یوپی کا الیکشن امریکہ کے الیکشن جیسا ہے

کسی پارٹی کے انتخابی منشور پر کچھ لکھنا عام بات ہے لیکن ہمیں یاد نہیں کہ ہم نے کبھی کسی کے بھی منشور پر کچھ لکھا ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ اور کوئی بھی پارٹی اس کی پابندی نہیں کرتی کہ جو اس نے کہا ہے وہ ہونا چاہیے۔ اس بار سماج وادی پارٹی کا جو منشورہے وہ جواں سال اکھلیش یادو کا تیار کیا ہوا ہے اور اسے پیش کرنے میں سب سے اہم کردار وزیر اعلیٰ اور ان کی شریک زندگی ڈمپل یادو کا ہے۔

اس منشور میں بہت کچھ اقلیتوں یعنی مسلمانوں کے لیے بھی کہا گیاہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ انھوں نے مسلمانوں کے معاملات میں لکھتے وقت اپنے منہ بولے چچا محمد اعظم خاں پر ہی انحصار کیا ہے یا کسی اور کو بھی شریک کیا ہے۔ اعظم خاں بھی مسلمانوں کے معاملات سے واقف ہیں لیکن وہ برسوں سے وزیر ہیں اس لیے ان کو ایسے حالات سے سابقہ نہیں پڑا جو مسلمانوں کو پارٹی سے قریب اور دور کرتے ہیں۔ ملک میں مسلمانوں کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ ہر جگہ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ بات صرف پولیس کی ہی نہیں انتظامیہ کا کوئی بڑا یا چھوٹا ایسا نہیں ہے کہ وہ مسلمان کو ہندوستان کا ایسا ہی شہری سمجھے جیسے ہندو یا سکھ ہیں۔

سوشلسٹ پارٹی کے اپنے زمانہ کے سب سے بڑے ڈاکٹر لوہیا کے بعد راج نرائن تھے جو نیتا جی کہلاتے تھے۔انھوں نے 1977میں جنتا پارٹی کی حکومت بننے کے بعد یہ چاہا تھا کہ وہ مسلمانوں کو اور زیادہ قریب کریں۔ ڈاکٹر حلیم جو ان سے بہت قریب تھے ان کے ذریعہ نیتا جی نے لکھنؤ شہر کے اہم مسلمانوں کا ایک جلسہ مسافر خانہ میں بلوایا جس میں اس حقیر کو بھی مدعو کیا تھا جلسہ میں راج نرائن سے سب نے مطالبہ کیا کہ وہ بتائیںکہ کیوں بلایا ہے؟ نیتا جی نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ پہلے بتائیں کہ آپ کو کیا شکایت ہے؟ اور آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ یہ سننا تھا کہ سب مجھ سے اصرار کرنے لگے کہ تم تقریر کرو۔ لکھنؤ میں ابھی ایسے بہت ہوںگے جنھیں وہ جلسہ یاد ہوگا۔ یہ 1978کی بات ہے۔ سنبھل میں ایک معمولی بات پر فساد ہوگیا تھا۔ میں وہاں ۱۵ دن رہ کر آیا تھا۔ میں نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا اسحاق سنبھلی جو کمیونسٹ پارٹی کے 11 برس ممبر پارلیمنٹ رہے اور آپ جنھیں خوب جانتے ہیں کہ وہ 1977تک ایم پی تھے وہ کوتوالی میں انسپکٹر سے یہ کہنے کے لیے گئے تھے کہ ہمارے محلہ کے چار لڑکے جنھیں رات پولیس چوری کے الزام میں لے آئی ہے وہ چور نہیںہیں۔ وہ کوٹ محلہ میں رہتے ہیں اور نیچے ان کی دکانیں ہیں وہ کرفیو کی وجہ سے اپنی دوکان سے کھانے کا سامان نکال رہے تھے۔

مولانا جب کوتوالی گئے تو تین کرسیاں دھوپ میں پڑی تھیں۔ ایک پر انسپکٹر کی تشریف رکھی تھی دوسری پر جوتوں میں بندھے ہوئے ان کے پائوں اور تیسری پر ان کا کتا۔ انھوں نے یہ بھی نہیں کہا کہ کوئی ایک کرسی لے آئو بلکہ مولانا سے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمیں کام نہیں کرنے دیںگے؟نیتا جی آپ بتائیے کہ کیا وہ یا کوئی انسپکٹر کسی اتنے بڑے سیاسی لیڈر یا آپ جب وزیر نہیں تھے تو کیا آپ کے ساتھ ایسا کرسکتا تھا؟ اور اس کے بعد بہت کچھ کہنے کے بعد میں نے کہا تھا کہ کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ مسلمانوں کے ساتھ پولیس کا کیا برتائو ہے۔ اور آپ بھی اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک آپ اعلان نہ کردیں کہ میں مسلمان ہوگیا ہوں۔

بات صرف پولیس کی نہیںہے ایک غریب گھر کی لڑکی میری مدد کے لیے میرے پاس رہتی ہے اور پڑھ بھی رہی ہے۔ اس نے بہت اچھے نمبروں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اکھلیش یادو نے ایسی بچیوں کے لیے 20 ہزار روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔ وہ جب فارم بھر کر ناری شکشا کیندر کی پرنسپل کے پاس لے گئی تو جواب ملا پھر آنا اور تین بار لوٹایا ۔ میں نے اپنے اخبار کے ایک رپورٹر کو بھیجا۔ ان سے کہہ دیا کہ وہ فارم لائے گی تو میں دستخط کردوںگی۔ جب وہ فارم لے گئی تو اس سے کہا کہ کیا میں رپورٹر سے ڈرجائوںگی؟ ایسے رپورٹر روز آتے ہیں۔ یہ کہہ کر فارم پھینک دیا۔ جب آخر میں میں نے معلوم کیا کہ تمہارے فارم کا کیا ہوا؟ تو وہ رونے لگی۔ تب میں نے اپنے بیٹے کو بھیجا اور جب انھوں نے کہا کہ آپ اس پر لکھئے کہ کیوں نہیں دستخط کریںگے؟ تو بلی جیسا منہ بنا کر دستخط کیے اور بعد میں جب وہ ایک مرکزی حکومت کا فارم لے کر گئی تو یہ کہہ کر پھینک دیا کہ تم لوگوں کو مفت کا روپیہ لینے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔ اس برتائو کی وجہ سے میں نے بی اے کرنے کے لیے کرامت بھیجا۔

ہم جانتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ مسلمانوں کو جو کچھ دینا چاہیںگے وہ اس لیے ان کو نہیں ملے گاکہ وہ جن ہاتھوں میں آئے گا ان میں کانٹے ہیں۔ وہ صرف اس سلوک کو ختم کرائیں جو ہر مسلمان کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر جگہ ہوتا ہے۔ اقلیتی طبقہ کے مجاہدین آزادی کو جو کام کرنا تھا وہ کر گئے۔ سب سے بڑ ے مجاہد آزادی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی تھے۔ آزادی کے بعد جو پہلے خطاب تقسیم ہوئے ان میں ایک ’’پدم و بھوشن‘‘ حضرت مدنی کے لیے تھا۔ سہارنپورکے ڈی ایم اطلاع دینے کے لیے آئے۔ حضرت مدنی نے فرمایا کہ ہم نے جو کیا وہ ملک کو آزاد کرانے کے لیے کیا۔ ملک آزاد ہوگیا۔ بس یہ سب سے بڑا خطاب ہے۔ آپ اسے واپس کردیجئے۔ اس لیے ان کی یادگار کی نہ ضرورت ہے نہ اہمیت۔ یہ مایاوتی کے لیے چھوڑدیں۔ مسلمانوں کی جان اور ان کی عزت کا تحفظ اور ان کے ساتھ وہی سلوک جو دوسروں کے ساتھ ہوتا ہے کرائیں۔

الیکشن مینی فیسٹو کی پابندی نہ آج تک کسی نے کی ہے نہ کوئی کرسکتا ہے۔ بی جے پی نے کتنی بار کہا کہ وہ دہلی کو پوری ریاست کا درجہ دے گی اور اب کیا ہورہا ہے؟ مودی نے 15 لاکھ کا راگ الاپا۔ امت شاہ نے پٹنہ میں کہہ دیا کہ وہ الیکشنی جملہ تھا۔ بنارسی داس 1979میں وزیر اعلیٰ تھے۔ انھوں نے کہا تھا کہ الیکشن میں کئے ہوئے وعدے پورے کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔ ملائم سنگھ نے 2012کا جو منشور چھاپا تھا اس کے بارے میں کہہ دیا کہ ہر وعدہ پورا کردیا۔ میرے پاس کئی فون آئے کہ اور وہ وعدہ اور وہ وعدہ؟میں نے سب سے کہا کہ منشور پڑھتے کیوں ہو؟ ووٹ دیتے وقت یہ دیکھو کہ اس وقت ملک کے لیے کیا ضروری ہے؟

بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اپنی اکثریت کی ضرورت ہے اور وہ اگلے سال صدر جمہوریہ امت شاہ جیسا بنانا چاہتی ہے۔ اس کے لیے ایک لاکھ کروڑ سے بھی زیادہ خرچ کرسکتی ہے۔ اس وقت آر ایس ایس کے پاس کتنا روپیہ ہوگا اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ نکسلی اور مائووادی جو ہزاروں ہیںنوٹ بندی کے بعد بھی نہ سیکڑوں بھوک سے مرے اور نہ خود سپردگی کی جو ملک کے باغی ہیں تو سنگھ کے پاس جو ملک کی مالک ہے کتنا ہوگا؟ اس لیے جسے سیکولر ہندوستان باقی رکھنا ہے اس کے اوپر فرض ہے کہ جو بی جے پی کو ہرا سکے اسے ووٹ دیدے۔کانگریس نے کیا کیا ؟سماج وادی نے کیا کیا؟ وہ سب ہم کو بھی یاد ہے اور نہ معاف کیا ہے نہ کریںگے۔ لیکن راجیہ سبھا میں مودی کی اکثریت اور ان کا صدر اگر بن جانے دیا تو ہماری نسلیں ہمارے منہ پر تھوکیںگی اور جو حال امریکہ کے ذریعہ ہونے والاہے اس سے کہیں زیادہ بد تر ہندوستان میں ہوگا۔ اس لیے اس وقت صرف اور صرف وہ کرنا چاہیے جس سے بی جے پی کامیاب نہ ہو سکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔