ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا روایت اسلامی کے خلاف

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

ماہ صفر المظفرکی آمد کے ساتھ ہی بعض مسلم گھرانے بالخصوص خواتین عجیب و غریب توہمات، رسومات اور خرافات میں مبتلا ہوجاتی ہیں اکثر یہ گمان کیا جاتا ہے کہ اس ماہ کی تیرہ تاریخ نحوستوں سے پُر ہے جو بالکل غیر اسلامی اور ساقط الاعتبار نظریہ ہے۔ ہماری یہ سونچ انتہائی معیوب اور ضعیف الاعتقادی کی مظہر ہے۔ مفسر قرآن علامہ سید محمود آلوسی نے دلائل و براھین کے ساتھ اس باطل نظریہ کی سختی سے تردید فرمائی ہے (روح المعانی) اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے انسان دھر (زمانہ) کو برابھلا کہکر مجھے تکلیف پہنچاتا ہے چونکہ زمانہ تو میں خود ہوں (بحوالہ بخاری شریف) چونکہ دھر میں قھر اور غلبہ (جو خالق کائنات کی خاص صفت ہے) کے معنی پائے جاتے  ہیں ( بحوالہ مقائیس اللغۃ لابن الفارس) اسی لیے اللہ تعالی نے اپنی ذات کو دھر قرار دیا اور زمانہ کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا۔ واضح باد کہ جز کو برا کہنا کل کو برا کہنے کو متضمن ہے جیسا کہ ہم ماہ صفر کو کہتے ہیں چونکہ زمانہ تشکیل پاتا ہے دن، ماہ اور سال سے گویا ان تینوں میں سے کسی ایک کو برا کہنا زمانہ کو برا کہنے کے مترادف ہے۔ صاحب فتح الباری، شارح بخاری الحافظ شہاب الدین ابو الفضل احمد بن علی بن محمد المعروف ابن حجر العسقلانیؒ (733-852ھ م 1372-1448ء) کے شاگرد رشید محدث، فقیہ، مورخ اور سلسلہ شاذلیہ کے صوفی منش بزرگ علامہ شمس الدین محمد ابن عبدالرحمن السخاوی (831-902 ھ م 1428-1497ء) ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ عرب ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم کو انتہائی مبارک و مسعود مہینے مانتے اور ان کا حد درجہ احترام کرتے اسی لیے وہ ان مہینوں میں لوٹ مار، قتل و غارتگیری وغیرہ سے رکے رہتے لیکن جیسے ہی ماہ صفر کا آغاز ہوتا وہ ان سفاکانہ و ظالمانہ کارروائیوں اور غیر انسانی افعال میں مشغول ہوجاتے (جس کی وجہ سے عموماً ان کے گھر خالی ہوجاتے تھے اسی لیے اس مہینے کا نام صفر پڑ گیا۔

لسان العرب لابن المنظور) چونکہ اس ماہ میں عوام الناس کو کثیر نقصانات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا تھا اسی لیے ان لوگوں نے ماہ صفر کو منحوس تصور کرلیا، بجائے اس کے کہ وہ لوگ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے اور اس کو سدھارنے کی کوشش کرتے (اسماء الایام والشہور)۔ ماہ صفر کو منحوس سمجھنا یا یہ گمان کرنا کہ اس ماہ میں کثرت سے بلائیات کا نزول ہوتا ہے نہ نقلاً ثابت ہے اور نہ ہی عقلاً اسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ ہجری تقویم یعنی اسلامی کیلنڈر کے دوسرے مہینہ کا نام صفر ہے جس کی صفت المظفر بیان کی گئی ہے جس کے معنی فتح و ظفریابی کے ہیں جب کہ نحوست شقاوت و بدبختی اور ناکامی و نامرادی کا سبب ہوتی ہے اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ دو متضاد چیزیں باہم جمع نہیں ہوسکتیں۔ مثلاً اگر ایک انسان صفت بیان کرتے ہوئے کہا جائے کہ وہ طویل القامت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پستہ قد نہیں ہے بیک وقت یہ دو صفات کسی انسان میں پائے جائیں محال ہے۔ صفر کے لغوی معنی خالی کے ہیں عرب قبائل ماہ محرم میں جنگ سے باز رہتے اور جیسے ہی ماہ صفر کا آغاز ہوتا جنگ و جدال، لوٹ کھسوٹ کے لیے نکل پڑتے اس طرح ان کے گھر خالی ہوجاتے اسی لیے اس مہینہ کو صفر کہا جاتا ہے۔

چونکہ ظلم و زیادتی اس ماہ میں عروج پر ہوتی جس کی وجہ سے لوگوں کو بھاری نقصانات برداشت کرنے پڑتے اسی لیے وہ لوگ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے جیسے آج کے لوگ ماہ ستمبر کو ستمگر گمان کرنے لگے ہیں چونکہ اسی ماہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور ہندوستانی پارلیمان پر دہشت گرد حملہ ہوا تھا۔ جبکہ حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ATM اسی ماہ میں معرض وجود میں آیا تھا جس بے پناہ سہولیات سے کئی لوگ آج استفادہ کررہے ہیں۔ دنیا کی مشہور جامعہ ہارورڈ یونیورسٹی اسی ماہ میں قائم کی گئی تھی جس سے کئی تشنہ گانِ علم اپنی علمی پیاس بجھارہے ہیں۔ اسی ماہ کی 5 تاریخ کو ہندو ستان میں یوم اساتذہ منایا جاتا ہے جن کی مخلصانہ کاوشوں کے باعث علم و تحقیق میں نئے ابواب رقم ہورہے ہیں اور علم کو فروغ مل رہا ہے۔ تو اس ماہ کو کیسے منحوس سمجھا جاسکتا ہے؟۔ صفر کے دوسرے معنی پیلے رنگ کے ہیں چنانچہ صفر ان کیڑوں کو بھی کہتے ہیں جوجگر اور پسلیوں میں تخلیق پاتے ہیں جس کے باعث انسان کے جسم کا رنگ پیلا ہوجاتا ہے جسے عرف عام میں عرقان کہتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اس مہینہ کا نام صفر اس لیے رکھا گیا ہے چونکہ جب مہینوں کے نام تجویز کیے جارہے تھے تو اس وقت یہ مہینہ خزاں کے موسم میں آیا تھا جس میں پتے زرد پڑجاتے ہیں اسی لیے اس ماہ کو صفر سے موسوم کیا گیا۔ زمانہ جاہلیت میں ماہ صفر کو لوگ مختلف وجوہات سے منحوس سمجھتے تھے بعض لوگوں کا یہ ایقان تھا کہ ماہ صفر میں آسمانی بلائیات اور دنیوی مصائب کثرت سے واقع ہوتی ہیں جبکہ یہ سونچ سرار خرافات و نامعقولیت پر مبنی اور بالکل غیر اسلامی ہے چونکہ حضرت سیدنا جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے محبوب کردگارﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ماہ صفر کو بیماریوں، برائیوں اور نحوستوں کا مہینہ سمجھنا غلط ہے (مسلم )۔

اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت یا دوری کے سبب آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں بعض ضعیف الایمان لوگ ایسے بھی ہیں جو ان فرسودہ رسومات، مشرکانہ توہمات اور عقائد باطلہ کا شکار نظر آتے ہیں چنانچہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ماہ میں انجام دی جانے والی شادی کامیاب نہیں ہوتی، اس ماہ میں شروع کردہ تجارت نفع بخش ثابت نہیں ہوتی، اس ماہ کے پہلے تیرہ دن بالخصوص تیرہ تاریخ بدبختیوں، تکلیفوں اور نحوستوں سے مملو ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ فکر درایت اسلامی کے اس لیے خلاف ہے چونکہ حضرت سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے رسول محتشمﷺ نے ارشاد فرمایا مسلمانو! اللہ تعالی نے اس دن (یعنی جمعہ) کو تمہارے لیے عید کا بن بنایا ہے۔ (طبرانی، مجمع الزوائد) اور ایک روایت حضرت اوس بن اوس ثقفیؓ سے مروی ہے تاجدار کائناتﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص صدق دل اور حسن نیت کے ساتھ جمعہ کے لیے جتنے قدم چل کر آتا ہے اسے ہر ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں کا ثواب اور ایک سال کی راتوں کی عبادت کا ثواب ملتا ہے۔ (ابو دائود)

مریض کی عیادت کرنے کی فضیلت کے باب میں حضرت علیؓ سے ایک حدیث شریف مروی ہے تاجدار مدینہﷺ فرماتے ہیں جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اُس کے لیے شام تک رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور جو شام کے وقت عیادت کرتا ہے اُس کے لیے ستر ہزار فرشتے صبح تک رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ (ترمذی ) اب اس امر پر غور فرمایے کہ جمعہ کا دن یا مریض کی عیادت کے لیے جانا مہینہ کی کسی بھی تاریخ میں ہوسکتا ہے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ کسی سال جمعہ کا دن ماہ صفر کی تیرہ تاریخ کو واقع ہوجائے یا ہم اسی تاریخ کو مریض کی عیادت کرنے کے لیے جائیں اور محولہ بالا احادیث نبویﷺ کی روشنی میں جمعہ مومنین کے لیے عید کا دن، گناہوں سے بحشائش اور حصول حسنات کا سبب اور مریض کی عیادت رحمت و مغفرت کی وجہ ہے توماہ صفر کی تیرہ تاریخ کیسے منحوس قرار پاسکتی ہے؟ بطور تمثیل پیش کیے گئے ان دلائل سے یہ بات اظہر الشمس ہوجاتی ہے کہ نحوستوں کا تعلق کسی لمحہ،دن، ماہ، سال، شخصیات، زمان و مکان سے ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ تو شامت اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اسی لیے دین اسلام ہر اس عمل کی شدت سے مخالفت کرتا ہے جس کی اساس اندھی تقلید اور توہم پرستی پر ہو۔ مسلمان کسی چیز کو اس لیے منحوس نہیں سمجھ سکتا چونکہ یہ امر روحِ تصور توحید کے بالکل مغائر و منافی ہے۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے رحمت عالمﷺ ارشاد فرماتے ہیں کسی چیز کو منحوس سمجھنا شرک ہے۔ (سنن ابی دائود،)

گیارہویں صدی ہجری کے مشہور مفسر، محدث اور فقیہ حضرت علی بن سلطان محمد القاری المعروف ملا علی قاری (1014/1605) اس حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ بندے کا مشیت الہی کے بغیر کسی چیز کوبذات خود اثر انداز ہونے کے قابل سمجھنا شرک ہے اور کسی چیز کو منحوس سمجھنا بھی اسی قبیل سے ہے۔ (مرقآۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح)

ماہ صفر کو بندہ مومن اس لیے بھی منحوس نہیں سمجھتا چونکہ اُس کا اس بات پر کامل ایقان و بھروسہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالی کسی بندے کو نفع پہنچانا چاہے تو ساری کائنات مل کراسے نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ اسی طرح اگر اللہ تعالی کسی بندے کو نقصان پہنچانا چاہے تو دنیا کی ساری طاقتیں مل کر اسے نفع نہیں پہنچاسکتیں۔ اگر کسی انسان کی حفاظت پولیس یا فوج کا حفاظتی دستہ کررہا ہو تو اس شخص کو کوئی بھی اس وقت تک گزند نہیں پہنچاسکتا جب تک وہ حفاظتی دستہ کی نگرانی میں ہو۔ یہ کتنی احمقانہ سونچ ہوگی کہ ایک طرف ہم اپنے کامل ایقان کا اظہار کریں کہ جس کی حفاظت مسلح افواج کرے تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا تو دوسری طرف توہم پرستی کا شکار ہوکر یہ عقیدہ رکھیں کہ نحوستیں اس شخص کو ضرر پہنچاسکتی ہیں جس کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ربِ کائنات ہے۔ مصائب و آلام، آفات و مشکلات انسان کی بداعمالیوں کی وجہ سے آتی ہیں نہ کہ کسی ماہ و سال کے سبب۔

نحوستیں تو ذاتی رنجشوں، خاندانی چپقلش، معاندانہ جذبات، کذب و جدل، بزدلانہ حسد، کینہ پروری، مکر و فریب، شدید احساس کمتری، فطری ذلالت، شیطانی مزاج، ظلم و جبر، شرپسندی، فتنہ پردازی، کفر و عصیاں، سوقیانہ مخالفت، غیبت، بہتان طرازی،طنز و تشنیع کی وجہ سے آتی ہیں۔ اگر معاشرے کو حقیقتاً ان نحوستوں سے پاک کرنا ہے تو ہمیں ماہ و سال کو برا سمجھنے کے بجائے خدا اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی سے اجتناب کرنا پڑے گا، اسلامی تربیت کے خطوط پر اولاد کی پرورش کرنی پڑے گی، حسنِ سلوک کو عام کرنا پڑے گا، جذبۂ ایثار وقربانی کو فروغ دینا پڑے گا، غربا و مساکین کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنا پڑے گا، کفر و الحاد اور مذہب بے زاری کے بڑھتے ہوئے طوفان کو روکنا پڑے گا، کشت و خون اور جنگ و جدال کے خلاف سینہ سپر ہونا پڑے گا، صلح اور باہمی مفاہمت کے جذبہ کو پروان چڑھانا پڑے گا، دنیا داری اور غیر شرعی امور سے اپنے دامن کو پاک کرنا پڑے گا، عریانی و فحاشی کے خلاف صف آرا ہونے پڑے گا، فتنہ و فساد کی روش ترک کرنا پڑے گا، مغربی تہذیب و ثقافت کی اندھی تقلید سے نوجوان نسل کو بچانا پڑے گا، افعال و اعمال کا جائزہ لینا پڑے گا، زندگی کے ہر لمحہ کا محاسبہ کرنا پڑے گا، اتحاد و اتفاق کا عملی مظاہرہ کرنا پڑے گا، رنگ و نسل، حاکم و محکوم کے باطل امتیازات کو مٹانا پڑے گا، اخوت و بھائی چارگی کی فضا قائم کرنی پڑے گی۔ ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی اس منفی سونچ کو بدلنے کے لیے ہم پر لازم ہے کہ روحِ ایمان کو تقویت دیں اور دلوں میں خدا پر توکل و اعتمادکو پیدا کریں۔

تعلیماتِ اسلامی سے ناآشنائی، احکامات الہیہ و مصطفویہﷺ کی خلاف ورزی، اعمال صالحہ سے دوری، دولتِ اخلاص سے محرومی اور ایمان و یقین کی کمزوری ایسے مہلک اسباب ہیں جس سے نحوست پروان چڑھتی ہے۔ آج شیطان دنیا کو گلیمرس ٹی وی سیریلز، دلکش لہو و لعب (گیمس و اسپورٹس) پتنگ بازی اور آتش بازی کی شکل میں مزین بناکر ہمارے سامنے پیش کرکے ہمیں راہ راست سے ہٹانے کی کوشش کررہا ہے اور ہم ان لعنتوں میں مکمل طور پر گھرتے جارہے ہیں، نوجوان نسل پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، انہیں اغیار کا طور طریق اور لٹریچر پسند آرہا ہے اور وہ آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات سے دور ہو رہے ہیں۔ انتہائی تکلیف اور افسوس کے ساتھ یہ بات سپرد قلم کرنا پڑرہا ہے کہ نئی نسل کی اکثریت تفہیم قرآن و حدیث تو درکنار صحیح مخارج کے ساتھ تلاوت قرآن مجید کرنے سے بھی قاصر ہے۔ جبکہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم پوری طرح اسلام میں داخل ہوجائیں اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ہم اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر آشنا نہ ہوجائیں۔ دینی کتب کے مطالعہ کی بجائے ٹی وی سیریلز دیکھنے میں ہمارا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے۔ کیا ہمارا یہ عمل نحوست پر مبنی نہیں ہے؟ پیر طریقت حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی مد ظلہ سجادہ نشین درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانیؒ محققؔ امام پورہ شریف ارشاد فرماتے ہیں ’’ارکان اسلام یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو دین متین نے وقت سے مشروط و مربوط رکھا ہے تاکہ مسلمان عبادت کے ساتھ وقت کی اہمیت سے ہمیشہ واقف رہیں۔ وقت کی ناقدری اور اس زریں اصول سے مکمل انحراف و بے اعتنائی کا ہی وبال ہے کہ آج امت ہر میدان میں کسمپرسی کا شکار ہے‘‘۔ دیگر ارکان اسلام کے مقابل نماز اور حج میں وقت کو زدیادہ دخل ہے اسی لیے رحمت عالمﷺ نے وقت پر نماز ادا کرنے کو ’’افضل الاعمال‘‘ (ابن ماجہ، دارمی، الادب المفرد) اور حج مبرور کو ’’افضل الجھاد‘‘ قرار دیا ہے (بخاری بحوالہ شرح ابن بطال)۔

حج میں وقت کو بڑی اہمیت حاصل ہے اگر کوئی رکن وقت پر ادا نہ ہونے کی وجہ سے متروک ہوجائے تو دم (قرانی کرنا) لازم آتا ہے اور اگر کوئی عازم حج عرفہ کے دن میدان عرفات میں قیام سے محروم رہا تو حج کی سعادت سے ہی محروم ہوجاتا ہے۔ یہ ہے وقت اور اس کی اہمیت! انٹرنٹ، موبائیل فونس، سیٹلائٹس چینلس، ای۔ ٹنڈرس، ویڈیو کانفرنسنگ، ٹیلی ایجوکیشن، آن لائن تجارت و تعلیمی کورسس، ہمہ مقصدی زیراکس، فیکس، پرنٹرس، اے۔ ٹی۔ ایم کارڈس، ای سیوا سنٹرز، طبی و پیداواری تکنیکی آلات اور لیپ ٹاپ وغیرہ کے استعمالات پر ہم ذرا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کے بیشمار فوائد ہیں لیکن جو سہولت ان اشیاء میں قدر مشترک ہے وہ ’’وقت کی بچت‘‘ ہے آج دنیا وقت کی اہمیت سمجھ رہی ہے اور ترقی کے زینے طئے کرہی ہے لیکن صد افسوس جس امت کو ارکان اسلام کے ہر رکن کی ادائیگی کے ساتھ وقت کی اہمیت کا احساس دلایا گیا وہ اپنا قیمتی وقت لایعنی کاموں اور سیریلیز بینی میں گنوارہی ہے یہی وجہ ہے کہ ناکامی، نامرادی، قلبی بے چینی، ذہنی تکالیف، اضطرابی کیفیت اور بدحالی ہماری زندگی کا حصہ بنتے جارہے ہیں اور اسی چیز کو نحوست کہتے ہیں۔ اگر ہمیں واقعی نحوست کو دور کرنا ہے تو ہم پر لازم ہے کہ ہم وقت کی اہمیت کو سمجھیں اور ہمیشہ اس کا صحیح مصرف تلاش کرنے کی جستجو و کوشش کرتے رہیں۔ نحوست کا دوسرا اہم سبب شریعت مطہرہ کی خلاف ورزی ہے جبکہ ہماری حقیقی کامیابی و کامرانی احکامات اسلام پر عمل آوری سے وابستہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور نہ (تو) ہمت ہارو ا ور نہ غم کرو اور تمہیں سربلند ہوگیے اگر تم سچے مومن ہو‘‘ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 139) لیکن ہماری ذہنی و اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ راہ ہدایت کو چھوڑ کر خرافاتی اعمال میں اپنی اقبال مندی تلاش کررہے ہیں۔ بتاریخ 1.11.11 بوقت 11 بجے یا ان جیسی تواریخ و اوقات میں ہونے والی ولادت کو ہم نے اپنے اور اپنی اولاد کے حق میں خوش آئند بات اور خوش قسمتی کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔ جب کوئی قوم ایسے باطل افکار میں مبتلا ہوجاتی ہے تو نحوست کا آنا یقینی ہے۔ نحوست کا تیسرا اہم سبب ہماری بداعمالیاں ہے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ’’پس چکھو عذاب بوجہ اس کے جو تم کیا کرتے تھے‘‘ (سورۃ الاعراف آیت نمبر 39)

یعنی جب انسان برے اعمال اختیار کرتا ہے تو وہ آسمانی خیرات و برکات اور انعامات و اکرامات کی نوازشوں سے محروم ہوجاتا ہے اور بلائیات و مشکلات کے عذاب یعنی نحوست میں پھنس جاتا ہے۔ آج ہم نحوست کو دور کرنے کے لیے سفلی عملیات اور نام نہاد عاملوں کے چنگل میں پھنس کر دنیا و آخرت تباہ و تاراج کر رہے ہیں۔ جبکہ قرآن حکیم نے نحوست کو دور کرنے اعمال صالحہ اختیار کرنے کا آسان طریقہ بتایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’بیشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں برائیوں کو‘‘ (سورۃ الھود آیت نمبر 114) اگر ہم واقعی اپنے گھروں سے نحوست کو دورکرنا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے اور اہل و عیال کے اندر جذبۂ خیرات و حسنات کو مسابقتی  حد تک فروغ دیں تاکہ برائیوں (نحوست) کو پنپنے کا موقع ہی نہ ملے۔ نحوست کا چوتھا اہم سبب یہ ہے کہ آج ہماری عبادتیں خلوص، للہیت اور یقین کی نعمت سے عاری ہوتی جارہی ہیں جبکہ ہماری دائمی خوشحالی اور ابدی سعادتمندی کا انحصار انہی عناصر پر ہے۔ رب ذو الجلال ارشاد فرماتا ہے ’’پس شامل ہوجائو میرے (خاص) بندوں میں اور داخل ہوجائو میری جنت میں ‘‘ (سورۃ الفجر آیت نمبر 30) اللہ کے خاص بندے وہی ہوتے ہیں جو خلوص و یقین کا پیکر ہوتے ہیں اور ان پاکباز ہستیوں کا ٹھکانہ جنت ہوگی جہاں ان کی ہر آرزو و تمنی پوری کی جائے گی۔ یعنی اخلاص و نیازمندی سے کی جانے والی عبادت کے فیوض و برکات اور انوار و تجلیات سے حسرت و یاس (یعنی نحوست) کے اثرات زائل ہوجاتے ہیں اور کامیابی، کامرانی اور اقبال مندی بندہ کا مقدر بنجاتی ہے جس کی تلاش میں آج ساری انسانیت سرگرداں ہے۔ ہم اسلامی تعلیمات کے محاسن سے واقف ہیں لیکن عمل نداردجبکہ دین متین میں معلومات سے زیادہ عمل کی ضرورت و اہمیت ہے۔ رحمت عالمﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’قلیل من التوفیق خیر من کثیر من العلم‘‘ یعنی تھوڑا عمل کثیر معلومات سے بہتر ہے۔ (احیاء علوم الدین بحوالہ مغنی المحتاج للشیخ شمس الدین محمد بن الخطیب)۔

اگر ہم صوفیائے کرام کی مبارک زندگیوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ مبارک ہستیاں اپنی خانقاہوں میں مذکور بالا امور پر مشق کروایا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ مادی ترقی نہ ہونے کے باوجود خوشحالی، اطمینان قلبی اُن ادوار کا خاصہ رہا ہے لیکن چونکہ آج ہم نے محنت شاقہ اور سخت مجاہدات کی بجائے خرافاتی اعمال اور تن آسانیوں کو اسرار و رموز تصوف کا نام دے رکھا ہے جس کے باعث خانقاہی نظام تقریباً معطل و مفلوج ہوکر رہ گیا ہے اسی لیے ترقی کے تمام تر مواقع میسر ہونے کے باوجود آدمی انسانیت کو ترس رہا ہے۔ عامۃ المسلمین خصوصاً دختران ملت اگر نحوست سے چھٹکارا پانا چاہتی ہیں تو مذکورہ بالا امور پر توجہ مرکوز کریں اور عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں تعلیمات اسلامی پر صدق دل اور خلوص نیت کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

تبصرے بند ہیں۔