قرآن مجید کا فلسفئہ تفریق، تفرقہ اور فرقہ

قمر فلاحی

فرَق کے معنی جدا جدا ہونا ہوتاہے،ی اد کرو اس وقت کو جب ہم نے سمندر میں جدائ پیدا کردی یعنی اس کے دو پاٹ کر دیے( البقرہ ۵۰) تفریق ایک ہی شئے کے دو حصے کرنے کو کہتے ہیں، جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے۔شب قدر میں [لیلۃ المبارکۃ] تمام امور کے درمیان حکیمانہ تفریق کی جاتی ہے۔(الدخان ۴) ہم انبیاءکرام میں تفریق نہیں کرتے (البقرہ ۱۳۶) یعنی انکے سلسلہ کو نہیں کاٹتے۔ اہل بابل ہاروت و ماروت سے وہ علم سیکھنے لگے جس کے ذریعہ سے وہ میاں بیوی میں جدائ کرنے لگے۔ (البقرہ ۱۰۲) گویا میاں بیوی نکاح کے بعد ایک ہو جاتے ہیں جسے والدین کا لقب دیا جاتاہے۔ طلاق دینے کے بعد یہ رتبہ عورت اور مرد سے چھین لیا جاتا ہے۔ اسی لیے اس وقت کیلئے کہا گیا۔فامسکوھن بمعروف او فارقوھن بمعروف۔ (الطلاق ۲)

فرقہ اچھی اور بری دنوں قسم کی جماعت کیلئے مستعمل ہے،اعمال اچھے ہوں تو اچھی جماعت اور برے ہوں تو بری جماعت۔

سورۃ التوبہ ۱۲۲، سورۃ المومنون ۱۰۹،البقرہ ۸۵،۸۷،سبا ۲۰، وغیرہ میں فرقہ اور فریق کی اصطلاح اچھے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور بقیہ جگہوں پہ گمراہ جماعت اور گروہ کے معنی میں مستعمل ہے۔

یہاں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ فرقہ بننا حرام نہیں ہے بلکہ دین میں تفریق پیدا کرنا حرام ہے جو کہ یہودی روش ہے۔ [ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شئ۔ (الانعام ۵۹) یقینا جن لوگوں نے دین میں تفریق کی اور ٹکڑوں میں بنٹے آپ ص کا ان سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔]

فرقہ بننے سے باہمی تعارف ہوتا ہے، اور باہمی شناخت ہوتی ہے۔ اور دین میں تفریق پیداکرنے سے عناد بڑھتا ہے فساد فی الارض واقع ہوتاہے۔

ہارون علیہ السلام نے اپنے بھائ موسی علیہ السلام سے کہا کہ مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تونے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا،گویا بنی اسرائیل ایک قوم تھی۔ اور تفرقہ ڈالنا نہایت برا عمل ہے۔ (طہ ۹۴)

جن لوگوں نے دین میں تفریق کی آپ ص کا ان سے کوئ تعلق نہیں رہا۔ (الانعام ۱۵۹)

آپ مشرکین میں سے نہ ہوجائیں، ان لوگوں میں سے جنہوں نے دین میں تفرقہ ڈالا اور جماعتوں میں بنٹ گئے۔ ا(لروم ۳۲)

معلوم یہ ہوا کہ تفرقہ ڈالنا شرک ہے۔

وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول کے درمیان تفرقہ ڈال دیں۔ (النساء۔ ۵۰) یہاں اللہ اور اس کے رسول میں تفرقہ ڈالنے کا مطلب یہ ہیکہ دونوں کے احکامات کا درجہ الگ الگ قائم کریں، جب کہ دونوں کے احکامات ایک ہی درجہ پہ ہیں۔

اہل کتاب نے بینہ[واضح نشانیاں] آنے کے بعد تفرقہ، اور اختلاف بازی کی۔ البینہ ۴، آل عمران ۱۰۵، اور سورہ شوری میں ہے کہ علم آنے کے بعد وہ تفرقہ میں پڑے۔بغیا بینھم مقصد دین سے بغاوت کرنا تھا۔ (الشوری ۱۴)

معلوم یہ ہوا کہ تفرقہ اور اختلاف ایک ہی چیز ہے،دوم البینہ اور علم ایک ہی چیز ہے، سوم اختلاف اور تفرقہ ڈالنے والوں کو نہ علم فائدہ دیتا ہے اور نہ بینہ۔

ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ۔ الانعام ۱۵۳۔۔ صراط مستقیم [قرآن و حدیث] کو چھوڑ کر ہوائے نفس اور خیالات و آراء کی پیروی اتباع سبل ہے، اور یہی تفرقہ ڈالنے کی راہیں ہیں۔  جب کوئ دین کا معاملہ آئے تو دلائل یہیں سے اخذ کرنے چاہیے نہ اقوال اور آراء بزرگان، و فقہی علماء سے۔

و اعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا آل عمران ۱۰۳۔ حبل اللہ سے مراد کتاب و سنت ہے، جو حکم کے معاملہ میں یکساں ہے، اس کو ایک ماننا اعتصام بحبل  اللہ اور اس میں درجہ بندی کرنا تفریق ہے۔

ان اقیموا الدین ولا تفرقوا فیہ۔ (الشوری ۱۳) دین قائم کرو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آدم علیہ السلام سے سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک دین اسلام ایک ہی ہے اس میں فرق کرنا، کسی نبی کو کسی پہ فوقیت دینا،کسی کی بات ماننا اور کسی کا انکار کرنا اقامت دین کے خلاف ہے۔بنی اسرائیل نے یہی جرم کیا کہ سیدنا حضرت محمد ص کو نبی نہیں مانا۔

الفرقان وہ کتاب جس نے اسلام اور کفر کو بالکل الگ کردیا۔ دو جماعتیں حزب اللہ اور حزب الشیاطین کو الگ کر ڈالا۔ (البقرہ ۵۳)

یوم الفرقان[جنگ بدر] جس نے مسلمان اور کافر دونوں کو بالکل الگ کردیا۔صاف صاف سمجھا جانے لگا کہ کون محمد ص کے ساتھ ہے اور کون ابوجہل و ابو لھب کےساتھ۔ (الانفال ۴۱)

اے ایمان والو اگر تم اللہ کا تقوی اختیار کروگے تو اللہ تعالی تمہیں فرقان عطا کردیگا۔ (الانفال ۲۹) یعنی تمہیں حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت عطا ہو جائےگی۔

اور کچھ لوگوں نے مسجد ضرار بنائی تاکہ مسلمانوں کے درمیان تفریق پیداکردیں، (التوبہ ۱۰۷) مسلمانوں کے خلاف سازش کرنا ان میں تفریق پیدا کرنے کے برابر ہے کیوںکہ یہیں سے تفریق کی شروعات ہوتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔