کیا بی جے پی مسلمانوں کی طرف ہاتھ بڑھائے گی؟

حفیظ نعمانی

اپنے ملک کی حکومت اب ان ہاتھوں میں ہے جو ہندوستان میں 18  کروڑ مسلمانوں کے ہونے سے تو عالم اسلام میں ہر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں لیکن ان 18  کروڑ کو کوئی فائدہ پہونچاتے وقت ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ کل سات مارچ کو دہلی کے شاید مائولنکن ہال میں وزیراعظم نے اپنے مسلمان وزیر مختار عباس نقوی کے ذریعہ مسلمانوں کو بلایا تھا وہ ان سے یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ وہ حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟ ہم پورا پروگرام نہیں دیکھ سکے ایک صاحب جو اکثر مذاکروں میں آتے ہیں وہ تقریر کررہے تھے اور انائونسر بتا رہے تھے کہ تین سو مخصوص مسلمانوں کو بلایا تھا جن میں مظفر علی بھی تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ چونکہ بہت اہم مسلمان ہیں اس لئے ان کا ذکر بھی کیا اور صورت بھی دکھادی۔

ہمیں اس جلسہ پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا ہے بس عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بی جے پی کی قیادت نے مسلمانوں سے کسی طرح کی بات کرنے کے بارے میں سوچا کیوں؟ اور جو نام کے مسلمان جلسہ میں آئے یا لائے گئے وہ آئے کیوں؟ اس لئے کہ بی جے پی نے مسلمانوں سے کبھی کوئی رشتہ نہیں رکھا اور جواب میں مسلمانوں نے بھی بی جے پی سے تعلق رکھنے میں توہین محسوس کی۔ 38 سال ہوگئے جب جن سنگھ بھارتیہ جنتا پارٹی بنی تھی اس وقت اٹل جی اور اڈوانی جی سروے سروا تھے۔ یہ اٹل جی کی وسیع القلبی تھی کہ انہوں نے جھنڈے میں ایک ہری پٹی لگوائی جو اس کا اشارہ تھا کہ پارٹی میں مسلمان بھی لئے جائیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی اور مسلمان کسی زمانہ میں بھی ایک ساتھ نہیں جمع ہوئے لیکن اٹل جی کا جن مسلمانوں سے تعلق تھا ان سے اتنا رہا کہ کھانے پینے میں بھی پرہیز نہیں  تھا۔ اٹل جی کے بعد اڈوانی جی سروے سروا ہوئے تو بی جے پی کی ہری پٹی کا سائز تو وہی رہا البتہ رنگ ہلکا ہوتا گیا اور مودی جی کے آنے کے بعد وہ ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔

مودی جی صرف وزیراعظم نہیں ہیں بلکہ وہ بی جے پی بھی ہیں اور یہ ان کا شوق ہے کہ وہ ساری دنیا سے تعلق بنائیں لیکن بی جے پی کے رنگ کو گہرے سے اور زیادہ گہرا کرتے جائیں۔ اور یہ انتہا ہے کہ گجرات کے الیکشن میں جب ان کو تارے نظر آنے لگے تھے تو انہوں نے سورت اور احمد آباد کے ہندوئوں سے کیا کہا وہ تو بند مٹھی اور کھلی مٹھی کی بات ہے لیکن بلند آواز سے عام ہندوئوں سے کہا کہ اگر تم نے کانگریس کو جتادیا تو احمد پٹیل کو وزیراعلیٰ بنا دیا جائے گا۔ احمد پٹیل نہ مسعود اظہر ہے نہ حافظ سعید اور نہ دائود ابراہیم ہے اور نہ صلاح الدین۔ وہ بیس برس سے مسز سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر ہیں صورت شکل اور لباس ایسا ہے کہ اگر کسی اجنبی سے کہا جائے کہ یہ راج نرائن سکسینہ ہیں تو کوئی بھی غلط نہیں سمجھے گا۔ ہماری اطلاع کے مطابق گجرات کے ہی رہنے والے ہیں گجراتی بھی جانتے ہوں گے اور بظاہر اتنے ہی مسلمان ہیں جتنے شاہ نواز حسین اور مختار عباس نقوی لیکن مودی جی کے نزدیک کانگریس کا معمولی مسلمان ہونا بھی مسٹر جناح اور یحییٰ خان کا بھائی ہونا ہے۔

57 مسلم ملکوں کی ایک تنظیم او آئی سی جس میں ہندوستان نے ہمیشہ شریک ہونے کی اس لئے کوشش کی کہ دنیا میں ہندوستان وہ ملک ہے جہاں 55  مسلم ملکوں کے مقابلہ میں زیادہ یعنی 18  کروڑ مسلمان ہیں اس تنظیم سے پہلے اجلاس میں جو رباط میں ہوا تھا اس میں پاکستان کی ضد کی وجہ سے ہندوستان کے وفد کو شریک کرنے سے معذرت کرلی تھی۔ لیکن اس سال پاکستان مخالفت کرتا رہا لیکن ہندوستان سے وزیرخارجہ سوشما سوراج شریک ہوئیں۔ اور انہوں نے بہت سلجھی ہوئی تقریر کی لیکن بدمزگی اس وقت ہوگئی جب کسی مسلم ملک نے ہندوستان کی دہشت گردی کا ذکر چھیڑا۔ ہندوستان کو جتنا ناگوار ہونا چاہئے تھا وہ ہوا لیکن وزیر خارجہ جو گئی تھیں اور وزیراعظم جنہوں نے بھیجا تھا یہ کیوں بھول گئے کہ دہشت گردی کسی ملک کے دستور میں نہیں ہوتی پاکستان کے دستور میں بھی نہیں ہے۔ وہ اس لئے دہشت گرد ہے کہ دہشت گردوں کی سرپرستی کررہا ہے۔

ہر پڑھا لکھا آدمی جانتا ہے کہ دہشت کے معنیٰ خوف اور ڈر ہوتے ہیں۔ وزیراعظم دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا بھگوا رنگ کی وردی پہن کر ہندوئوں اور ہندو سینا جیسے ناموں یا گئورکشک جیسے گروہ بناکر وہ ملک میں دہشت نہیں پھیلا رہے ہیں؟ کیا 2002 ء میں گجرات میں جو ہوا وہ دہشت گردی نہیں تھی اور کیا تہلکہ کی رپورٹر رعنا ایوب نے پولیس کے ریٹائرڈ افسروں سے یہ قبول نہیں کرالیا کہ مسلمانوں کے قتل کا حکم وزیراعلیٰ اور وزیروں نے دیا تھا یا ان کی نگرانی میں خون بہایا گیا۔ کیا بابری مسجد جیسی پائیدار مسجد کو ڈھانچہ کہنا اور پانچ لاکھ ہندوئوں کا اسے گرانا کیا دہشت گردی نہیں ہے؟ اور جگہ جگہ کیا مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر شہید کرنا دہشت گردی نہیں ہے؟

نریندر بھائی مودی اگر یہ سمجھیں کہ مسلمان ملکوں کے سربراہوں کو ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں بس وہ معلوم ہوتا ہے جو وہ بتاتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے اگر فلسطین میں ہونے والے ہر قتل سے دنیا کا ہر مسلمان واقف ہوجاتا ہے تو کشمیری لڑکوں کے خشک میوہ فروخت کرنے والوں پر بھگوا پوشاک پہنے ہندو دہشت گردوں کا ان کی مغلظات گالیوں اور ڈنڈوں سے یہ کہہ کر پٹائی کرنا کہ ہمارے ملک سے کما کے لے جاتے ہو اور بم بناتے ہو؟ کی بھی خبر اسی دن دنیا بھر میں جہاں مسلمان ہیں ان کو ہوجاتی ہے اگر دہشت گردی کی گالی اتنی ہی بری لگتی ہے تو جو کشمیری لڑکوں کے ساتھ ہوا اس کا علاج چار کی گرفتاری نہیں ہے بلکہ پہلے اس جگہ پولیس انہیں اسی طرح پٹخ پٹخ کر مارے گالیاں دے اور بعد میں جیل بھیجے۔ بھگوا غنڈے جیل نہیں جاتے ہیں سسرال جاتے ہیں جسے یقین نہ ہو جاکر دیکھے کہ ان کو انڈے مکھن اور نوکر ملتے ہیں جو ہم نے خود دیکھا ہے۔ اور اس لئے یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔