قرآن انسان کو تدبر اور تفکر کی دعوت دیتا ہے

عبدالعزیز

حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تفسیر ترجمان القرآن‘‘ میں لکھا ہے:

 دعوتِ تعقّل: قرآن مجید کے طریق استدلال کا اوّلین مبدا، تعقل و تفکر کی دعوت ہے؛ یعنی وہ جا بجا اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کیلئے حقیقت شناسی کی راہ یہی ہے کہ خدا کی دی ہوئی عقل و بصیرت سے کام لے اور اپنے وجود کے اندر اور اپنے وجود کے باہر جو کچھ بھی محسوس کرسکتا ہے، اس میں تدبر و تفکر کرے؛ چنانچہ قرآن کی کوئی سورت اور سورت کا کوئی حصہ نہیں جو تفکر و تعقل کی دعوت سے خالی ہو:

 ’’اور یقین رکھنے والوں کیلئے زمین میں (معرفتِ حق کی) نشانیاں ہیں اور خود تمہارے وجود میں بھی؛ پھر کیا تم دیکھتے نہیں ؟‘‘ (20-21:51)۔

  وہ کہتا ہے، انسان کو عقل و بصیرت دی گئی ہے، اس لئے وہ اس قوت کے ٹھیک ٹھیک استعمال کرنے نہ کرنے کیلئے جواب دِہ ہے:

 ’’یقینا (انسان کا) سننا، دیکھنا، سوچنا، سب اپنی اپنی جگہ جواب دہی رکھتے ہیں !‘‘ (36:17)۔

    وہ کہتا ہے، زمین کی ہر چیز میں ، آسمان کے ہر منظر میں ، زندگی کے ہر تغیر میں ، فکر انسانی کیلئے معرفتِ حقیقت کی نشانیاں ہیں ، بشرطیکہ وہ غفلت و اعراض میں مبتلا نہ ہوجائے:

 ’’اور آسمان اور زمین میں (معرفِ حق کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر!) لوگ ان پر سے گزر جاتے ہیں اور نظر اٹھاکر دیکھتے تک نہیں !‘‘ (105:12)۔

  تخلیقِ بالحق: اچھا، اگر انسان عقل و بصیرت سے کام لے اور کائنات خلقت میں تفکر کرے تو اس پر حقیقت شناسی کا کون سا دروازہ کھلے گا؟ وہ کہتا ہے، سب سے پہلی حقیقت جو اس کے سامنے نمودار ہوگی، وہ تخلیق بالحق کا عالمگیر اور بنیادی قانون ہے؛ یعنی وہ دیکھے گا کہ کائناتِ خلقت اور اس کی ہر چیز کی بناوٹ کچھ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ ہر چیز ضبط و ترتیب کے ساتھ ایک خاص نظام و قانون میں منسلک ہے اور کوئی شے نہیں جو حکمت و مصلحت سے خالی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ تخلیق بالباطل ہو؛ یعنی بغیر کسی معین اور ٹھہرائے ہوئے مقصد و نظم کے وجود میں آگیا ہو؛ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس نظم، اس یکسانیت، اس وقت کے ساتھ اس کی ہر بات کسی نہ کسی حکمت و مصلحت کے ساتھ بندھی ہوئی ہوتی:

  ’’اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور بلا شبہ اس بات میں اربابِ ایمان کیلئے (معرفت حق کی) ایک بڑی ہی نشانی ہے‘‘ (44:29)۔

   آل عمران کی مشہور آیت میں ان اربابِ دانش کی جو آسمان اور زمین کی خلقت میں تفکر کرتے ہیں ۔ صدائے حال یہ بتائی ہے:

 رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً ’’اے ہمارے پروردگار! یہ سب کچھ تو نے اس لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ محض ایک بیکار و عبث سا کام ہو!‘‘ (19:30)۔

  دوسری جگہ ’’تخلیق بالباطل‘‘ کو تلعب سے تعبیر کیا ہے۔ ’’تلعّب‘‘ یعنی کوئی کام کھیل کود کی طرح بغیر کسی معقول غرض و مدعا کے کرنا:

 ’’اس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، محض کھیل اور تماشہ کرتے ہوئے نہیں پیدا کیا ہے۔ ہم نے انھیں نہیں پیدا کیا مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ، مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو اس حقیقت کا علم نہیں رکھتے‘‘ (38-39:44)۔

 پھر جا بجا اس ’تخلیق بالحق‘ کی تشریح کی ہے، مثلاً ایک مقام پر ’تخلیق بالحق‘ کے اس پہلو پر توجہ دلائی ہے کہ کائنات کی ہر چیز افادہ و فیضان کیلئے ہے، اور فطرت چاہتی ہے کہ جو کچھ بنائے، اس طرح بنائے کہ اس میں وجود اور زندگی کیلئے نفع اور راحت ہو:

 ’’اس نے آسمانوں اور زمین حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے، اس نے رات اور دن کے اختلاف اور ظہور کا ایسا انتظام کردیا کہ رات دن پر لپٹی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹا آتا ہے اور سورج اور چاند دونوں کو اس کی قدرت نے مسخر کر رکھا ہے۔ سب (اپنی اپنی جگہ) اپنے مقررہ وقت تک کیلئے گردش کر رہے ہیں ‘‘ (5:39)۔

  ایک دوسرے موقع پر خصوصیت کے ساتھ اجرام سماویہ کے افادہ و فیضان پر توجہ دلائی ہے اور اسے ’تخلیق بالحق‘ سے تعبیر کیا ہے:

’’وہ (کار فرمائے قدرت) جس نے سورج سورج کو درخشندہ اور چاند کو روشن بنایا اور پھر چاند کی گردش کیلئے منزلیں ٹھہرا دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور اوقات کا حساب معلوم کرلو۔ بلا شبہ اللہ نے یہ سب کچھ پیدا نہیں کیا ہے مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ۔ وہ ان لوگوں کیلئے جو جاننے والے ہیں ، (علم و معرفت کی) نشانیاں الگ الگ کرکے واضح کر دیتا ہے‘‘(5:10)۔

  ایک اور موقع پر فطرت کے جمال و زیبائی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے ’تخلیق بالحق‘ سے تعبیر کیا ہے؛ یعنی فطرتِ کائنات میں تحسین و آرائش کا قانون کام کر رہا ہے جو چاہتا ہے، جو کچھ بنے ایسا بنے کہ اس میں حسن و جمال اور خوبی و کمال ہو:

  ’’اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں تو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ بنائیں ‘‘ (3:64)۔

   اسی طرح وہ قانونِ مجازات پر (یعنی جزا و سزا کے قانون پر) بھی اسی ’تخلیق بالحق‘ سے استشہاد کرتا ہے، تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ اور نتیجہ رکھتی ہے اور تمام خواص اور نتائج لازمی اور اٹل ہیں ، پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال میں بھی اچھے اور برے خواص نتائج نہ ہوں اور وہ قطعی اور اٹل نہ ہوں ؟ جو قانونِ فطرت دنیا کی ہر چیز میں اچھے برے کا امتیاز رکھتا ہے، کیا انسان کے اعمال میں اس امتیاز سے غافل ہوجائے گا۔

 ’’جو لوگ برائیاں کرتے ہیں ، کیا وہ سمجھتے ہیں ، ہم انھیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور جن کے اعمال اچھے ہیں ؛ یعنی دونوں برابر ہوجائیں ، زندگی میں بھی اور موت میں بھی؛ (اگر ان لوگوں کے فہم و دانش کا فیصلہ یہی ہے تو ) کیا ہی بُرا اُن کا فیصلہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور ا س لئے پیدا کیا ہے کہ ہر جان اپنی کمائی کے مطابق بدلہ پالے اور ایسا نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو‘‘ (21-22:45)۔

 ’معاد‘ یعنی مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اس سے جابجا استشہاد کیا ہے، کائنات میں ہر چیز کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہیٰ رکھتی ہے ، پس ضروری ہے کہ انسانی وجود کیلئے بھی کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہیٰ ہو۔ یہی منتہیٰ آخرت کی زندگی ہے کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کائناتِ ارضی کی یہ بہترین مخلوق صرف اسی لئے پیدا کی گئی ہو کہ پیدا ہو، اور چند دن جی کر فنا ہوجائے:

  ’’کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، محض بیکار و عبث نہیں بنایا ہے۔ ضروری ہے کہ حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہو اور اس کیلئے ایک مقررہ وقت ٹھہرا دیا ہو۔ اصل یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پروردگار کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں ‘‘ (80:30)۔

  مبدائِ استدلال: غرضیکہ قرآن کا مبداء استدلال یہ ہے :

 (1  اس کے نزول کے وقت دین داری اور خدا پرستی کے جس قدر عام تصورات موجود تھے، وہ نہ صرف عقل کی آمیزش سے خالی تھے بلکہ ان کی تمام تر بنیاد غیر عقلی عقائد پر آکر ٹھہر گئی تھی لیکن اس نے خدا پرستی کیلئے عقلی تصور پیدا کیا۔

  (2 اس کی دعوت کی تمام تر بنیاد تعقل و تفکر پر ہے اور وہ خصوصیت کے ساتھ کائنات خلقت کے مطالعہ و تفکر کی دعوت دیتاہے۔

 (3 وہ کہتا ہے، کائنات خلقت کے مطالعہ و تفکر سے انسان پر ’تخلیق بالحق‘ کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے؛ یعنی وہ دیکھتا ہے کہ اس کارخانۂ ہستی کی کوئی چیز نہیں جو کسی ٹھہرائے ہوئے مقصد اور مصلحت سے خالی ہو اور کسی بالاتر قانونِ خلقت کے ماتحت ظہورمیں نہ آئی ہو۔ یہاں جو چیز بھی اپنا وجود رکھتی ہے، ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ حکمتوں اور مصلحتوں کے عالمگیر سلسلہ میں بندھی ہوئی ہے۔

(4 وہ کہتا ہے، جب انسان ان مقاصد و مصالح پر غور کرے گا تو عرفانِ حقیقت کی راہ خود بخود اس پر کھل جائے گی اور جہل و کوری کی گمراہیوں سے نجات پاجائے گا۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    قرآن میں صورت آل عمران کی آیت 14 میں انسان کو درپیش dilemmas کا بیان ہے
    لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور اللہ ہی کے پاس اچھا ٹھکانہ ہے.
    قرآن انسان کی نفسیات، اس کے جبلی تقاضوں اور ان کی طرف رغبت کو address کرتا ہے، ان کو prioritize کرتا ہے اور پھر ان کو اللہ تعالی کی محبت اور یوم آخرت کے تقاضوں کے ساتھ ایک perspective میں irreversibly bind کر دیتا ہے. یہ ہے وہ ضابطہ حیات جس کی ہم بات کرتے ہیں.
    اس فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اسے مکمل آزادی ہے جیسا مرضی اپنے پوٹینشل کو استعمال میں لائے اور اپنے علم، فہم اور creativity سے اپنے رب کی دنیا کو بہتر سے بہتر، آرام دہ ، آرگنائزڈ اور خاطر خواہ بنا لے.
    جی لے اپنی زندگی ! 🙂

تبصرے بند ہیں۔