گجرات الیکشن کے بعد کانگریس کی حکمتِ عملی؟

عبدالعزیز

 گجرات الیکشن کے نتائج سے بھاجپا اور ان کے لیڈروں کو یقینا خوش ہونا چاہئے مگر الیکشن کے نتائج اور خاص طور سے گجرات الیکشن کا نتیجہ بھاجپا کی مستقبل کی امیدوں پر اوس ڈالنے کیلئے کافی ہے۔ 2014میں جو مودی کی چمک دمک تھی یا جسے مودی لہر کہا جارہا تھا اب وہ چیز باقی نہیں رہی بھاجپا جو سمٹ کر مودی پارٹی بن گئی اور ان کا ہر لیڈر بونا بنادیا گیا اور ہر ریاست مودی مودی کہہ کر جو جیت درج کرائی جارہی تھی اب وہ چیز اگلے ریاستی یا لوک سبھا کے الیکشن میں نظر نہیں آئے گی۔ دوسری بات بھاجپا جو اپوزیشن میں مودی کے ٹکر کا کوئی لیڈر نہیں دیکھ رہی تھی اب قومی سطح پر مودی کے ٹکر کی قیادت گجرات الیکشن کے دوران ابھر کر سامنے آگئی ہے جس کا نام راہل گاندھی ہے۔ اور گجرات میں ایک نہیں کئی اپوزیشن لیڈ ر مودی کے مقابلے میں ابھر کر ٹکر دینے کیلئے تیار ہوگئے ہیں ان میں سے ہاردک پٹیل، الپس ٹھاکر اور جگنیش میوانی کا نام لیا جاسکتا ہے۔ تینوں لیڈروں میں تنظیمی اور تقریری دونوں قسم کی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں۔ گجرات میں تینوں لیڈروں کو بھاجپا حج(ہاردیک، الپیس اور جگنیش ) کہہ کر متحد کیا تھا تاکہ وہ حج کہہ کر ان کو مسلمانوں سے جوڑ سکیں۔ مودی نے گجرات کے ہر الیکشن میں احمد پٹیل کی موضوع بنایا یہ کہہ کر کہ یہ کانگریس کے خاص آدمی ہیں۔ سونیا گاندھی کے خاص مشیر کار ہیں۔ اس بارتو ان کا نام لے کر یہ کہا گیا کہ کانگریس احمد پٹیل کو گجرات کا مکھ منتری (وزیر اعلیٰ ) بنانے کیلئے طے کرچکی ہے۔ یہ بات پاکستانی وفد کے ساتھ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ، سابق نائب صدر جمہوریہ ہند حامدانصاری اور سابق فوجی سربراہ کی موجودگی میں منی شنکر ایئر کی ڈینر پارٹی (عشائیہ ) میں طے ہوا۔ دو روز سے لوک سبھا او ر راجیہ سبھا میں کانگریس کی طرف سے اس کے لئے زبردست احتجاج بھی ہورہا ہے۔ راہل گاندھی اور ان کے خاندان کو بھی غیر ہندو قرار دیا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ پنڈت جواہر لال نہرو کو غیر ہندو بتانے کی کوشش کی جارہی تھی یہ کہہ کر وہ سابق صدر جمہوریہ راجندر پرشاد کو سومناتھ مندر کے افتتاح میں شرکت کیلئے جانے پر ناخوش تھے اور حکومت کے فنڈ سے سومناتھ مندر کی تعمیر کے بھی خلاف تھے۔ کانگریس پارٹی کو بھی کہا جارہا تھا کہ یہ مسلمانوں کی پارٹی ہے۔ راہل گاندھی نے کروڑوں لوگوں کی بے روزگاری کا مسئلہ، جی ایس ٹی کی پیچیدگی، نوٹ بندی کی پریشانیاں، کسانوں کی خود کشی اور غربت اور افلاس کے مسئلہ کو بہتر طریقہ سے پیش کیا مگر ایسا لگا کہ کہیں کہیں وہ Defensive(دفاعی پوزیشن) اختیار کررہے تھے جیسے مندروں کے بے تحاشا دورہ اور ہندو ثابت کرنے کیلئے جینو پہنکر تصویر کھچوانا کچھ زیادہ ہی مدافعت اختیار کرنے لگے تھے جو ضروری نہیں تھا۔

  بھاجپا یا مودی کی حکمت ِ عملی تو یہی ہے کہ جو عوام کے اصل مسئلے یا ایشوز ہیں وہ دب جائیں وہ مسلمان مسلمان کرکے پولرائزیشن ( ہندو مسلمان کا بٹوارہ  ) کر سکیں اس کیلئے مسجد و مندر، پاکستان، جارحانہ قومیت، لوجہادجیسے غیر ضروری اور غیر متعلق مسائل اٹھاکر عوام کی بنیادی مسائل سے دور کرنا ہوتا ہے۔ ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی  اور الپیس ٹھاکر کو بھی ہندو تو وادی ان کے ناموں سے ایک ایک حرف لیکر مسلمان نام دے کر مسلمانوں کی طرف دھکیل رہے تھے مگر ان لوگوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا جس کی وجہ سے بھاجپا کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ ایسی لایعنی چیزوں کے جواب دینے سے جابھپا کو مددملتی ہے تو بہتر طریقہ ہے کہ ایسے مسئلوں کو نظر انداز کیا جائے۔

 دوسری اہم بات یہ ہے کہ عوام اصل اور بنیادی مسئلہ کو اس قدر زور وشور سے اٹھایا جائے کہ وہ عوام کا ذہن بھٹکا نہ سکیں اور ان کو جواب دینے پر مجبور کردیا جائے۔ مودی جی نے 18دسمبر کو جو اپنی پارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں تقریر کی وہاں انہوں نے وکاس(ترقی) اور وسواس(یقین) کی بات کی جب کہ گجرات میں وکاس اور وسواس دونوں غائب تھا۔

سول سوسائٹی یا مختلف طبقات کے لوگوں سے بھی زور و شور سے مسائل اٹھانے کی ضرورت ہے مثلاً کسان کا مسئلہ ہو تو کسانوں کو بیدار کیا جائے ان کی بڑی تعداد احتجاج خود کرے یا احتجاج میں شامل ہو۔ اسی طرح تاجروں کا مسئلہ ہو تو وہ سامنے آئیں جیسے سورت میں تاجروں کے احتجاج سے مودی جی کو جی ایس ٹی میں ترمیمات کرنی پڑی تاجروں کے سامنے جھکنا پڑا۔ اسی طرح طلبہ کے مسائل ہوں تو انہیں آگے آنا چاہئے۔ راجستھان، مدھیہ پریش، چھتیس گڑھ اور کرناٹک میں الیکشن اگلے سال ہونے جارہا ہے ابھی سے بنیادی مسائل اٹھائے جائیں جہاں کانگریس کی حکومت ہے مثلاً کرناٹک میں وہاں بنیادی مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت کی کارکردگی بہتر ہو  Anti-Incumbancyنہ ہو یا ہو تو کم سے کم ہو۔ بھاجپا کی ایک حکمتِ عملی الیکشن کے دوران ہوتی ہے کہ وہ جہاں مسلمان غالب اکثریت میں ہوتے ہیں وہاں مسلمانوں میں سے آزاد امیدوار کھڑا کردیتی ہے ایک نہیں کئی امیدوار۔ مسلمانوں کو تو خود عقل ہونی چاہئے تھی کہ وہ ایسے کسی امیدوار کو ووٹ نہ دیں جو بی جے پی کی معاون و مددگار ہو ایسے امیدوار کو ووٹ دیں جو بی جے پی کو ہراسکے۔ گجرات کے گودھرا میں بی جے پی کے پانچ مسلمانوں کو آزاد امیدوار کے طور پر کھڑا کیا تھا ان سب کی ضمانتیں ضبط ہوئیں مگر ان کو جو سوبچاس ووٹ ملے ان کی وجہ سے کانگریس کا امیدوار 215ووٹوں سے ہارا۔

 کانگریس کی یہ حکمتِ عملی ابھی سے ہونی چاہئے کہ اپوزیشن میں جو پارٹیاں ہیں ان کا ہرسطح پر اتحاد کرے۔ گجرات میں این سی پی اور بی ایس پی کی وجہ سے بی جے پی مخالف ووٹوں کی تقسیم ہوئی جس کی وجہ سے کانگریس بہت کم ووٹوں یعنی کہیں پندرہ سو کہیں دوہزار ووٹوں سے ہاری ہے۔کانگریس کا اب پہلا کام یہ ہو کہ اپوزیشن میں اتحاد ہو۔ جہاں الیکشن اگلے سال ہونے والا ہے وہاں ابھی سے ہو اور اس کے ساتھ ساتھ 2019کیلئے بھی ابھی سے اتحاد کی کوشش کی جائے۔ فرقہ پرستی اور فسطائیت وہ چیز ہوتی ہے کہ اس میں ذرا سی چوک فرقہ پرستوں اور فسطائی طاقتوں کو آگے بڑھا دیتی ہے لہٰذا ایسی حکمتِ عملی ہونی چاہئے کہ فرقہ پرستی اور فسطائیت کو کہیں سے او ر کسی سے بھی طاقت نہ ملے ہر پارٹی اور ہر فرد کو سمجھنا چاہئے کہ فرقہ پرستی اور فسطائیت پوری انسانیت کیلئے خطرہ ہے بلکہ جان لیوا ہے اس کے خلاف سب کو کھڑا ہونا چاہئے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔