فیملی پلاننگ کرانے والے کی اذان و امامت کا حکم

شیخ مقبول احمد سلفی

اتردیناج پور، مغربی بنگال  سے محمد سلیمان بن عبدالحق صاحب پوچھتے ہیں  کہ گاؤں کی کسی مسجد میں ایک ایسا مصلی ہے جس نے ماضی بعید میں "فیملی پلاننگ ” کر رکھا ہےاور فی الحال وہ اکثر اوقات اذان دینے اور بسا اوقات نماز پڑھانے میں سبقت کرتا رہتا ہے جبکہ مسجد کے دیگر مصلیان اس کی فیملی پلاننگ کے سبب اس طرح کی سبقت کو ناپسند کرتے ہیں اور اس کی اذان و امامت کو ناجائز جاننے کی وجہ سے اس كو سبقت کرنے سے منع کرنا چاہتے ہیں لیکن اس بارے میں وضاحت کے ساتھ عدم معلومات کی بناء پر ایسا کرنے یا کچھ کہنے سے کتراتے بھی ہیں۔

گاؤں کا یہ ایک نازک ترین مسئلہ ہے اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے، گاؤں والوں کو کیا کرنا چاہئے اور ایسے شخص کا اذان دینا یا نماز پڑھانا کیسا ہے ؟ ان مسائل کا جواب کتاب وسنت کی روشنی میں چاہئے۔

شیخ مقبول احمد سلفی جواب دیتے ہیں :

آج کے حالات ایسے ہیں کہ لوگ ہرچیز میں منصوبہ بندی کرتے ہیں، یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔ جہاں اس کی گنجائش ہو بے شک کی جانی چاہئے مگر جہاں پر خود اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں مستحکم منصوبہ دیا ہو وہاں پر اپنی خودساختہ پلاننگ کرنا بے سود ہونے کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت بھی ہے۔

نبی کریم ﷺ نے خاندان بننے سے پہلے ہی ایک ٹھوس منصوبہ دیا ہے کہ جب تم شادی کرو تو زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچہ جننے والی عورت سے شادی کرو۔ ساتھ ساتھ بچہ نہ پیدا کرسکنے والی خاتون سے نکاح کرنا  بھی منع فرمایا ہے : سیدنا معقل بن یسار ؓ سے روایت ہے:

جاءَ رجلٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ، فقالَ : إنِّي أصَبتُ امرأةً ذاتَ حسبٍ وجمالٍ، وإنَّها لا تلِدُ، أفأتزوَّجُها، قالَ : لا ثمَّ أتاهُ الثَّانيةَ فنَهاهُ، ثمَّ أتاهُ الثَّالثةَ، فقالَ : تزوَّجوا الوَدودَ الولودَ فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأُممَ(صحيح أبي داود:2050)

ترجمہ: ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا مجھے ایک عورت ملی ہے جو عمدہ حسب اور حسن و جمال والی ہے مگر اس کے اولاد نہیں ہوتی۔ تو کیا میں اس سے شادی کر لوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :نہیں، پھر وہ دوبارہ آیا، تو آپ ﷺ نے منع فر دیا۔ پھر وہ تیسری بار آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :ایسی عورتوں سے شادی کرو جو بہت محبت کرنے والی اور بہت بچے جننے والی ہوں۔ بلاشبہ میں تمہاری کثرت سے دیگر امتوں پر فخر کرنے والا ہوں۔

آج کے زمانہ والوں کے لئے اس حدیث میں عبرت ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔ اسلام ہمیں خاندانی منصوبہ دے رہا ہے کہ زیادہ بچے پیدا کریں، اس سے اسلام کو دنیا میں تقویت ملے گی اور آخرت میں محمد ﷺ کثرت تعداد پر فخر کریں گے۔

ہم کثرت اولاد کو نحوست سمجھتے ہیں، اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں اور فیملی پلاننگ کو روشن خیالی سمجھ کر کرتے ہیں جبکہ اولاد کی کثرت برکت کا سبب، دنیا اور آخرت میں ترقی کا زینہ ہے۔ اولاد کو نبی ﷺ نے بہترین کمائی قرار دیا ہے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إنَّ أطيَبَ ما أكل الرَّجلُ من كَسبِه وإنَّ ولدَه من كَسبِه(صحيح ابن ماجه:1751)

ترجمہ: انسان کا بہترین کھانا وہ ہے جو اسکی کمائی سے (حاصل) ہو۔ اور اس کی اولاد بھی اس کی کمائی ہے۔

لہذا اولاد کی کثرت جوکہ مستحسن  ومشروع ہے اپنا خاندانی منصوبہ بنائیں اورا نہیں اچھی ترتیب دے کر صالح بنائیں، اس سے آخرت میں آپ کا درجہ کافی بلند ہوگا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :

إن اللهَ – عز وجل – لَيَرْفَعُ الدرجةَ للعبدِ الصالحِ في الجنةِ، فيقولُ : يا رَبِّ ! أَنَّى لي هذه ؟ ! فيقولُ : باستغفارِ وَلَدِكَ لك(قال الالبانی : اسنادہ حسن فی تخریج مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث : 2293)

ترجمہ: اللہ ایک شخص کا جنت میں درجہ بلند کرتاہے تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے۔

سوال میں ایک شخص کے متعلق  فیملی پلاننگ کرنے کی وجہ سے اذان دینے اور اس کی امامت کرنے کا حکم پوچھا گیا ہے۔ سطور بالا سے ہمیں معلوم ہوا کہ افزائش نسل اسلامی خاندان کا مطلوبہ معیار ہے ہمیں اس معیار پر کھرا  اترنا چاہئے۔

کبھی کبھی انسان ماحول کے زیر اثر فیملی پلاننگ کرلیتا ہے اور کبھی ضرورت کا تقاضہ بھی ہوتا ہے۔ فیملی پلاننگ دو طرح سے ہوتی ہے۔ ایک پلاننگ وقتی ہوتی ہے اوردوسری دائمی۔وقتی اس طور پر کہ مانع حمل ادویہ یا انجکشن کا استعمال کرکے کچھ مہینوں یا سالوں تک افزائش نسل کو روکا جا سکتا ہے مگر دائمی ضبط تولید کے بعد پھر بچے کی ولادت کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔

بلاضرورت یا شوقیہ ان دونوں قسم کی پلاننگ کرنا  ناجائز ہے لیکن اگر طبیب کے مشورہ کی روشنی میں ان میں سے کسی کی ضرورت پڑے مثلا ایک یا  چند بچے کی ولادت کے بعد عورت کمزور ہوجائے اور بروقت بچہ کی پیدائش اس کے جسم کے لئے نقصان دہ ہو تواس صورت میں غیرضرر رساں مانع حمل گولی یا انجکشن استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح ایک عورت کا کئی مرتبہ چائلڈ آپریشن ہوچکا ہو اور ڈاکٹر اب مزید آپریشن یا حمل خطرہ کا باعث قرار دیا ہو تو محض اس صورت میں دائمی فیملی پلاننگ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بسا اوقات بچہ دانی میں خرابی کے سبب اسے نکالنا پڑتا ہے اس صورت میں عورت معذور ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اکثر لوگ نسبندی شوقیہ کراتے ہیں اور کم سے کم بچے کی پیدائش پر لوگوں میں فخر کرتے ہیں جبکہ نسبندی امت محمدیہ کا قتل ہے۔بعض تعلیم اوربعض معاش کا عذر پیش کرتے ہیں یہ عذر مقبول نہیں ہے، یہ سراسر ناجائزکام ہے، اللہ کے یہاں اس ناجائز کام کے ارتکاب کا حساب دینا ہوگا۔

سوال میں جس بندے کی متعلق پوچھا گیا ہے ممکن ہو اس کے ساتھ کوئی عذر ہو جسے ہم نہیں جانتے ہیں یا جھوٹی خبر پھیلائی گئی ہو، بلاثبوت کسی کے بارے میں سوء ظن کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ جہاں تک اس کے اذان یا امامت کرانے کا مسئلہ ہے تو اس کے اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ کوئی متعین امام نہ ہو اور امامت کے لئے بہتر طریقہ کسی کو متعین کردینا ہی ہے لیکن کوئی امام متعین نہ ہو اس صورت میں امامت کا اہل کوئی بھی آدمی نماز پڑھا سکتا ہے۔ ایک حدیث میں ایسے شخص کی امامت درست نہیں ہے جسے بستی والے پسند نہ کریں۔ پسند و ناپسند میں کبھی کبھی بستی والے بھی زیادتی کرتے ہیں سو اس معاملہ میں ہمیں اللہ سے ڈرنا چاہئے۔ جس آدمی کے متعلق آپ  لوگ ناپسندیدگی کا اظہار کررہے ہیں، ان کے ساتھ دو ایک صالح افراد بیٹھ کرمعاملہ کی حقیقت جان لیں، یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ گاؤں گھر میں جب تک کسی بات کی حقیقت سامنے نہیں آجاتی لوگوں کے درمیان باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ اس لئے بات کو مکمل ختم کرنے کی غرض سے اس کے ساتھ چند افراد بیٹھیں اور اصل حقیقت دریافت کریں۔ اگر وہ خطا پر ہیں تو توبہ کرنے کی تلقین کریں اور آپ لوگ خطا پر ہیں تو آپ سب لوگ توبہ کریں۔ یہاں صرف اذان یا امامت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک شخص کو کئی سالوں (ماضی بعید)سے ناپسند کرنے کا مسئلہ ہے۔ اذان وامامت پر کسی دوسرے کو مامور کردینے سے آپ کا ذکر کردہ مسئلہ ختم ہوجائے گا مگر اس شخص کے متعلق پسند وناپسند کا مسئلہ باقی ہی رہے گا۔ اگر وہ شخص خطا پر ہو اور توبہ کرلے تو پھر کسی کو اس کے بارے میں باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے، نہ اذان یا امامت کو ناپسند کرنا ہے۔ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے گناہ نہیں کیا ہویا گناہ نہیں کرتا ہو۔ اس سے بڑے بڑےہم  گناہ کرتے ہیں مگر ہمار ے گناہ کو کبھی کوئی دیکھ لیتا اور کبھی کوئی نہیں دیکھ پاتا مگر اللہ رب العالمین ہمارے تمام ظاہری اور باطنی اعمال سے باخبر ہے۔

اللہ تعالی ہم سب کو پہلے اپنی اصلاح کی توفیق دے اور پھر دوسروں کو نصیحت کرنے والا بنائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔