شہر المواساۃ: انفاق فی سبیل اللہ اور زکوۃ میں فرق

مصباحی ؔ شبیر

رمضان المبارک کا مبارک مہینہ ہمارے درمیان مکمل آب و تاب کے ساتھ اپنی تمام تر برکتیں نازل کئے ہوئے ہے مسلمان اس مبارک ماہ میں جہاں کثرت سے عبادت میں مشغول رہتے ہیں وہیں اس بات کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ صدقات دے کر اپنے اور اپنے پریوار کو دارین کی سعادتوں کا حقدار بنایا جائے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ ہمارے پیارے نبی نے ہمیں اس کی تر غیب اپنی زندگی میں تاکیدی طور سے دی ہے ، چنانچہ بخاری کی حدیث ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جود وسخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے  اور رمضان المبارک جبکہ جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تھے آپ کی سخاوت بڑھ جاتی تھی۔ جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ کے پاس آپ سے قرآن کریم کا ورد کرتے تھے اس وقت رسول اللہ ﷺ کی فیاضی و سخاوت نفع رسانی میں باد ِ رحمت سے بڑھ جاتی تھی۔ اور قرآن کریم میں بھی فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی تاکید بار ہا آئی ہے ایک جگہ آتا ہے کہ ’’اے ایمان والو جو رزق میں نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہا کرو قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی نہ شفاعت اور کافر ہی ظالم ہے ‘‘ (البقرہ )

اسی طرح ایک اور حدیث ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ زمانہ آئے جب تم صدقہ لے کر نکلوگے تو کوئی لینے والا نہ ملے گا اور کہنے والا کہے گا اگر تم کل آئے ہوتے تو میں لے لیتا ‘‘ ایک اور روایت ہے کہ حضرت حسن بصری بکثرت نفل روزے رکھتے تھے جس کی وجہ سے دن کو کھانے کی نوبت نہیں آتی تھی لیکن اپنے دوستوں کو ان اوقات میں کھانا کھلاتے ان کو آرام پہنچاتے اور خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے۔ اس طرح کی بہت ساری آیتیں و احادیث و روایتیں ملتی ہیں جس میں مسلمانوں کو راہ ِ خدا میں خرچ کرنے کی تاکید ہوئی ہے اور مسلمان بھی حتی المقدور اس پر عمل کرتے ہیں اور خصوصًا رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں تو خیرات و صدقات کرنے میں زیادہ ہی پہل کرتے ہیں ۔

لیکن ان سب کے بیچ ایک بات کہیں نہ کہیں کہنے کے لئے رہ جاتی ہے کہ بہت سارے مسلمان رمضان المبارک میں صدقہ فطر اور اپنے مال کی زکواۃ نکالنے کو راہ ِ خدا میں خرچ کا نام دیتے ہیں یا سمجھتے ہیں ۔ یہ بھی راہ ِ خدا میں ہی خرچ ہے اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس میں اور اصل راہِ خدا میں خرچ میں ایک بڑا اور واضح فرق ہے یہ صدقہ فطر ہو یا کہ اپنے مال کا زکواۃ نکالنا یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر فرض ہے اور اس کو تو ہمیں ادا کرنا ہی ہے اگر ہم اس کے نکالنے سے انکار کریں تو کافر ہوجائے گے۔

اصل راہ خدا میں خرچ تو وہ ہے جو آپ اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں اور یہیں وجہ ہے کہ زکواۃ و صدقات ہو ں یاعشر ہو سب کہ ایک مقدار طے ہے لیکن راہِ خدا میں جو آپ اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں اس کی کوئی مقدار طے نہیں یہ آپ کی مرضی ہے کہ آپ جتنا چاہیں خرچ کریں ۔ اور کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’ مومن کے مال میں مانگنے والے اور محروم دونوں کا حق ہوتا ہے ‘‘ اس لئے ہم مسلمانوں کو اس بنیادی فرق کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ چونکہ ماہ ِرمضان کو ماہِ مواساۃ یعنی ہمدردی کا مہنیہ بھی کہا جاتاہے اس لئے حقیقی ہمدردی اس وقت ہی ہوسکتی ہے جب آپ اپنی طے شدہ مقدار کے علاوہ سے خرچ کرتے ہیں اگر آپ اپنی مقدار کی زکواۃ ہی ادا کر کہتے ہیں کہ ہم نے صدقہ کیا ہے تو ایک طرح سے ا پنا فرض نبھا کر سخی کہلانے کے مترادف ہو گا۔ اور ایک بات کا خیال رہے کہ صدقہ یا فی سبیل اللہ خرچ کرتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ حتی الامکاں اس کا اعلان نہ ہو کہ صدقہ وہ افضل ہوتا ہے جو ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔

اس لئے اگر اس ماہ کی سعادتوں سے اگر آپ حقیقی طو ر سے لطف اندوزہونا چاہتے ہیں تو سائلوں پر خوب خرچ کریں تاکہ آپ اور آپ کے پریوار کی بھلائی کیلئے وہ سرمایہ آخرت بن جائے۔ اور سب سے بہتر ہوگا اگر آپ اپنے قریبی یا پڑوسی جو اس کا واقعی حقدار ہے پر فی سبیل اللہ خرچ کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہِ خدا میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

تبصرے بند ہیں۔