کرناٹک الیکشن سے بدل سکتی ہے ملک کی سیاسی تصویر 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

کرناٹک اسمبلی الیکشن آخری مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی نے کامیابی کے لئے اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے۔ بھاجپا کی جانب سے پارٹی صدر امت شاہ اور خود وزیراعظم نے انتخابی کمان سنبھالی ہوئی ہے۔ تو دوسری طرف کانگریس صدر راہل گاندھی اپنی ٹیم کے ساتھ ڈیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ جیت کے لئے بہت حد تک بی جے پی نریندرمودی پر منحصر ہے۔ بھاجپا وزیر اعلیٰ کے امیدوار یدورپا مودی شاہ کے سائے میں بالکل پھینکے نظر آتے ہیں۔ جبکہ بی جے پی کی کرناٹک میں عمارت انہوں نے ہی کھڑی کی تھی، اور 2008 میں پارٹی کی پہلی سرکار بھی بنائی تھی۔ جو انہیں نئی طرح کی سیاست کے وعدے اور عوامی ہمدردی کے نتیجے میں ملی تھی۔ لیکن یدورپا انتظامیہ کی ناکامی اور ایک کے بعد دیگرے بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے انہیں اپنی کرسی گنوانی پڑی تھی۔

ٹکٹ کی تقسیم میں بی جے پی کاسب سے بڑا پیمانہ جیتنے والا دولت مند امیدوار ہونا رہا۔ اسی لئے اس نے گھوٹالے بازوں، غیر قانونی کانکنی کرنے والوں یہاں تک کہ عصمت دری کے الزامات میں ملوث لوگوں کو بھی ٹکٹ دینے سے گریز نہیں کیا۔ بھلے ہی بھاجپا ہائی کمان اِس کلچر کی نکتہ چیں رہی ہو لیکن کچھ فرق کے ساتھ اس پر یہی ہائی کمان کلچر حاوی ہے۔ اسی کی وجہ سے اس نے اپنے وزیر اعلیٰ کے امیدوار یدورپا کے بیٹے کو ٹکٹ نہیں دیا۔ عوامی سطح پر پارٹی صدر امت شاہ نے اس کے پیچھے کسی سازش کے ہونے کو خارج کیا ہے، لیکن کرناٹک کے سیاسی مبصرین اسے شاہ اور یدورپا کے بیچ اختلافات کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ یدورپا کے دور حکومت میں ہوئے بڑے گھوٹالے کے اہم ملزم بلاری کے ریڈی برادران اور ان کے رشتہ داروں کو بی جے پی نے اپنا امیدوار بنایا ہے۔ وہ اس الیکشن میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ اس کا فائدہ اٹھانے کیلئے کانگریس تمام طرح کی قیاس آرائیوں کو بڑھاوا دے رہی ہے اور یدورپا کے مستقبل پر بھی سوال کھڑے کر رہی ہے۔ کانگریس نے پنجاب کی طرح کرناٹک میں بھی اپنے وزیر اعلیٰ کو پوری چھوٹ دی ہے اور وہی پارٹی کے اسٹار کمپینر بھی ہیں۔

نریندرمودی کے وزیراعظم بننے کے بعد یہ چلن سا بن گیا ہے کہ الیکشن چاہے کسی بھی ریاست میں ہو، بی جے پی کی انتخابی مہم تبھی زور پکڑتی ہے، جب خود وزیراعظم اس میں کود پڑتے ہیں۔ مودی کرناٹک میں پندرہ ریلیاں کریں گے۔ یکم مئی کو انہوں نے تین ریلیاں کیں جس کے ساتھ ہی کرناٹک کی انتخابی مہم اپنے جارحانہ دور میں داخل ہو گئی۔ اس چناؤ میں مودی کو مخالف خیمہ میں اپنے ماضی کے انتخابی انداز کی پرچھائی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے وہ وہاں کے اسمبلی انتخابات میں مرکز کے برعکس گجرات گورو کا مسئلہ زور شور سے اٹھاتے تھے۔ کانگریسی وزیر اعلیٰ سیدارمیا کرناٹک میں یہی حکمت عملی اپناتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ کرناٹکہ کی عزت کو انتخاب کی دھوری کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کرناٹک کیلئے الگ جھنڈے کی تجویز کو پاس کر کے منظوری کیلئے مرکز کو بھیجا ہے۔ اور بی جے پی کے بناوٹی راشٹرواد کی کاٹ میں علاقائی اسمیتا کا کارڈ چلا ہے۔ وہ کٹر ہندوتوا کا مقابلہ لبرل ہندوتوا سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ووٹوں کو جوڑنے کی خاطر سدارمیا پارٹی کے صدر راہل گاندھی کے ساتھ مندروں و مٹھوں میں جا کر آشرواد لے رہے ہیں۔ انہوں نے دلت، پسماندہ اور اقلیتوں کا مضبوط گڑھ جوڑ کھڑا کیا ہے۔ ساتھ ہی بی جے پی کے پکے ووٹ بنک لنگایت کو اپنی طرف موڑ نے کیلئے اسمبلی میں بل پاس کرکے لنگایت کو ہندوتوا سے الگ مذہب ہونے کی منظوری دے دی ہے۔ سدارمیا کے اس قدم سے بھاجپا سکتے میں ہے۔ امت شاہ کہہ رہے ہیں کہ اس کا کانگریس کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ووٹنگ سے پہلے اس بارے میں کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔ الیکشن کے نتیجے بتائیں گے کہ لنگایت کے کتنے ووٹ کسے ملے۔ ریاست میں ان کی آبادی 14 فیصد اور ووکالیگاس کی گیارہ فیصد ہے۔

بہ ظاہر کرناٹک کی انتخابی ٹکرسدارمیا اور وائی ایس یدورپا کے بیچ ہے، مگر حقیقت میں یہ مقابلہ سدارمیا اور وزیراعظم نریندرمودی کے درمیان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سدارمیا بھاجپائی چالوں کا سامنا کرنا سیکھ گئے ہیں۔ تبھی تو بی جے پی ان کو نشانہ بنا رہی ہے، وہ بھی بھاجپا کے حملوں کا ترکی بہ ترکی جواب دے رہے ہیں۔ نریندرمودی نے چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ سدارمیا بھاجپا کے ڈر سے دو جگہ سے کھڑے ہوئے ہیں۔ اس پر سدارمیا نے مودی کو یاد دلایا کہ لوک سبھا الیکشن میں انہوں نے بھی دو جگہ سے پرچہ نامزدگی داخل کیا تھا۔ کیا مودی جی کو اس وقت کانگریس کا ڈر ستا رہا تھا؟ بی جے پی سدارمیا کو ان کے حلقہ انتخاب میں گھیرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کیلئے اس نے جنتا دل (ایس) سے اندرون خانہ ساز باز کر رکھی ہے۔ واضح رہے کہ جے ڈی ایس کو مجلس اتحاد المسلمین کی حمایت حاصل ہے۔ اس انتخاب میں جے ڈی ایس، بی جے پی مخالف ووٹوں کو بانٹ کر کنگ میکر بننا چاہتی ہے۔ پہلے بھی جنتادل (ایس) کرناٹک میں کانگریس اور بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنا چکی ہے لیکن ایک مرتبہ بھی میقات پوری نہیں کر سکی۔ ویسے سابق وزیراعظم اور جے ڈی ایس کے ذمہ دار دیو گوڈا نے بھاجپا کے ساتھ جانے کے امکانات کو خارج کیا ہے۔

دوسری ریاستوں کی طرح کرناٹک میں بھی بھاجپا وزیراعظم نریندرمودی کے پیچھے کھڑی ہو کر چناؤ لڑ رہی ہے۔ خود یدی یورپا نریندرمودی کے دم پر الیکشن جیتنے کی بات کہہ چکے ہیں۔ بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طرف وہ دیگر پسماندہ طبقات، دلت اور اقلیتی ووٹوں کو تقسیم کرانا چاہتی ہے اور دوسری طرف ان ووٹوں کو اپنے پالے میں لانے کی خواہش مند ہے۔ کیونکہ یہ ووٹرسدارمیا کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ ان میں سے صرف ایس سی، ایس ٹی کا ریاست میں ووٹ شیئر 24 فیصد ہے اور ان کیلئے 51 سیٹیں ریزرو ہیں۔ اسی ووٹ بنک کو لبھانے کیلئے بدھ پورنیما کے موقع پر من کی بات میں وزیراعظم نے بدھ پورنیما اور رمضان کی مبارک باد دیتے ہوئے مہاتما بدھ اور پیغمبر صاحب کی تعلیمات پر عمل کرنے کی سیکھ دی تھی۔ امن اور بھائی چارے کو بڑھاوا دینے پر زور دیا تھا۔ جبکہ مودی سرکار کے پچھلے چار سال ان کے اس بیان کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا یہ بیان کانگریس کی آئین بچاؤ ریلی کی گھبراہٹ میں دیا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ بی جے پی نے کرناٹک میں دلت، پسماندہ اور اقلیتوں کے ووٹوں میں خلل پیدا کرنے کیلئے آر ایس ایس کے کارکنوں کو بوتھ کی سطح پر لگانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ساتھ ہی بھاجپا جنتادل (ایس) اور کانگریس کے درمیان مقابلہ کراکر اپنا راستہ نکالنا چاہتی ہے، لیکن دیو گوڈا، کمار سوامی کی قیادت والی جے ڈی ایس پورا زور لگا کر بھی چناؤ کو تکونا نہیں بنا پا رہی ہے۔ رائے دہندگان کو گمراہ کرنے کیلئے جنتا دل ایس اور بی جے پی کے درمیان انتخابی مقابلہ ہونے کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ جبکہ ایسی ایک بھی سیٹ تلاش کرنا مشکل ہے جہاں جے ڈی ایس، بی جے پی کے بیچ سیدھا مقابلہ ہو۔

وزیر اعظم نے ’نریندرمودی ایپ‘ کے ذریعہ کسان مورچہ کے کارکنان کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’کھیتی اور کسان کی ترقی‘ ہمیشہ بھاجپا کی وراثت رہی ہے۔ انہوں نے 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کے اپنے عہد کو بھی دوہرایا۔ یاد رہے پچھلے سال کرناٹک میں بھیانک سوکھا پڑا تھا جس کی وجہ سے یہاں کے کسانوں نے دہلی کے جنتر منتر پر طرح طرح سے احتجاج کئے تھے، کبھی ننگے بدن، کبھی جوتے گلے میں ڈال کر، کبھی چپلوں سے اپنے آپ کو پیٹ کر، انہوں نے پیشاب پینے اور پاخانہ کھانے تک کی بات کہی تھی۔ اس وقت مرکزی حکومت نے ان کی ایک نہ سنی، مرکزی سرکار کا کوئی نمائندہ تک ان سے ملنے نہیں آیا۔ اب الیکشن کے وقت انہیں کسانوں کی یاد آ رہی ہے۔ وزارت داخلہ کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ گجرات جہاں مودی جی پندرہ سال وزیر اعلیٰ رہے، وہاں 2012 سے 2016 کے درمیان 3388 کسانوں نے کھیتی میں نقصان کے چلتے خود کشی کی ہے۔ بی جے پی نے 2014 کے اپنے انتخابی منشور میں سوامی ناتھن رپورٹ کو لاگو کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ اس سے بھاجپا کی کسانوں کے ساتھ ہمدردی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

سدارمیا نے ٹویٹ کر کے جو باتیں کہی ہیں وہ مودی اور بی جے پی کی باتوں کا سیدھا جواب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ یہ چناؤ نریندرمودی سرکار کے وعدے توڑنے کو لے کر بھی ہے۔ پہلا کالا دھن سفید نہیں ہوا۔ دوسرا لوگوں کو ان کے کھاتوں میں 15 لاکھ روپے نہیں ملے، تیسرے نوٹ بندی کی وجہ سے لوگوں کے دھن کی قیمت کم ہو گئی، انہیں اپنے پیسے کیلئے قطار میں لگنا پڑا۔ مودی روزگار مہیا کرانے میں ناکام رہے (عالمی بنک نے بھی اس طرف متوجہ کیا ہے) لوگوں سے پکوڑے بیچنے کو کہا۔ انٹر نیشنل مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہونے کے باوجود پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں روکنے میں ناکام رہے۔ کرپشن فری سرکار دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن بینکوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ اس چناؤ کا مشن فرقی مخالف اور فرقہ پرست بی جے پی کو ہرانا ہے۔ جے ڈی ایس موقع پرست ہے جو اس (بھاجپا ) کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ملک کے آئین کو بی جے پی سے بچانا بھی ہے جو اسے بدلنا چاہتی ہے‘‘۔

پانچ سال حکومت چلانے کے بعد بھی ریاست میں سدارمیا کے خلاف اینٹی ان کمبینسی نہیں ہے۔ اس کا فائدہ انہیں ملے گا۔ بی جے پی نے کرناٹک کے حالات بگاڑ کر سیاسی فائدہ اٹھانے کے کئی پینترے آزمائے لیکن سدارمیا نے اپنی دور اندیشی و دانشمندی سے بی جے پی کو اس کے افتراق پسند ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ریاست کی پر امن فضا کو مکدر کرکے نوجوان ووٹروں کو اپنی طرف کرنے کے ارادوں میں بھی بی جے پی کو کامیابی نہیں ملی۔ حسب سابق بھاجپا نے 224 سیٹوں میں سے کسی ایک سیٹ پر بھی کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ جبکہ کرناٹک میں مسلمانوں کی آبادی 12.5 فیصد ہے۔اور 65 سیٹوں کے نتیجے وہ بدل سکتے ہیں۔ کانگریس نے 13 اور جے ڈی ایس نے 12 مسلمانوں کو امیدوار بنایا ہے۔ تین سیٹیں ایسی ہیں جہاں دونوں پارٹیوں نے مسلم امیدوار اتارے ہیں۔ 2013 کے انتخاب میں مسلمانوں نے مشترکہ فیصلہ کر کانگریس کا ساتھ دیا تھا۔ اس بار ابھی تک ایسے کسی فیصلے کے خبر سامنے نہیں آئی ہے۔ البتہ کانگریس کے لیڈران کی مسلمانوں سے پارٹی کو ووٹ دینے جانے کی اپیل اس کے خلاف جا سکتی ہے۔

یہ الیکشن کئی اعتبار سے اہم ہے یا تو یہ چار سال پرانی مودی سرکار کی الٹی گنتی کے اشارے دے گا یعنی کانگریس کو نئی زندگی۔ اس کا اثر آئندہ ہونے والے ریاستی انتخابات پر بھی پڑے گا اور 2019 کے عام الیکشن پر بھی۔ یا پھر اس کا الٹا بھی ہو سکتا ہے۔ جو بھی ہوگا اس سے سیدھے طور پر ملک کی سیاست متاثر ہوگی۔ فیصلہ کرناٹک کے عوام کے ہاتھ میں ہے کہ وہ آئندہ ملک میں کیسی سیاست دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔