داعیانہ کردار کی اہمیت عصرِ حاضر کے تناظر میں

مولانا محمد غیاث الدین حسامی

معاشر ہ کی اصلاح کے لئے داعیانہ سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی سخت ضرورت ہے، اس سے ایک طرف معاشرہ اچھے اوصاف پر استوار ہوتاہے، معاشرہ سے جرائم بے حیائی اور بری باتوں کا خاتمہ ہوتا ہے، اور پورے معاشرہ میں امن وسکو ن اورمحبت ومودت کی خوشگوار فضاقائم ہوتی ہے،تودوسری طرف برادرانِ وطن کے سامنے اسلامی تعلیمات کے محاسن اور اس کی خوبیاں اجاگر ہوتی ہیں، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں ان کا ازالہ ہوتا ہے ، اس فریضہ کی انجام دہی میں غفلت برتنے سے معاشرہ میں سطحی اخلاق اور بری چیزیں راہ پاتی ہیں، جرائم پسند عناصر اور ظالموں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، اورپورے معاشرے میںاضطراب وانتشار اور بے چینی وبد امنی عام ہوجاتی ہے؛ اسی لئے شریعت اسلام نے ہر مسلمان کو داعیانہ کردار ادا کرنے پر کافی زو ر دیا ہے، قرآ ن کریم اور احادیث شریفہ میںجابجامسلمانو ں کواس حوالہ سے حساس بنایا گیا ہے۔

 قرآن کریم میں امت مرحومہ کو خیر امت کا لقب دیا گیا:کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتومنون بااللہ (آل عمران : 110)   آگے خیر امت کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں،جن میںپہلی صفت یہ بیان کی گئی کہ یہ امت اچھی اور بھلی باتو ںکا حکم کرتی ہے، اور بری باتوں سے روکتی ہے، گویا یہ کہا گیا کہ جو آدمی خیر امت میں شامل ہونا چاہتا ہو تو وہ داعیانہ کردار ادا کرے۔(روح المعانی: 2/244)  پھر خیر امت کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی کہ وہ اللہ پر ایما ن رکھتی ہے، اس آیت کریمہ میںامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایما ن جیسی اہم اور عظیم الشان اصل الاصول سے پہلے ذکر کیا گیا،یہ بھی اس با ت کی طرف مشیر ہے کہ اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔

ایک دوسری آیت میں اللہ تبارک وتعالی نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو نما ز اور زکا ۃ جیسی اہم اور عظیم الشان عبادت پر مقدم ذکرکیا : والمومنو ن والمومنا ت بعضہم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینہون عن المنکر ویقیمون الصلاۃ ویوتون الزکاۃ ویطیعون اللہ ورسولہ اولئک سیرحمہم اللہ ان اللہ عزیز حکیم (سورۃ توبۃ :71) حالاں کہ نماز اور زکاۃ فرض عین ہے، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض کفایہ ہے، اس سے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ۔

ایک مقام پر اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ جو لو گ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں، وہی لو گ صحیح معنوں میں فلاح وکامیا ب ہیں :ولتکن منکم امۃ ید عون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر واولئک ہم المفلحون(سورہ آل عمران:104 )فلاح وکامیابی کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں میں منحصر کرنے سے اس کی اہمیت وعظمت معلوم ہوتی ہے ۔

ایک حدیث شریف میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو صد قہ قرار دیاہے، چنانچہ روایتوںمیںآتا ہے کہ: آپﷺ کی خدمت میںکچھ تنگدست صحابہ کرام رضوا ن اللہ تعالی علیہم اجمعین آئے، اور انہوں نے کہا کہ: اے اللہ کے رسول ذہب اہل الدثور بالاجور مالدار لوگ اجر وثواب میںہم سے فوقیت لے گئے؛ کیوں کہ وہ لوگ ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں،روزہ رکھتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ صدقہ خیرا ت بھی کرتے ہیں، تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ صدقہ نہیں کرسکتے؟ سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، اللہاکبر کہنا صدقہ ہے ،الحمد للہ کہنا صدقہ ہے، لاالہ الااللہ کہنا صدقہ ہے، امر بالمعروف کرنا صدقہ ہے، نہی عن المنکر کرنا صدقہ ہے۔ (مسلم شریف حدیث نمبر: 1006)

 ایک روایت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو گناہوںاور لغزشوں کا کفارہ بتلایا گیا ہے، چنا نچہ آپﷺ نے فرمایا کہ: آدمی کی اہل وعیال پڑوسی اور مال کے ذریعہ آزمائش ہوتی ہے، (اور آدمی سے اہل وعیا ل اور پڑوسی کے حقوق میں جو کوتاہی اور غفلت وسستی ہوتی ہے )اس کے لئے نماز ،روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکفارہ ہوجاتاہے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر: 525)

ایک روایت میں آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کسی کو نیک کام کا حکم دے، تو نیکی کرنے والے کو جس قدر ثواب ملتا ہے اتنا ہی ثواب نیکی کا حکم دینے والے کوبھی ملتا ہے، اور نیکی کرنے والے کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ (ابو داود حدیث نمبر: 5129)

فریضہ امربالمعروف اورنہی عن المنکرکی انجام دہی میں سستی وغفلت سے کا م لینے والوں کے متعلق احادیث شریفہ میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں ، ایک روایت میں آپﷺ نے فرمایا کہ: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میر ی جان ہے تم ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تبارک وتعالی تم پر عذاب نازل کریں ،تم اللہ سے دعا ء مانگو اور تمہاری دعاء قبول نہ کی جائے۔ (ترمذی شریف حدیث نمبر: 2169)

جب لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑبیٹھتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالی کا عمومی عذاب آتا ہے ،جس میںمنکرا ت کرنے والے بھی ہلاک ہوتے ہیں ،او ر ان کے ساتھ وہ نیک لوگ بھی ہلاک ہوتے ہیں جو تماشائی بن کر ان کے منکرا ت کو دیکھتے رہے، اور ان کو برائیوںسے نہیںروکا ؛چنانچہ ایک حدیث میںآپﷺ نے فرمایا کہ: جب لوگ کسی ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں، اور اس کو ظلم سے باز نہ رکھیں ؛یا کسی منکر کو دیکھیں اور اس کو دور نہ کریں،تو اللہ کا عمومی عذاب آتا ہے جس میںتمام لو گ ہلاک ہوتے ہیں۔(مسند ابو یعلی الموصلی حدیث نمبر  :132)

ایک دوسری حدیث میں آپﷺ نے اس با ت کو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایا ہے کہ: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں اور اس فریضہ کی ادائیگی میںسستی اور غفلت کرنے والوں کی مثال اس جماعت کی طرح ہے جو ایک کشتی میںسفر کررہی ہو، کچھ لوگ کشتی کے اوپر ی حصہ میں بیٹھے ہوں ،اور کچھ لوگ نچلے حصہ میں بیٹھے ہوں ،نیچے کے لوگو ں کو جب پانی کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ لوگ اوپر جاکر پانی لے آتے ہیں، ان میں سے ایک شخص نے اوپر جاکر پانی لینے کی مشقت سے بچنے کے لئے کشتی میںسوراخ کرنا شروع کیا؛ اگر کشتی میں بیٹھے دیگر لوگ اس کو اس حرکت سے بازرکھیں ،تو وہ خو د بھی ڈوبنے سے بچ جائے گا اور تمام لو گ بھی بچ جائیں گے، اور اگر لوگ تماشائی بن کراسے دیکھتے رہے تو وہ خود بھی ڈوبے گا اور دوسرے لوگ بھی ڈوب جائیں گے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر: 2493)  بعینہ اسی طرح اگر مسلمان کسی کو غلط اور برا کا م کرتے ہوئے دیکھے، تو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس شخص کو منع کرے ، کوئی کسی پر ظلم کررہا ہو ، یا کسی کا حق دبارہا ہو ، تو معاشرہ میں موجو د لوگو ں کا حق بنتا ہے کہ وہ ظالم کو ظلم سے روکیں ، کمزوروں اور ضعیفوں کو ان کا حق دلائیں ، ورنہ اللہ کا عمومی عذاب آئے گا جس کی زد میں تمام لوگ آئیں گے ۔

 تاریخی روایات میں مذکورہے کہ بنی اسرائیل کی عبادت کے لئے ہفتہ کا دن خاص کیا گیا تھا ، اس دن ان کے لئے مچھلیو ںکا شکار ممنوع تھا ،اللہ تبارک وتعالی کو ان کی امتحان اورآزمائش مقصود تھی ، چنانچہ عام دنو ں کی بنسبت ہفتہ کے دن مچھلیاں بڑی تعدادمیں پانی پر تیرتی نظر آتیں ، بنی اسرائیل ہفتہ کے دن یہ حیلہ کرتے کہ ایک گڑھا کھود دیتے ، جس کی وجہ سے ساری مچھلیاں اس گڑھے میں جمع ہوجاتیں، اگلے دن یہ لوگ ان مچھلیوں کو پکڑ لیتے ، اس حرکت کو بنی اسرائیل کے دیگر لوگ دیکھتے ، لیکن انہیں اس سے منع نہیں کرتے تھے، چنانچہ اللہ تبارک وتعالی کا عذاب آیا ، اور اس عذاب میںسبھی لو گ گرفتار ہوئے ۔(تفسیر فتح القدیر: 1/113)

آج کونسی برائی ہے جس سے معاشرہ محفوظ ہے ؟ کونسا گنا ہ ہے جس سے معاشرہ آلودہ نہیں ہے ؟ معاشرہ کا نوجوا ن طبقہ جو امت کا قیمتی سرمایہ ہیں، جس سے معاشرہ کو امیدیں وابستہ ہیں یہ طبقہ اسلامی تعلیما ت سے دور اور مذہبی پابندیوں سے آزاد ہے ،اخلاق واقدار ، مروت وانسانیت ، امانت ودیانت ،عفت وپاک دامنی اور شرم وحیاء اس کے یہاں ایک نظریاتی چیز ہے،آج سے چودہ سو سال پہلے زبان نبوت نے پیشن گوئی کی تھی کہ: ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں عورتیں اپنے شوہروںپر حکومت کرنے لگیں گی ،اور نوجوا ن طبقہ فسق وفجور میں مبتلا ہوگا ،اور ایسی نوبت اس لئے آئے گی کہ لو گ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑدیں گے۔ (مسند ابویعلی الموصلی حدیث نمبر: ۶۴۲۰)بالکل یہی ہمارے معاشرہ کی صور ت حال ہے ،مختلف قسم کی برائیاںہماری سوسائٹی میں پھیل چکی ہیں،بے حیائی ، عریانیت اور فحاشیت عام ہو گئی ہے ، نو جوان طبقہ آخرت سے غافل ہوکر ، مذہب کی قید وبند سے آزاد ہوکر دنیا کے مزے لوٹنے میںمصروف ہے، عام لوگ حلال وحرام کی تمیز کیے بغیر مال ودولت اکھٹا کرنے میں مشغول ہیں ، مسلمان اسلامی افکار وعقائد سے برگشتہ ہیں، اور مغربی نظریات وافکار کے حامی ہیں، مسلما ن جس کا مقصد صرف اللہ کی رضاء وخوشنودی ، اور طلب آخرت ہونا چاہیے تھا ، آج اس کی فکر ، اس کا غم متاع دنیا ہے ، اور طرفہ یہ کہ اسلامی فکر رکھنے والو ں کو ، اسلامی تعلیمات وہدایات پر عمل کرنے والوں کودقیانو س اور تاریک خیال تصور کیاجاتا ہے ، بلکہ ملحدین اور دین سے بیزار قسم کے لوگ خوشحالی وترقی کی راہ میں مذہب اسلام کو رکاوٹ سمجھتے ہیں ، ایسے پر فتن دور میںداعیانہ کردار کی پہلے سے زیادہ ضرور ت واہمیت بڑھ جاتی ہے ،معاشرہ میں ایک دوسرے کو خیر وبھلائی کی تاکید ،معروف کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ،گنا ہ اور برائیوں پر نکیر اور جرائم پسند عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے تو انشاء اللہ ایک نیک صالح خوشگوار معاشر ہ تشکیل پائے گا ، اور معاشرہ میں اضطراب اور بے چینی کی جو کیفیت چھائی ہوئی ہے وہ ختم ہو جائے گی ۔

تبصرے بند ہیں۔