پانچ سال سے پہلے کانگریس الیکشن کا نام نہ لے

حفیظ نعمانی

پارٹی خاندان یا کاروبار کے حالات جب اچانک بگڑ جاتے ہیں تو جس کے جو منھ میں آتا ہے وہ مشورہ دیتا ہے۔ اترپردیش میں اسمبلی کے 11 ممبر لوک سبھا چلے گئے چھ مہینے کے اندر ان کا انتخاب ہونا ہے۔ بظاہر اس میں بی جے پی، ایس پی اور بی ایس پی کھل کر حصہ لیں گے لیکن ایک اخبار میں چار کالمہ سرخی کے ساتھ یہ خبر بھی چھپی کہ کانگریس شاید اس ضمنی الیکشن میں حصہ نہ لے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ لوک سبھا کے الیکشن سے ملی ہوئی ذلت کا اتنا اثر نہیں ہوا ہے کہ کانگریس کے لیڈر یا ورکر الیکشن کا نام لینا ہی بند کردیتے۔ یہ کوئی معمولی ذلت ہے کہ جس اترپردیش میں 80  سیٹوں پر الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے آئے تھے اور کسی قومی جنگ میں اپنی بہن پرینکا گاندھی کو بھی اتارا تھا اسے اتنی بددلی اور غیرمنصوبہ بندی اور معمولی تیاری کے ساتھ لڑا کہ 80  سیٹوں میں ایک سیٹ جیتی جو کسی کا تحفہ ہے۔ ورنہ صرف دو سیٹیں ایسی نکلی ہیں جس پر کانگریس نمبر دو پر ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن نہ امیدوار نے لڑا نہ اترپردیش میں اب کانگریس بچی ہے۔

راہل گاندھی کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ پارٹی کا کیا حال ہے؟ ہمارے ایک بھتیجے جو سی بی آئی چیف کے منصب سے ریٹائر ہوکر آئے ہیں وہ پورے خاندان کے ساتھ دہلی میں ہیں۔ پولنگ کے دن ہم نے شام کو معلوم کیا کہ روزے کی حالت میں ووٹ دیا یا نہیں انہوں نے مسرت کے ساتھ کہا کہ صبح کو بادل بھی تھے بوندا باندی بھی تھی موسم اتنا خوشگوار تھا کہ ہم سب کو لے گئے اور ووٹ ڈال دیئے ہم نے معلوم کیا کہ کسے طاقت دی انہوں نے کہا کہ اب تک تو آنکھ بند کرکے کانگریس کو دیا کرتے تھے لیکن اس بار کانگریس تیسرے نمبر کی پارٹی محسوس ہوئی اس لئے عام آدمی کو دے دیا۔ اور ایک بات یہ ہے کہ وہ بے ایمان نہیں ہے اور نہ اس کے اندر ہندو مسلمان ہے۔ دہلی میں ہی میرے ایک بیٹے بھی ہیں جو جامعہ فائن آرٹ فیکلٹی کے ہیڈ ہیں ان سے ذکر آیا اور میں نے ان سے یہ معلوم کیا کہ یہ کیا خبر اُڑ رہی ہے کہ تمام مسلمان ووٹ عام آدمی کو مل رہا تھا مگر صرف ایک دن پہلے اچانک فیصلہ ہوا کہ اگر عام آدمی پارٹی کے چار ممبر چلے بھی جائیں گے تو وہ سوائے حاضری دینے کے کیا کریں گے اگر کانگریس کے ممبر جائیں گے تو حکومت کا حصہ بنیں گے اور نہ صرف حصہ بنیں گے بلکہ حکومت کو مضبوط کریں گے۔ اور اپنے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور بتایا کہ جس پارٹی کو پکڑو پھر اس کی انگلی نہ پکڑو۔ آخر یہ کون سی بات ہوئی ایک نماز اس مسجد میں پڑھیں گے اور دوسری نماز دوسرے کمرہ میں۔

ہمارا عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ دہلی میں سات سیٹیں تھیں اور سیاسی پنڈت حساب لگا رہے تھے کہ اگر کانگریس اور کجریوال مل کر لڑیں تو دونوں کا بھلا ہوگا۔ حیرت ہوئی کہ ایک بار بھی راہل گاندھی دہلی نہیں آئے اور وہ شیلاجی جو اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں بہت بدنام ہوگئی تھیں جیسے یہ خبر ایک پلنگ خریدنے پر پانچ ہزار کا مل رہا ہے ارو وہی اگر کرایہ پر لیا جائے تو 5050  کا مل رہا ہے تو شیلاجی نے کرایہ والا منگالیا اور کہا کہ ہم خرید لیتے تو انہیں کہاں رکھتے۔ ہم نے وہ سڑکیں بھی دیکھیں جو ایسی چمک رہی تھیں کہ اپنا سایہ دیکھ لو اور دوسرے دن صبح کو اسی سڑک میں آدھا ٹرک زمین میں گھسا کھڑا ہے۔ یا مہمانوں کے لئے لاکھوں روپئے کا زینہ بنتا ہے جس میں وی آئی پی مہمان پیچھے گاڑی کھڑی کریں گے اور چھوٹاسا زینہ پار کرکے ڈائس پر آجائیں گے وہ زینہ ایک دن کھڑے کھڑے گرگیا۔ ہوسکتا ہے کہ نہرو گاندھی خاندان کے لئے یہ معمولی بات ہو ورنہ جو ووٹ دیتا اور حکومت بناتا ہے اس کے نزدیک شیلاجی کو جیل میں ہونا چاہئے اور راہل گاندھی امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ جائیں تو ہائوس کا کانگریس کا لیڈر بنا دیا جائے۔

ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس خاندان نے معیار وہ رکھا جو اُن کا ہونا چاہئے لیکن جو لوگ کانگریس کو گھر بیٹھے خوبصورت پارٹی سمجھتے ہیں ان کی تعداد کم نہیں ہے لیکن وہ جھنڈا لے کر سڑک پر آنے کو اپنے عہدے کے اعتبار سے مناسب نہیں سمجھتے ہیں۔

یہ ہم نہیں جانتے کہ پھر یہ فیصلے کون کراتا ہے کہ دہلی کا سیاہ سفید سب شیلاجی دیکھ کر بتائیں گی اور جو وہ بتائیں گی وہ اچھا ہو یا برا مان لیا جائے گا اور یہ فیصلہ جو مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں وزیراعلیٰ کا ہوا اس کے بارے میں پہلی بار یہ آواز سنی ہے کہ راہل گاندھی خلاف تھے اور ان کی مرضی کے خلاف کرایا شاید ہر نام پر اس لئے اتنا وقت لگا۔ راہل گاندھی کو بتانا چاہئے تھا کہ وہ کون تھا جس نے قلم پکڑلیا اس لئے ہم جیسے باہر رہ کر دیکھنے والے کو بھی معلوم ہونا چاہئے تھا خیر جس نے برسوں کی محنت سے مدھیہ پردیش کو ضمنی الیکشن لڑلڑکر چوہان سے چھینا اس سندھیا کو وزیراعلیٰ نہ بنایا جائے۔ ان لوگوں کو اب اندازہ ہوگیا ہوگا۔ انہوں نے سندھیا کا دل توڑا انہوں نے جو ورکر بنائے وہ گھر بیٹھ گئے اور جو ٹیم مدھیہ پردیش سے بی جے پی کے اثرات ختم کرکے سب کو کانگریس بنائیں گے وہ بھی ایک گھسے پٹے وزیر کے غلام بن کر رہ گئے۔ اب ہماری حقیر رائے تو یہ ہے کہ کمل ناتھ اور گہلوت کو واپس بلایا جائے دونوں صوبے نوجوانوں کے سپرد کئے جائیں۔

راہل گاندھی کو ایک بات اور پیش نظر رکھنا چاہئے سفید بال والوں کے سوچنے کا ڈھنگ اور ہوتا ہے اور جوان خون کا بالکل الگ اترپردیش میں جو کانگریس کے لیڈر ہیں وہ اتنے بزرگ ہیں کہ اب وہ فیصلہ کرنے میں ہی سارا وقت برباد کردیں گے۔ مایاوتی بھی بوڑھی نہیں ہیں اکھلیش یا اجیت سنگھ کا بیٹا یہ تینوں جوان ہیں اس لئے ٹیم بھی جوان ہونی چاہئے اور آفس میں جو بزرگ بیٹھے ہیں وہ صرف اس لئے بیٹھے ہیں کہ اب وہ اور کہیں جا نہیں سکتے اور جب بیٹھیں گے تو پچاس سال پرانی کوئی بات ضرور چھیڑیں گے اس لئے ایک کمرہ ایسا جیسا اڈوانی اور جوشی کا بنایا تھا ان کے لئے بنوا دیجئے اور پورے آفس پر نئے خون کا قبضہ ہو اور ہر موسم میں شہر اور گائوں میں جاکر اپنے ورکر بنائیں اور الیکشن کا اس وقت تک نام نہ لیں جب تک ہر گائوں میں جھنڈا نہ لگے اور ہر گائوں اگر وہ بڑا ہے تو ایک اس کا چھوٹا ہے تو دونوں ملاکر ایک آفس بنایا جائے اور الیکشن میں اس وقت ہاتھ ڈالا جائے جب یقین ہوجائے کہ آدھی سے زیادہ سیٹیں جیتنا ہیں اس میں پانچ برس بھی لگ جائیں تو گھبرانا نہیں چاہئے کیونکہ پارٹی 2014 ء کے مقابلے میں زیادہ کمزور ہوگئی ہے اور سننا سب کی کرنا اپنے من کی اسے اصول بنائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔