کالے بالوں کا بزرگ سیاست داں اکھلیش یادو

حفیظ نعمانی

مقابلہ کوئی بھی ہو اس میں جیت کا نشہ ہر نشہ سے زیادہ تیز ہوتا ہے۔ لوک سبھا کی تین اور اسمبلی کی ایک سیٹ کے ضمنی الیکشن میں بی جے پی کو اکھلیش یادو نے شکست کیا دی کہ اکھلیش اب بی جے پی کے بارے میں اس لہجہ میں بات کررہے ہیں جس لہجہ میں 2014 ء کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کانگریس کے بارے میں بات کرتے تھے۔ اکھلیش کو اس پر فخر ہے کہ ان کی کرسی چھیننے والے آدتیہ ناتھ یوگی جن کو مودی اور شاہ نیشنل لیڈر بنانا چاہ رہے تھے انہیں اکھلیش نے گورکھ ناتھ مندر کا لیڈر ہی رہنے دیا۔ گورکھ پور کی خود اُن کی وہ سیٹ جس پر برسوں سے مہاراج کا قبضہ تھا اور اس کے علاوہ تین سیٹیں جن کے لئے انہوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی اور جعل، فریب کے جتنے ہتھکنڈے ہوسکتے تھے وہ سب آزمالئے مگر ان کی گردن جھکی کی جھکی رہی۔

اکھلیش کو اس پر بھی فخر ہے کہ جہاں وزیراعلیٰ نے گاؤں گاؤں ریلیاں کیں وہاں اکھلیش نے صرف پیغام بھیجا خود قدم بھی نہیں رکھا وہاں بھی وزیراعلیٰ کو منھ کی کھانی پڑی۔

انہوں نے سب سے قیمتی وہ بات کہی ہے جو سفید بالوں والے ہی کہہ سکتے ہیں کہ مجھے اپوزیشن کا اتحاد چاہئے۔ اس میں میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ میری پارٹی کو اس کی حیثیت برابر سیٹیں ملیں یا نہیں ۔ اگر دوسری پارٹیاں اپنے حق سے زیادہ سیٹوں پر لڑنا چاہیں گی تو اپوزیشن کے محاذ کی خاطر اور بی جے پی کی شکست کی خاطر میں یہ کڑوا گھونٹ بھی پی لوں گا۔ یہ وہ بات ہے جس پر اتحاد اور اختلاف کا دارومدار ہوتا ہے۔ اگر 2014 ء میں اکھلیش بابو اور مس مایاوتی ہر سیٹ پر اپنے اُمیدوار کھڑے نہ کرتے تو ہم دیکھتے کہ بی جے پی 73 سیٹیں کیسے لیتی ہے اور امت شاہ کی کمر پر مودی جی کتنا گڑ ملتے ہیں؟

اُترپردیش میں اگر ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس بہار کے طرز پر محاذ بنالیں اور تینوں میں اگر مس مایاوتی زیادہ سیٹوں کی ضد کریں تو جو بات اکھلیش نے کہی ہے وہی راہل گاندھی مان لیں تو ہم دیکھیں گے کہ بی جے پی صوبہ میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود کتنے ممبروں کو دوبارہ دہلی کا ٹکٹ دیتے ہیں ۔ خود غرضی سے مہلک کوئی مرض نہیں ہے۔ اگر ایک کنبہ میں یا ایک محاذ میں یہ جذبہ پیدا ہوجائے کہ ہمیں نہیں محاذ کو سیٹ جیتنا ہے اور سب ایک دوسرے سے یہ کہیں کہ وہاں سے جو جیت سکتا ہے اسے لڑایا جائے اور دوسرے ساتھی بھی وہاں جاکر اسی انداز میں بات کریں جیسے اُمیدوار اُن کی پارٹی کا ہو تو کوئی طاقت ہرا نہیں سکتی۔

بہار کے الیکشن میں لالو یادو نے کانگریس کو جو حلقے دیئے وہاں وہ خود بھی گئے اور اسی انداز سے ووٹ مانگے جیسے اپنی پارٹی کے اُمیدوار کے لئے مانگے تھے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہاں کانگریس منھ دکھانے کے قابل ہے۔ کیرانہ اور نور پور میں یوگی مہاراج نے وہی گھسا پٹا ہتھیار آزمایا جو امت شاہ نے بہار میں آزمایا تھا اور کہا تھا کہ اگر بی جے پی ہاری تو پاکستان میں پٹاخے چھوٹیں گے اور گاؤں گاؤں گائے کا گوشت بکے گا۔ یوگی بھی اتنی ہی نیچی سطح کے لیڈر نکلے کہ انہوں نے کہہ دیا کہ ایس پی اور ایل ڈی کے اُمیدوار جیتے تو گھر گھر جناح صاحب کی تصویر لگے گی۔ یہ ان کی وہ بات ہے جو وہ فیلڈ کے بجائے مندر میں رہتے ہیں اور انہوں نے سنا ہے کہ پاکستان میں مسٹر جناح کی وہ حیثیت ہے جو ہندوستان میں گاندھی جی کی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ پاکستان والوں کے پاس اور کوئی ایسا لیڈر نہیں تھا جس پر سب اتفاق کرلیتے۔ پاکستان میں پنجاب سندھ اور سرحد جیسے صوبوں میں جو وہاں کا لیڈر ہے وہ دوسروں کو نہیں مانتا۔ مسٹر جناح نے پاکستان بنانے میں ایک وکیل کی طرح محنت کی اور بننے کے دو سال بعد ہی وہ مر گئے اگر وہ دس برس زندہ رہتے تو پنجابی ان کا وہی حال کرتے جو اُن لیڈروں کا کیا جو زندہ رہے کہ ہر ایک کو کنارے بٹھا دیا اور پاکستان میں ایک بھی وزیر وہ نہیں رہا جس نے پاکستان بنوانے میں حصہ لیا تھا۔ ہندوستان میں ہم یہ تو نہیں کہتے کہ کوئی اتنا بے وقوف ہے جو آج بھی مسٹر جناح کو قائد اعظم کہتا ہو۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ جو پاکستان گیا وہ آج بھی مہاجر شرنارتھی ہے اور ہندوستان میں جو مسلمانوں کو نفرت ملی وہ صرف پاکستان اور مسٹر جناح کی وجہ سے اس لئے اب یہ کہنا کہ جناح کی ہر گھر میں تصویر لگے گی کم علمی کی بات ہے۔ ہندوستان میں اب کسی کے منھ سے قائد اعظم سننے کو نہیں ملتا تو تصویر کا کیا سوال؟ اور مسلمانوں میں تصویر کی نہ پوجا ہوتی ہے نہ اس کا کوئی تعلق ان کے مذہب سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حضرت محمدؐ کی اور کسی خلیفہؓ کی تصویر نہیں ملتی تو جناح صاحب کس گنتی میں ہیں لیکن وہ چونکہ ہندوؤں کے اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں جو مورتی پوجا کرتے ہیں اس لئے انہیں تصویر یاد آئی۔

چودھری چرن سنگھ صاحب نے اپنے بہت گہرے تعلق کی بناء پر ان کے نااہل بیٹے اجیت سنگھ کی ناکامیابیوں کو اُن کے بیٹے نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اس کی ہمیں بھی خوشی ہے اور اب وہ اپنے دادا کا جانشین بنے گا۔ اجیت سنگھ گاؤں کی سیاست کے قابل نہیں تھے ان کا امریکہ میں پڑھنا اور ملازمت کرنا ان کے چودھری بننے کے راستہ کا پتھر ثابت ہوا۔ ہمیشہ ان کے قریبی ساتھیوں کو یہ شکایت رہی کہ وہ باغپت کو بھی امریکہ سمجھتے رہے بیڈ ٹی اور بعد میں دوسرے مشغلے اور 9 بجے باہر نکل کر کہنا کہ چلو اب کہاں چلنا ہے؟ اور ہر ورکر کہتا تھا کہ اب کسان اپنے کھیت میں ہوں گے وہاں وہ ووٹ کی بات بھی نہیں سنتا۔ اب جینت چودھری نے پارٹی کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اُمید ہے کہ وہ اپنے دادا کی جگہ سنبھال لیں گے۔

یہ مودی جی کی بدقسمتی ہے کہ ملک کے مٹھی بھر ارب پتیوں کو چھوڑکر کوئی طبقہ ایسا نہیں ہے جسے ان کے فیصلوں سے چوٹ نہ لگی ہو۔ اور یہ کانگریس کی خوش قسمتی ہے کہ راہل گاندھی اب سنجیدگی سے اس کی منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ علاقائی پارٹیوں کو ان کے مطالبہ بھر سیٹیں دے کر ان کے ساتھ اتحاد کیا جائے۔ کانگریس ہی نہیں ہر پارٹی میں گروپ بندی ہے اور ایک گروپ دوسرے گروپ کو برداشت نہیں کرتا ضرورت اس کی ہے کہ سب کو بٹھاکر سمجھایا جائے کہ اگر گروپ بندی ختم نہیں ہوئی تو پھر وہی بھگتوگے جو چار سال سے بھگت رہے ہو۔ پہلے سب مل کر انگریزوں کی طرح آر ایس ایس کے ہاتھ سے اقتدار واپس لو پھر آپس میں جتنا چاہے لڑنا۔ گروپ بندی تو نہرو اور پٹیل کے زمانہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی لیکن سمجھدار وہ ہوتا ہے جو یہ دیکھے کہ نقصان کس میں زیادہ ہے اور نفع کس میں؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔