یہ انٹرویو نہیں، نئے سال کا مودی بیان تھا

حفیظ نعمانی

نئے سال کی پہلی تاریخ کی شام کو خبروں کی تلاش میں ٹی وی کھولا تو دیکھا کہ ایک لڑکی اور سامنے وزیراعظم تشریف فرما ہیں اور شاید اس رپورٹر لڑکی کاپہلا ہی سوال تھا جس میں پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کی 100  فیصد ہار کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔ ہم نے بس یہ سنا کہ تلنگانہ اور میزورم میں تو جیتنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ اگر بات کو یہاں روک کر عرض کریں کہ پھر اترپردیش کے یوگی وزیراعلیٰ نے کس بل بوتہ پر کہا تھا کہ اگر تلنگانہ میں ہماری حکومت بن گئی تو اویسی ایسے ہی بھاگے گا جیسے نظام بھاگا تھا۔ ہندوستان میں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ بناتے وقت یہ بھی بتا دیا جائے کہ دوسروں کے بارے میں بات کرتے وقت الفاظ کیسے ہوں آواز کیسی ہو اور انداز تمیز کا ہو یا …کا۔

یہ جو کچھ ہورہا تھا جس کے بارے میں لکھ لکھ کر آرہا تھا کہ انتخابی سال کا وزیراعظم سے پہلا انٹرویو ہے۔ اس کے بعد ہم نے جو چینل بھی دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ہر چینل پر دکھایا جارہا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا تیسرا سوال اور جواب سنا تو ایسا لگا جیسے کوئی بڑے گھر کی لڑکی کے لئے بہت قابل ماسٹر کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں جو اس کو امتحان کی تیاری کرائے گا۔ یہ اس لئے عرض کردیا کہ انٹرویو میں تو زبان دونوں کے پاس ہوتی ہے اور لیڈر کے جواب میں سوال اور سوال میں جواب نکلتے رہتے ہیں لیکن 95  منٹ تک چلنے والے پروگرام کو جسے انٹرویو کہا گیا اور اے این آئی نیوز ایجنسی نے اس کا اہتمام کیا لیکن ایک بھولی بھالی معصوم سی بچی کو صرف سوال دے دیئے کہ باری باری ان کو سنا دینا اور جواب کے بعد دوسرا سوال سنا دینا وزیراعظم نے مہذب سماج میں ماب لنچنگ کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ اس کی سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے اور یہ بھی کہہ دیا کہ یہ کوئی 2014 ء کے بعد نہیں ہوا پہلے بھی ہوتا تھا۔ یہ ان کا وہ پسندیدہ انداز ہے جسے مہذب سماج جھوٹ کہتا ہے۔ اگر بات گائے کی ہے تو یہ جو بھیڑ کے ہاتھوں مسلمان بے گناہوں کا قتل ہے یہ صرف آپ کی حکومت کے بعد کی لعنت ہے اس سے پہلے جب کبھی اور جہاں کہیں گائے کاٹ دی جاتی تھی یا گوشت بانٹا جارہا ہوتا تھا تو اس پر احتجاج ہوتا تھا یہ صرف آپ کی حکومت کے زمانہ میں ہوا ہے کہ اگر مسلمان کے ہاتھ میں گائے کی رسّی ہے اور وہ دودھ کا کاروبار کرتا ہے یا اپنے بچوں کے لئے دودھ والی گائے خریدکر لئے جارہا ہے تو اسے بھی ختم کردو اور صوبہ کی حکومت اور پولیس صرف تماشہ دیکھتی رہے اور سب کو چھوڑ دے یہ راجستھان، جھارکھنڈ، اترپردیش اور اب بہار میں خوب ہورہا ہے جو صرف مودی سرکار کا عذاب ہے۔

ایسی ہی بات انہوں نے بابری مسجد کی زمین کے مقدمہ کے بارے میں کہی کہ ’میں کانگریس سے اپیل کرتا ہوں کہ رام مندر کے معاملہ میں اپنے وکیلوں کے ذریعہ تاخیر نہ کرائے۔‘ وہ وزیراعظم ہیں اگر وہ کہیں کہ مجھے معلوم نہیں تو یہ ان کے لئے بولنے سے پہلے شرم کی بات ہے اور جان بوجھ کر قوم کو گمراہ کررہے ہیں تو اس سے زیادہ شرم کی بات ہے۔ کانگریس کے لیڈر اور وکیل نے ایک سال پہلے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ اس مقدمہ کو اگر الیکشن کے بعد سنا جائے تو ملک میں امن امان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ ایک سُنی وقف بورڈ کے وکیل کی حیثیت سے انہوں نے کہا تھا جس پر پوری بی جے پی چیخ پڑی اور راہل گاندھی نے ان سے کہا کہ آپ اس مقدمہ میں کسی طرف سے نہ جائیں اس کے بعد سے ایک سال ہوگیا ہے کسی نے اس دن کپل سبل کو کورٹ میں نہیں دیکھا ہوگا جس دن اس زمین کا مقدمہ سناگیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ مندر اور مسجد کا مقدمہ نہیں ہے سابق چیف جسٹس کے بیان کے مطابق یہ صرف اس زمین کا مقدمہ ہے جس میں مسجد تھی اور عدالت کو صرف یہ بتانا ہے کہ یہ زمین کس کی ہے۔ اسے رام مندر کا مقدمہ کہنا اور کانگریس پر ایسے الزام لگانا جیسے وہ فریق ہے اور پورے مقدمہ میں صرف ایک سال پہلے ایک بار کپل سبل کے جانے کو کیا کارروائی میں روڑے اٹکانا اور مقدمہ میں رکاوٹ ڈالنا کہا جاسکتا ہے؟

وزیراعظم سے بار بار کہا گیا کہ وہ پریس کانفرنس کریں۔ اسی طرح بعض میڈیا کے صحافیوں نے کہا کہ ہم نے انٹرویو کا وقت مانگا نہیں دیا وہ اس سے پہلے بھی انٹرویو دے چکے ہیں لیکن طریقہ یہی رہا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مودی جی کی طرف سے سوال لکھ کر دے دیئے گئے ہیں اور وہ جواب جو وہ ہر تقریر میں سناتے ہیں وہ انٹرویو میں سنا دیتے ہیں جس میں صرف اپنی بڑائی بیان کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ عوام وہ اونچے طبقہ کے ہوں درمیانی طبقہ کے ہوں نوجوان ہوں یا کسان سب کے لئے انہوں نے کیا ہے اور سب ان کے لئے جان دے دیں گے۔ مودی جی کے اوپر فرض تھا کہ وہ 55  مہینوں کا حساب دیتے کہ جو جو انہوں نے کہا تھا وہ سب کردیا اور سب تو کیا کرتے جس گنگا کے بارے میں کہا تھا کہ مجھے تو ماں گنگا نے بلایا ہے اور جس کی صفائی پر سیکڑوں کروڑ خرچ کردیئے وہ جیسی 2014 ء میں تھی ویسی ہے 2019 ء میں ہے۔ وزیراعظم اب تک کانگریس کو گالیاں دینا اپنا فرض سمجھتے تھے اب بننے والے متحدہ محاذ پر برس رہے ہیں اور انہوں نے کہہ دیا کہ جو بنے گا عوام اس سے مقابلہ کریں گے مودی اور امت شاہ کے مقابلہ پر کوئی نہیں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔