوگا، جو ہماری قدیم وراثت کے چیتھڑے اڑا  کے رکھ  دے گا۔

زیادہ عرصہ  نہیں گزرا، بس کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے، جسٹس چیلمیشورکو یہ بیان دینا پڑا  کہ جسٹس گگوئی کو چیف جسٹس نہیں بنایا گیا تو ہمارے خدشات سچ ثابت ہو جائیں گے۔ اس سے بھی صاف ظاہر تھا کہ مودی حکومت میں عدالتی نظام کو لے کر جو دباؤ قایم کیا جا رہا ہے ، اور دباؤ کے زیر اثر سارے اہم فیصلے اپنے نام کیے  جا رہے ہیں ، اس سے ہمارے ججز نہ صرف نالاں ہیں  بلکہ ایسے فیصلوں کو ہندوستانی آزادی اور جمہوریت کی موت کے طور پر بھی دیکھ رہےہیں ۔ اس سے قبل بھی چار ججز نے پریس کانفرینس کر کے جو تاریخی بیان جاری کیا، وہ ساری دنیا میں ہندوستانی تھذیب کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ جسٹس چیلمیشور نے پریس کانفرنس میں کہا تھا، ہم یہ نہیں چاہتے کہ آج سے بیس سال بعد نیی نسل کو یہ خیال اے کہ  جسٹس، گوگوئی، لوکر اور کرین جوزف نے اپنی روحوں کا سودا کر لیا تھا اور آئین کے مطابق اپنے فرائض پورے نہیں کئے تھے۔

چیف جسٹس مشرا کے نام لکھے گئے  خط میں ان ججوں نے ان پربھی  الزام لگایا  کہ وہ اہم اور نہایت سنجیدہ نوعیت کے  مقدمات اپنی مرضی کی بینچز کے سپرد کرتے ہیں اور ان فیصلوں میں وہ ضوابط کا پاس نہیں رکھتے۔ یہ بھی کہا گیا  کہ موجودہ چیف جسٹس اہم مقدموں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ جن بہت سے مقدمات کا ان ججز نے ذکر کیا ہے ان میں سے اہم ترین کیس ہندوستان کے تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کی عدالت کے جج بی ایچ لوئیا کی موت سے متعلق ہے جو نہایت مشکوک حالات میں واقع ہوئی تھی۔ اور اس کے بعد غور کیجئے کہ ثبوت  و شواہد کی موجودگی کے باوجود کس طرح جج لویا  کی فائل بند کر دی گیی اور چار فرضی بیان کو سامنے رکھ  کر حکومت کے قریبی ججوں نے اپنا فیصلہ سنا کر امت شاہ کو اس کیس سے بری کر دیا ۔  چار برسوں میں بیشتر فیصلوں نے عدالتی نظام کی دھجیاں بکھیر دی ہیں ۔ اور اب ایم جوزف کی تقرری سے پریشان مودی حکومت انتقامی جذبے کے تحت کھل کر سامنے آ گی ہے۔

ایم جوزف اتراکھنڈ  ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور کیرل ہائی کورٹ کے  جج بھی رہ چکے ہیں –چیف جسٹس  جوزف   کا تعلّق کوچی کیرل سے ہے۔ اور ان کے والد  بھی  سپریم کورٹ میں  بطور جج اپنی  خدمات انجام دے چکے ہیں  ہیں۔ سنٹرل اسکول کوچی سے  جسٹس جوزف  نے ثانوی بورڈ کی تعلیم حاصل کی– بعد میں ، چنئی  کالج اور ارنناولم  لا کالج سے قانون کا مطالعہ کیا۔ 12 جنوری، 1982 کو ایک  وکیل کے طور پر، انہوں نے دہلی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کی اور کیرل ہائی کورٹ میں خدمت کی۔ — وہ انصاف پسند فیصلوں کے لئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔  یہ وہی چیف جسٹس   ہیں جنہوں نے  مرکزی حکومت کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے، اتراکھنڈ میں کانگریس کی حکومت کو بحال کر دیاتھا۔ اور اب مودی حکومت ان سے کھلے عام اسکا بدلہ لینا چاہتی ہے۔ مرکزی حکومت جانتی ہے کہ ایم جوزف کی تقرری سے مستقبل میں اسے کیسا نقصان اٹھانا پڑ  سکتا ہے۔

جس بات کا خدشہ چار ججوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا تھا، اب اس کی حقیقت کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ ہندوستانی جمہوریہ اور بے بس عوام  خوف اور تشکیک کی فضاء میں یہ منظر دیکھ رہے ہیں  کہ کس طرح عدالتی نظام حکومت کے دباؤ میں کام کر رہا ہے۔ اس وقت ملک کے بیشتر سابق ججز اپنی زمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے عدالتی نظام کے تحفظ کے لئے اٹھ کھڑے  ہوئے ہیں ۔ سوال صرف ایک ہے۔، مودی حکومت اگر اپنی پسند کے ججز کا انتخاب نہیں کرتی ہے تو مستقبل میں بی جے پی کے وجود کو کیی  بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا، جو اسے منظور نہیں ہے۔  اس لئے دیپک مشرا سے لے کر باقی ججز کی تقرری تک مودی حکومت کویی بھی رسک لینے کو تیار نہیں ہے۔

مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اندو  ملہوترا کو سپریم کورٹ کا جج بنائے جانے پر اپنی رضامندی دے دی ہے جبکہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس  کے ایم جوزف کو ترقی  دے کر سپریم کورٹ کا جج بنانے سے متعلق سفارش کو واپس سپریم کورٹ بھیج دیا ہے۔ اگرکولیجیم  دوبارہ جسٹس جوزف کے نام کی سفارش کرتا ہے تو حکومت کو پابند ہونا پڑ سکتا هے– اندو  ملہوترا وکیل سے براہ راست سپریم کورٹ کی جج بننے والی پہلی خاتون ہوں گی۔ ۔ ۔ ۔ سپریم کورٹ کی پانچ سینئر ججوں کی کولیجیم نے 10 جنوری کو ہی دونوں کے نام کی سفارش مرکزی حکومت سے کی تھی لیکن حکومت کی طرف سے فائل دبا لینے کے بعد کولیجیم نے دوبارہ ان دونوں ناموں کو فروری کے پہلے ہفتے میں وزارت قانون کو بھیجا تھا۔ اس کے بعد حکومت نے صرف اند و ملہوترا کے فائل کو ہی انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے پاس بھیجا تھا۔ وہاں سے کلیئرنس ملنے کے بعد حکومت نے اندو  ملہوترا کے نام کا اعلان کر دیا۔

کولیجیم کی سفارش پر دو ناموں میں سے صرف ایک کو جج بنائے جانے پر بہت سے لوگوں نے مرکزی حکومت پر نشانہ لگایا ہے۔ سابق سالیسٹر جنرل اندرا جے سنگھ نے کہا، "میں چیف جسٹس آف انڈیا سے گزارش کروں گی کہ وہ اند و ملہوترا کو فی الحال عہدے کا حلف نہ دلائیں ، جب تک کے جسٹس کے ایم جوزف کا نام حکومت واضح نہ کر دے۔ عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کسی بھی قیمت پر ہونا چاہئے۔ "سابق مرکزی وزیر اور کانگریس کے سینئر لیڈر پی چدمبرم نے مرکزی حکومت پر نشانہ لگایا ہے اور کہا ہے کہ کیا مودی حکومت قانون سے اوپر ہے؟۔ جسٹس جوزف کی تقرری کیوں روکی گئی؟ کیا  اتراکھنڈ  میں دیا گیا ان کا فیصلہ ان کی راہ میں رکاوٹ ہے؟

یہ پہلا موقع ہے جب مرکزی حکومت کو کھل کر اپنے پسندیدہ ججز کی تقرری کے لئے کھل کر سامنے آنا پڑا  ہے۔ حکومت دیکھ رہی ہے کہ اب عدالتی نظام کا سچ ساری دنیا کے سامنے آچکا ہے تو پھر لکا چھپی کا کھیل کیوں کھیلا جائے۔ دیپک مشرا کے خلاف مواخذہ کی تحریک کو جس جلد بازی میں وینکیا نائیڈو نے مسترد کیا، اس سے بھی مرکز کا کھلا کھیل سامنے آ جاتا ہے۔ یعنی حکومت عدلیہ کے طور طریقوں میں کویی صاف ستھرا نظام نہیں چاہتی۔ کیونکہ انصاف کا راستہ مودی حکومت کی جڑوں کو کمزور کرے گا-

عدلیہ کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے  کا کام شروع  ہو چکا ہے۔ پچھلے چار برسوں میں گن گن کر سارے قاتل آزاد کر دیے  گئے۔ تمام مجرموں کو آزادی کا پروانہ دے دیا گیا۔ عدلیہ کے سہارے حکومت نے اپنے خلاف ہر فیصلے کو ختم کرا دیا۔ امت شاہ اب قانون کی نظروں میں صاف شفاف شخصیت کے مالک ہیں۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ہی نہیں ۔ نصاب بدلے جاہیں گے۔ نیی تاریخ لکھی جائے گی۔ ہندوستانی آیین سے سکو لرزم اور لبرلزم کے الفاظ ختم کر دیے  جاییں گے۔ اس پورے تماشا میں ہماری حیثیت سرد لاش کی طرح  ہوگی۔

اگر ایسا نہیں ہے تو بولنا سیکھئے۔ چیخنا سیکھئے۔ اس سے پہلے کہ جمہوریت دفن کر دی جائے، انصاف کو بچانے کی تدبیر آپ بھی کیجئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔