مدارس کی چہار دیواری میں اسلام کا نفاذ کیجیے

رفیع اللہ قاسمی

یا أيها الذين آمنوا ادخلوا في السلم كافه ولا تتبعوا خطوات الشيطن إنه لكم عدو مبين. اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاو، اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو، یقینا یہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔(البقرہ: آیت 208)

اسلام ایک پسندیدہ اور آخری نظام زندگی ہے جس پر عمل؛ سکون و اطمینان اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتا ہے۔ اسلام کا نفاذ انفرادی و اجتماعی، جسمانی و روحانی، سماجی و سیاسی ہر طرح نہ کہ صرف مطلوب ہے بلکہ عدم نفاذ ہی کا یہ انجام ہے کہ ہمارے علماء، ہماری تنظیمیں، ہماری مساجد اور ہمارے مدارس وہ اثرات کھو چکے ہیں جو ان سے مقصود تھا اور آئندہ نہ جانے اسلام کے عدم نفاذ کےجو نقصانات ہیں وہ کہاں کہاں تک اپنا اثر دکھائیں گے؟ اسلام ایک فطری نظام کا نام ہے۔ اور یہ نظام آفاقی ہے۔ کسی ذہین سے ذہین انسان کی بس میں نہیں ہے کہ وہ دنیا کے تمام  کونے میں بسنے والے افراد کے لئے یکساں نظام مرتب کر سکے۔ کیونکہ سارے افراد کی طبعیات و خصوصیتات الگ الگ ہیں۔  ہر علاقے کی ضروریات مختلف ہیں۔ ان سب کی شناخت اور مکمل ادراک کسی انسانی طاقت سے باہر ہے۔ بارہا اس کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ کسی مسئلے میں ایک گھر اور خاندان کی رائین بھی یکساں نہیں ہو پاتیں تو اگر اسلامی نظام کسی انسان کی ترتیب ہوتا تو اتنا اتفاق کیسے ممکن تھا؟ بہر حال اسلامی احکام تین طریقے کےہیں۔ ایک وہ احکام جن کے نفاذ کی ذمہ داری انفرادی طور پر افراد سے متعلق ہے۔ دوسرے وہ احکامات جن کا نفاذ اجتماعی طور پر سب سے متعلق ہے۔ تیسرے وہ احکامات جن کے نفاذ کی ذمہ داری حکومت وقت کی ہوتی ہے جیسے حدودو قصاص۔ اسلام کے نفاذ کا آغاز اپنے ضمیر سے ہو۔ اسلام اتنا آسان ہے کہ کوئی فرد انفرادی احکام والے اجزاء پر عمل کرنا چاہے تو کسی ملک کی کوئی طاقت نہ روک سکتی ہے اور نہ ہی روک رہی ہے۔ اسلام کا وہ کون سا حکم ہے جس پر عمل کرنے سے آپ کو کوئی فرد روک رہا ہو؟ اسلام میں وہ خفیہ طاقت ہے کہ جب یہ  اپنی اصل روح کے ساتھ  کسی میں داخل ہوتا ہے تو اس کو پہاڑ جیسا مضبوط بنا دیتا ہے اور دنیا کی متاع زیست کو ہیچ بنا دیتا ہے۔ اسلام کا وجود اپنی اصل روح کے ساتھ کتنوں میں آج پایا جاتا ہے اس کا ادراک بہت مشکل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسلام کا وجود ہی موقوف ہو گیا ہے۔ اجتماعی طور پر بھی اسلام کا نفاذ مطلوب ہے چاہے وہ گھر ہو، مسجد ہو، محلہ ہو،بازار ہو، مدرسہ ہو یا اسلامی تنظیمیں ہوں۔ ہر جگہ اسلامی نظام کا نفاذ اس ادارے یا تنظیم کی کامیابی کا اہم ذرہعہ ہوگا۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 208 میں اسی بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اسلام میں دخول بالتام ہونا چاہیئے۔ ایسا نہ ہو کہ جس پر چند لوگوں کی نگاہ ہو وہاں اسلام اسلام کی پکار لگائی جائے اور جو گوشے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوں وہاں انا انا کی پکار لگائی جائے۔ زبان پر اسلام اسلام ہو اور قلب میں جلب منفعت اورذاتی مفاد کی حرص رچی بسی ہو۔ اسلامی تعلیمات کے عام کرنے میں پوری پوری زندگیاں کھپا دینے والے لوگوں کی خود کی زندگیاں اس طرح کے اختلافات سے دوچار ہوں۔ قومی مفاد پر ذاتی، خاندانی، نسبی و صلبی مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہو۔

اسلامی نظام کے نفاذ میں   مدارس کا خود اپنی چہار دیواری میں کیا رول ہے؟ کیا مدارس اسلامی نظام اپنائے ہوئے ہیں؟ ذیل میں اسی عنوان سے مدارس کا جائزہ لیا جائےگا۔

1 ۔ شورائیت کا نظام

چند امہات المدارس کے علاوہ بیشتر مدارس کا حال یہ ہے کہ وہاں ناظم اور مہتمم کے انتخاب میں شرعی اصولوں پر عمل ندارد ہے۔ اسلام میں ذمہ داران کے انتخاب میں دو طرح کے اسوہ پائے جاتے ہیں۔ ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ اول کے انتخاب کو امت پر چھوڑ دیا۔ دوسرا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسوہ کہ آپ رضی اللہ عنہ نے اگر کسی فرد واحد کی تشخیص کردی تو وہ خاندان سے نہیں تھا۔ ان دو طریقوں کے علاوہ تیسرا طریقہ جو بہت سے مدارس اسلامیہ میں رائج ہے کہ موروثی طریقے سے ناظم اور مہتمم کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ باپ کے بعد بیٹا یہ طرز انتخاب اسلامی روح کے منافی ہے۔ اسی طرح اساتذہ کے انتخاب میں قابلیت اور صالحیت کو بنیاد نہ بناتے ہوئے رشتہ داری، کم سے کم تنخواہ پر کام کرنے پر رضامندی اور زیادہ سے زیادہ چندہ جمع کرنے کی صلاحیتوں کی بنیاد پر اساتذہ کا انتخاب طلبہ اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔

2۔ مالی دیانت داری

جن باب میں مالی دیانتداری نہیں برتی جاتی وہاں حلال و حرام کا گڈ مڈ ہو جانا یقینی ہے۔ مدارس میں مالی خیانت بھی بہت عام ہے۔

 نظماء کا معیار زندگی دیگر اساتذہ سےکہیں بہتر ہوتا ہے۔ چندہ اصولی میں دھوکہ دہی عام ہے۔ چندہ اصولی کے وقت زکوة اور عطیات کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا ہے جبکہ ان کے مصارف الگ الگ ہوتے ہیں۔ غیر مستحق مدارس بھی خوب بلا کسی امتیاز کے خوب چندہ کرواتے ہیں۔ مدارس کے درو دیوار پر زیادہ اوربچوں کے کھانے پینے اور تعلیم و تربیت پر  کم خرچ کیا جاتا ہے۔ اساتذہ کی تنخواہیں بہت معمولی ہوتی ہیں۔ نظماء کی کوئی متعین تنخواہ نہیں ہوتی۔ مستحقین بچوں کے وظیفے سے مدارس کے نظماء کا زبر دستی ڈرا دھمکا کر کچھ رقم مدارس کے فنڈ میں جمع کر وا لینا۔ یہ سب مالی خیانتوں کی مثالیں ہیں جن کی وجہ سے ہی بیشتر مدارس کا سالانہ بجٹ بھی خسارے کا شکار رہتا ہے۔

3۔ نماز کا اہتمام

ظاہر ہے نماز کی اہمیت و فضیلت کا درس مدارس سے زیادہ کہیں اور نہیں دیا جاتا۔ لیکن غفلت بھی اتنی ہی برتی جاتی ہے۔ نماز کے باب میں چھوٹے اور بڑے مدارس کے درمیان تھوڑا سا فرق ہے۔ عام طور پر چھوٹے مدارس میں بچے نماز کی پابندی کرتے ہیں اور اساتذہ غفلت برتتے ہیں جبکہ بڑے مدارس میں عموما اساتذہ پابندی کرتے ہیں اور طلبہ غفلت برتتے ہیں۔ طلبہ مدارس میں نماز کی پابندی نہیں  کرتے تو یہی عادت بنی رہتی ہے اور فارغ ہو کر عملی میدانوں میں جب قدم رکھتے ہیں تو یہاں بھی یہ کوتاہی سرزد ہوتی رہتی ہے۔

4۔ اخلاقی تعلیمات

اخلاق و کردار کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے اخلاق بہتر ہوں۔ مدارس میں اخلاقی تربیت کا شعبہ بھی کمزور ہی رہتا ہے جس کہ وجہ سے فضلاء مدارس کی زندگیوں میں بارہا اخلاقی کمزوریوں کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، چابلوسی، حسد و کینہ مدارس کے صرف طلبا ہی میں نہیں بلکہ اساتذہ کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔

5۔ مدارس میں باہم عدم اتفاقی

مدارس سے زیادہ اور کہیں اتحاد و اتفاق کا درس نہیں دیا جاتا لیکن خود ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ باہم خود ایک دوسرے سے مربوط نہیں ہوتے۔ ایک مدرسے کا دوسرے مدرسے سے کوئی ربط ضبط نہیں رہتا۔ اہم مسائل میں بھی باہم کوئی گفت و شنید نہیں ہوتی۔ یہی طبیعت ان مدارس کے پروردہ طلبہ کا بھی ہوتا ہے کہ جب یہ عملی میدانوں میں آتے ہیں تو ان کا تعلق عوام اور پبلک سے بہت کم ہوتا ہے۔ ان میں سچ کو سچ کہنے کی جرات بہت کم ہوتی ہے۔ سب کو خوش رکھنے کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے۔

مدارس اسلامیہ دینی قلعے ہیں۔ انھیں دینی اعتبار سے بہت مضبوط ہونا چاہیئے۔ جتنا زیادہ اسلامی نظام اور تعلیم وتربیت میں یہ مدارس اکمل ہوں گے اتنا ہی ان کے پروردہ طلبہ میں عملی پختگی پیدا ہوگی اور قوم و عوام کے سامنے ثابت قدمی کے ساتھ اسلام کو پیش کرنے کے اہل ہونگے۔

تبصرے بند ہیں۔