صدقۂ فطر کی ادائیگی میں مالداری کی رعایت

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کوکائنات کاکارآمدجانوربنایاہے، جس کے لئے اسے مختلف قسم کی ہدایات اوررہنمائیاں بھی دی ہیں، ان ہدایات اوررہنمائیوں پر اگرغور کیا جائے توتمام کاخلاصہ دوچیزیں نظرآتی ہیں، ایک یہ کہ وہ اپنے خالق کی اطاعت اوربندگی کرے اوردوسرے یہ کہ خالق کے محتاج بندوں کی مدداورتعاون کرے، پھرمحتاج بندوں کے تعاون کی مختلف شکلوں کی طرف بھی نشان دہی کی گئی ہے، مثلا: ایک شکل زکات کی ہے، دوسری شکل عشر کی ہے، تیسری شکل صدقہ اورخیرات کی ہے، پھران میں سے بعض شکلوں کو ان لوگوں پرلازم کیاگیاہے، جواس کے لئے درکارشرائط پرپورااترے، جب کہ بعض شکلوں کولازم تونہیں کیاگیاہے؛ لیکن اس کی ترغیب ضرور دی گئی ہے۔

تعاون کی جن شکلوں کولازم کیاگیاہے، ان میں سے ایک صدقۃ الفطر بھی ہے، ’’صدقۃ الفطر ‘‘اس صدقہ کوکہاجاتاہے، جورمضان المبارک کے روزہ افطارکی وجہ سے لازم ہوتاہے، یعنی اس کے واجب ہونے کاسبب افطار(شوال کاچانددیکھ کرروزہ کھولنا)ہے، اس کی دوبنیادی حکمتیں ہیں:

1۔ محتاجوں کاتعاون:

صدقۃ الفطرکااہم مقصد یہ ہے کہ محتاج لوگ بھی اسی طرح خوشیاں منائیں، جس طرح مالدارحضرات عید کی خوشیاں مناتے ہیں، ان کے گھرمیں بھی اسی طرح سویاں اورلچھاتیارہوں، جس مالداروں کے گھرمیں تیارہوتے ہیں اور ان کے بچوں کے لباس بھی اسی طرح خوش منظرہوں، جس طرح مالداروں کے بچوں کے ہوتے ہیں ۔

2۔ لغووبرائی سے پاک کرنے کاذریعہ:

اس کادوسرامقصد یہ ہے کہ یہ صدقہ روزہ دارکے لئے ان برائیوں اورلغوامورسے پاک کرنے کاذریعہ بنے، جواس سے سرزد ہوگئے ہیں، حضرت عبداللہ بن عباسؓ اللہ کے رسول ﷺ کاارشادنقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فرض رسول اللہﷺزکاۃ الفطر، طہرۃ للصائم من اللغو والرفث، وطعمۃ للمساکین، من أداہاقبل الصلاۃ، فہی زکاۃ مقبولۃ، ومن أداہا بعد الصلاۃ فہی صدقۃمن الصدقات. (ابوداود، حدیث نمبر: ۱۶۱۱)

رسول اللہ ﷺ نے لغوورفث سے روزہ دارکوپاک کرنے اورمسکینوں کی غذا کے طورپرزکات فطرکوفرض کیا، جس نے (عید)کی نماز سے پہلے اسے اداکیاتویہ مقبول زکات ہوگی، اورجس نے نماز کے بعد اداکیاتو(اس صورت میں ) یہ عام صدقات کے مثل ہے۔

اب ایک اہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ صدقۃ الفطر کی ادائے گی کن چیزوں کے ذریعہ سے کی جائے گی؟اس سلسلہ میں پانچ اشیاء کاذکراحادیث میں مذکورہے:

(۱)شعیر( جو) (۲) تمر(کھجور) (۳) زبیب(کشمش) (۴) اقط(پنیر) (۵) طعام(غلہ) ۔۔۔۔۔ حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:

کنانخرج زکاۃ الفطر۔إذاکان فینا رسول اللہ ﷺ۔ صاعاً من طعام، أو صاعاًمن شعیر، أوصاعاًمن تمر، أوصاعاً من زبیب، أوصاعاً من أقط.(سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۶۷۳، صحیح البخاری، حدیث نمبر:۱۵۰۶)

رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہم ایک صاع غلہ، یاایک صاع جو، یاایک صاع کھجور، یاایک صاع کشمش، یاپھرایک صاع پنیرزکات فطر(صدقۂ فطر) میں نکالتے تھے۔

مذکورہ حدیث سے دوباتیں صراحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں:

1۔ اگراشیاء کے ذریعہ سے صدقۃ الفطرکی ادائے گی کرنی ہوتواِنھیں منصوص اشیاء سے کی جائے۔

2۔ ان اشیاء سے ادائے گی کی صورت میں ایک صاع (تقریبا: 3.180grms تین کلوایک سواسی گرام)کی مقداراداکی جائے۔

البتہ فقہائے احناف کے نزدیک گیہوں سے ادائے گی کی صورت میں صدقۃ الفطرکی مقدارنصف صاع(تقریباً:1.590grmsایک کلوپانچ سونوے گرام)ہوگی؛ کیوں کہ حضرت امیرمعاویہؓ ایک مرتبہ جب شام سے مدینہ تشریف لائے توفرمایا:
إنی لأری مدین من سمراء الشام تعدل صاعاً من تمر.(سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۶۷۳)

میں دیکھتاہوں کہ شام کے دومد(یعنی نصف صاع)گیہوں ایک صاع کھجورکے برابرہے۔

قابل غوربات!

صدقۃ الفطرکی ادائے گی کااہم اوربڑامقصد محتاجوں کاتعاون ہے اورتعاون کے سلسلہ میں یہ اصول بھی پیش نظررہتی ہے کہ اس میں ’’انفع للفقراء‘‘ کاخیال رکھا جائے، اسی اصول کی بنیاد پرآج تک عمومی فتوی یہ نہیں دیاجاسکاہے کہ زکوۃ کے نصاب کامعیارسونے کوقراردیاجائے؛ کیوں کہ ایسی صورت میں بہت کم لوگ ہی صاحب نصاب کہلانے کے مستحق ہوں گے، لہٰذا صدقۃ الفطرکی ادائے گی میں بھی اسی ’’انفع للفقراء‘‘ کے اصول کو مدنظررکھناچاہئے، یعنی جس چیز میں فقراء کازیادہ نفع ہو، اسے اختیارکیاجائے۔

اب مذکورہ پانچ منصوص اشیاء اوران کی قیمتوں پرنظرڈالئے، توقیمت کے اعتبارسے ان کوتین خانوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے، ایک اعلی، دوسری متوسط اورتیسری ادنی، مثلا: کشمش کی بازاری قیمت تقریباً دوسوچالیس(240/-)روپے فی کلوہے، اس اعتبارسے ایک صاع (تقریبا: 3.180grmsتین کلوایک سواسی گرام)کی قیمت سات سو تریسٹھ روپے بیس پیسے(763.2/-)ہوتی ہے،پنیرکی قیمت دوسونوے(290/-)روپے فی کلوہے، اس اعتبارسے ایک صاع (تقریبا: 3.180grmsتین کلوایک سواسی گرام)کی قیمت نوسوبائیس روپے بیس پیسے(922.2/-)ہوتی ہے،جب کہ کھجورکی قیمت ایک سوبیس روپے(120/-)فی کلوہے، اس اعتبارسے ایک صاع (تقریبا: 3.180grms تین کلوایک سواسی گرام)کی قیمت تین سواکیاسی روپے ساٹھ پیسے(381.6/-) ہوتی ہے اورجوکی قیمت بیس روپے (20/-) فی کلوہے، اس اعتبارسے ایک صاع (تقریبا: 3.180grmsتین کلوایک سواسی گرام)کی قیمت تریسٹھ روپے ساٹھ پیسے(63.6/-)ہوتی ہے۔

اشیاء کی ان قیمتوں پرنظرڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ کشمش اورپنیراعلی درجہ میں ہیں، جب کہ کھجورمتوسط درجہ میں، اورجووگہیوں ادنی درجہ میں ہیں، اب سوال یہ ہے کہ تینوں درجوں کااعتبارکرکے صدقۃ الفطرنکالناچاہئے یاصرف ادنی درجہ کوہی معمول بنالیناچاہئے؟ ظاہرہے کہ جس طرح مذکورہ اشیاء قیمتوں کے اعتبارسے تین درجہ کے ہیں، اسی طرح معاشرہ پرنظرڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ صاحب نصاب ہونے کے اعتبارسے بھی لوگوں کے تین درجے ہیں، پہلادرجہ ان صاحب نصاب افرادکا، جومعاشرہ میں اعلی درجہ کے مالدار سمجھے جاتے ہیں، انھیں چاہئے کہ وہ صدقۃ الفطراداکرنے میں اپنی مالداری کی رعایت کرتے ہوئے اعلی درجہ کی چیزوں (کشمش اورپنیر) کی قیمت کااعتبارکرکے صدقۃ الفطر نکالیں، دوسرے درجہ میں وہ صاحب نصاب ہیں، جنھیں مالداری کے اعتبارسے معاشرہ میں متوسط طبقہ میں شمارکیاجاتاہے، ایسے افرادکوچاہئے کہ وہ متوسط درجہ کی چیز(کھجور) کی قیمت کااعتبارکرکے صدقۃ الفطرنکالیں اورتیسرے درجہ میں وہ صاحب نصاب ہیں، جنھیں مالداری کے لحاظ سے اعلی اورمتوسط درجہ سے نیچے ادنی درجہ میں شمارکیا جاتاہے، ایسے افراداپنی مالداری کارعایت کرتے ہوئے گیہوں اورجوکی قیمت کااعتبارکرکے صدقۃ الفطرنکالیں، ایسا کرنے میں حدیث میں مذکورتمام اشیاء کی بھی رعایت ہوگی اور’’انفع للفقراء‘‘ کے اصول پربھی عمل ہوجائے گا، جوصدقۃ الفطرکامطلوب بھی ہے، نہ یہ کہ ہردرجہ کے افراد صرف ادنی درجہ کی قیمت نکالنے پرہی اکتفاکرے، یہ کسی طورپرمناسب معلوم نہیں ہوتا،اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطافرمائے، آمین!!

تبصرے بند ہیں۔