کیا اب بھی پردھان سیوک کا جادو برقرار ہے؟

ڈاکٹرظفردارک قاسمی

ملک کے موجودہ سیاسی حالات کے تناظر میں ماہرین سیاست کی آراء کا تجزیہ یہی ہے کہ اگلی حکومت کس کی ہوگی اور کون دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی کرسی پر راج کریگا  یہ تصویر ابھی تک پورے طور پر واضح نہیں ہے -البتہ یہ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بر سر اقتدار جماعت کی بحالی اب دشوار کن مرحلہ ہے ؛ جوں جوں الیکشن قریب آرہا ہے  عوام بیدار ہوتی نظر آرہی ہے اور اب تمام سیاسی جماعتوں خصوصا حکمراں جماعت کا محاسبہ کرنے کے لئے عوام نے پورے طور پر موڈ بنا لیا ہے ؛ اس کی واضح علامت یہ ہیکہ رواں الیکشن کی کئ انتخابی ریلیوں میں بی جے پی کے بڑے بڑے نیتاؤں کے جملے سن نے کے لئے عوام نہیں پہنچے؛  اور پنڈال خالی خالی نظر آیا اگر ہم یوپی کے متھرا کی بات کریں تو یہاں یوگی جی ریلی کو خطاب کرنے آئے تھے مگر کرسیاں خالی نظر آئیں؛  اسی طرح سوشل میڈیا میں وائرل ثبوت و شواہد کے مطابق مودی جی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز میرٹھ سے کیا تھا مگر وہاں بھی عوام کا وہ جم غفیر اور ٹھاٹھیں مارتا سیلاب نظر نہیں آیا اس کے علاوہ ملک میں ایسی کثیر مثالیں مل جائیں گی جہاں حکمراں جماعت کی امید کے مطابق عوام موجود نہیں رہے ہیں؛  اسی طرح حالیہ سروے کے مطابق جو کہ تیستا ستلواڑ اور ان کے ہمنواؤں نے کیا ہے  اس کا خلاصہ یہ ہیکہ حکمراں جماعت کو اکثریت نہیں مل رہی ہے پورے این ڈی اے گروپ کے حصہ میں تیستا ستلواڑ کے سروے نےا یک سو تیس سے ایک سو نوے تک سیٹوں ملنے  کا انکشاف کیا ہے – اگر یہ تمام ثبوت شواہد نتیجہ میں تبدیل ہوتے ہیں تو پھر پورے وثوق و اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ رواں عام انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادی گروہوں کو فتح سے ہمکنار ہونا نا ممکن نہیں بلکہ محال ہے-

  ضمنا یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ نفرت کے سوداگروں نے عین الیکشن سے قبل رام جنم بھومی پر جو فلم تیار کی تھی اس کو بھی ملک کی عوام نے نکار دیا حتی کہ دو ایک سنیما ہالوں کے علاوہ اس کو کسی نے بھی ریلیز نہیں کیا؛  اطمینان بخش بات یہ ہیکہ سنیما حالوں کے مالکان نےاس متنازع فلم کے چلانے سے انکار کیا ہے وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملک کی اکثریت خواہ وہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتی ہے بلا تفریق مذہب و ملت امن کی داعی ہے؛  اور وطن عزیز میں امن و امان ہی چاہتی ہے؛  ظاہر ہے اس فلم کے ریلیز کرنے سے ملک میں نفرت وتعصب اور بد عنوانی جیسے جرائم کو ہوا دینا تھا وہیں فلم  ڈاریکٹر بھولی بھالی عوام کی توجہ بر سر اقتدار جماعت کی طرف کرنا چاہتے تھے اور اس کا فائدہ سیدھا سیاسی فائدہ ان طاقتوں کو ہوتا جن کی ساسی قیادت و سیادت  کی بساط  نفرت و انتھا ء پر مبنی ہے؛ اس لئے لائق ستائش ہیں وہ تمام افراد جنہوں نے اس نازک وقت میں مذکورہ متنازع فلم کو نہ دکھا کر ظلم و تعدی کے تمام خطرات و خدشات کو بے اثر کردیا-یہ الگ مسئلہ ہے کہ ملک کا میڈیا حکمراں جماعت کی کسی بھی کمزوری کو عوام کے سامنے نہیں لا رہا ہے؛  میڈیا نے تو حکمومت کے تمام عیوب و نقائص کو بڑی خوبصورتی سے چھپانے کا کام کیا ہے ؛یہ سچ ہیکہ  میڈیا کا رویہ بھی اطمینان بخش نہیں رہا؛  یہ تو کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ ملک میں میڈیا حکومت کا اتنا وفادار ثابت ہوگا کہ سوال حکومت سے کرنے کے بجائے حزب مخالف سے کیا جائے گا ؛ یہ بھی کسی کے ذہن میں دور دور تک  تصور نہ تھا کہ عوام  کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر نت نئے مسائل میں لگادیجائے گی.

  آج میڈیا میں جن مسائل پر مباحث کی میز آراستہ کیجاتی ہے کیا واقعی ان سے ملک کی جمہوری قدریں مستحکم ہورہی ہیں؟ یہ باتیں جملہ معترضہ کے طور پر آگئیں خیر اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ حکمراں جماعت کا اثر اب معدوم ہوچکا ہے   کیونکہ مودی جی نے جس طرح سے عوام کو چاند سورج توڑ کر لانے کا وعدہ کیا تھا وہ صرف ایک انتخابی جملہ اور مسحور کن نعرہ ثابت ہوا-

اسی طرح جو حالات ابھی تک ذرائع ابلاغ  اور دیگر اثر و رسوخ سے سامنے آئے ہیں ان کا ماحصل یہ ہے کہ این ڈی اے گروپ کا کھیل بگڑ رہا ہے؛ اور پہلے کی طرح جوش؛  لہر نہیں ہے نیز  مودی جی کا جادو بھی اب سرد پڑتا ہوا نظر آرہا ہے؛  گویا اب ایسا محسوس ہوتا ہیکہ  مودی اور امت شاہ کی جوڑی اس مرتبہ حکومت سازی میں کامیاب نہیں ہورہی ہے؛ اور بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے تمام ہمنوا دلوں کے لئے ہار کا خوف بڑی بے چینی سے ستا رہا ہے ؛ یہی وجہ ہیکہ اس مرتبہ لوکسبھا الیکش میں بی جے پی نے کئ نیتاؤں کے ٹکٹ بھی کاٹے ہیں اور موصولہ خبروں کے مطابق کئی درجن سابقہ امیدواروں کے علاقے بھی تبدیل کئے ہیں؛   کیونکہ مودی جی کو معلوم ہے کہ  انہوں نے زمینی سطح پر اپنے لوکسبھا علاقہ میں کوئی کام نہیں کرایا ہے یا پھر ان کو یہ خوف ہیکہ اپوزیشن کے امیدوار کے سامنے ہمارا امیدوار کمزور ہے ؛ بالفاظ دیگر اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ حکمراں جماعت  اپنے امیدواروں کی ناکامی پر پردہ بڑی خوبصورتی سے ڈال رہی ہے؛  یا پھر حکومت بھی پس پردہ اس بات کا اعتراف کررہی ہے ہیکہ واقعی ملک میں ہم نے ترقی کے نام پر عوام کو صرف بے وقوف بنایاہے ؛ ہندو مسلم کارڈ کھیلا ہے؛  ابھی تک مذہبی جذبات کو مشتعل کیا ہے؛ اسی وجہ سے حکمراں جماعت کہیں ٹکٹ بدلتی نظر آرہی ہے تو کہیں  جیتے ہوئے امیدوار کا علاقہ بدل رہی ہے- مطلب دونوں صورتوں میں ایک ہی ہے کہ ملک میں وکاس کا کام نہیں ہوا ہے بلکہ اگر اعداد و شمارکی مانیں تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے؛   صنعت و دستکاری پر زد پڑی ہے؛  کسان خود کشی کرنے پر  مجبور ہوئے ہیں؛  دلتوں اور مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کے ساتھ ساتھ ہجومی تشدد نے بلا وجہ مسلم اقلیت اور دلتوں کو  تہ تیغ کیا ہے؛  نفرت و تعصب میں  تندی آئی ہے؛ جمہوریت کو داغدار کرنے کی بارہا سعی کی گئی ہے-

ان مختصر سطور میں یہ بھی ذکر کردوں کہ اخبارات کی خبروں کے مطابق  سات کروڑ مسلم اور دلت ووٹ اب تک غائب کئے جا چکے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے کہ حکمراں جماعت بھی یہ محسوس کررہی ہے کہ اب عوام ہم سے نالاں ہے  اور اس مرتبہ اقتدار سے باہر آنا بی جے پی کا مقدر بن چکا ہے ؛ وہیں یہ افسوس ہوتا ہیکہ جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار ملک میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے حکومت و سلطنت کے حریص کس حد تک گر جاتے ہیں ؛ تشویش تو اس بات پر ہورہی ہیکہ عوام کے اختیارات سلب کئے جارہے ہیں اور اسے جمہوری وآئینی حق سے محروم کیا جارہا ہے یہ صورت حال کسی بھی طرح سے ملک  کی فلاح کے لئے مناسب نہیں ہے؛ اس لئے تمام حزب مخالف جماعتوں کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی اور جن افرادو قبائل کو ووٹ دینے سے محروم کیا جارہا ہے ان کے اسماء کو ووٹر لسٹ میں  درج کرانا انتھائی ضروری ہے نیز یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے کہ کروڑوں ووٹ لسٹ سے  جمہوریت کے قاتلوں  نے بڑی ہوشیاری سے ختم کردیئے؛  یہ جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے –  چنانچہ رواں الیکشن میں تمام حزب مخالف سیاسی جماعتوں اور خصوصا عوام کو حکمراں جماعت کی اس طرح کی تمام سازشی کامرانیوں پر نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے –

اب فطری طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو حکومت سب کا ساتھ اور سب کے وکاس کے اطمینان بخش نعرے کے ساتھ وجود میں آئی تھی کیا بی جے پی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں مذکورہ فلسفہ پر عمل کیا؟ آیا برسر اقتدار جماعت  اپنے اس مذکورہ دعوے میں کس حد تک کھری اتری وہ ہندوستانی معاشرہ اچھی طرح جانتا ہے – اس لئے ملک کی عوام کو اس مرتبہ بڑی سنجید گی اور شعور وتدبر کے ساتھ حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہوگا ؛ نیز ملک کی سالمیت اور گنگا جمنی تہذیب کو استحکام اور دوام و استقرار بخشنے کے لئے تمام سیکولر اور جمہوریت پسند عوام کو اجتماعیت و یکجائیت اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ جمہوریت کے مندر میں ان سیاسی قاعدوں اور رہنماؤں کو پہنچانا ہوگا جن کا دھرم اور ایمان ملکی مفاد؛  جمہوری و آئینی قدروں کا تحفظ اور سیکولر روایات کا  فروغ اور ہندو مسلم یکجتی ہو؛ اسی کے ساتھ ساتھ  ہندوستانی معاشرہ کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ  موجودہ حکومت کے ایماء اور سر پرستی میں انتھائی شرمناک اور کربناک کارنامے  انجام دئے گئے جن کو یاد کرکے ہر ہندوستانی اور  جمہوریت کا وفادار شرمشار ہوجاتا ہے؛  گزشتہ پانچ برسوں میں ملک ایسے حالات و حادثات کا بری طرح شکار رہوا جسےہندوستانی تاریخ کا  سیاہ دور کہا جاسکتا ہے  متذکرہ بالا عواقب و پس منظر پر گہری نظر رکھتے ہوئے یہاں کی عوام کو  اپنا اور ملک کا مستقبل طے کرنا ہوگا – کیونکہ اگر اس مرتبہ ہم نے کسی بھی طرح کی دانستہ یا غیر دانستہ غلطی کی تو پھر اس کا انجام واضح ہے؛ سیکولر برادری کی یکجائیت اس لئے بھی لازمی ہے کہ بارہا  نام نہاد سیکولر اقدار کے محافظوں نے  جن مکروہ خیالات  کا اعلان واظہار کیا ہے  وہ ملک کی صدیوں پرانی تہذیب کو غارت کرنے کے مترادف ہے-

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔