ئمہ مساجد کچھ مخصوص سورتیں نمازوں میں کیوں بار بار دہراتے ہیں؟

حامد محمود راجا

 ائمہ مساجد پر کیے جانے والے اعتراضات میں سے ایک بے بنیاد اور غیر منطقی اعتراض یہ بھی ہے کہ ائمہ مساجد کچھ مخصو ص سورتیں نمازوں میں باربار کیوں دہراتے ہیں۔ سوال کا مدلل جواب حاضر ہے :

(11) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جا اور مدینہ میں یہ اعلان کر دے کہ قرآن کے بغیر نماز درست نہیں اگرچہ سورت فاتحہ ہی ہو یا اس کے علاوہ کچھ اور۔ (سنن ابوداؤد: جلد اول: حدیث نمبر 816) اس کے علاوہ دیگر متعدد احادیث میں بھی سورة فاتحہ کو ہر نماز میں پڑھنے کا حکم فرمایا گیا ہے لہذا سورة فاتحہ کو مشرق و مغرب کے تمام مسلمان ہر نماز میں دہراتے ہیں۔

(22) حضرت معاذ بن عبداللہ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ جہینیہ کے ایک شخص نے ان کو بتایا کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز فجر کی دونوں رکعتوں میں سورت اذا زلزلت الارض الخ (سورةالزلزال) پڑھتے ہوئے سنا ہے لیکن مجھے معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (دو بار ایک ہی سورت) بھول کر پڑھی ہے یا جان بوجھ کر۔ ( سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 813)

(33)حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو تعلیم فرمایا کہ عشاءکی نماز مین سورة والشمس وضحھا ، سورة الضحی ، سورة اللیل اور سبح اسم ربک الاعلی پڑھا کرو۔ (صحیح بخاری و مسلم بحوالہ اسوہ رسول اکرم ص 174)
(44)حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ کی نماز میں سبح اسم ربک الاعلی اور ھل اتٰک حدیث الغاشیہ پڑھا کرتے تھے اور عید و جمعہ دونوں ایک دن جمع ہو جاتے تو دونوں نمازوں میں یہی دو سورتیں پڑھتے۔( صحیح مسلم بحوالہ اسوہ رسول اکرم ص 174)

(55)سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری مسجد قبا میں نماز کی امامت کے فرائض سر انجام دیا کرتے تھے، تو وہ نماز میں جس سورت کی بھی قرا ت کرنا چاہتے تو اس سے پہلے ( قل ھو اللہ احد ) ضرور پڑھتے، حتیٰ کہ اس سورت کی قرا ت سے فارغ ہو کر پھر کوئی دوسری سورت پڑھتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کیا کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے اس سلسلے میں ان سے بات کی کہ آپ اس سورت کو شروع کرلیتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کافی نہیں جس کی وجہ سے آپ کوئی دوسری سورت بھی پڑھتے ہیں ، لہٰذا یا تو اسی سورت پر اکتفا کیجیے، یا پھر اسے چھوڑ دیجیے اور اس کے بجائے کوئی دوسری سورت پڑھ لیا کریں ۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں اس سورت کو ضرور پڑھوں گا، اب اگر تمھیں پسند ہے کہ اس سورت کے ساتھ میں تمھیں امامت کرواؤں تو میں کرواتا ہوں اور اگر تمھیں پسند نہیں تو میں نماز پڑھانا چھوڑ دیتا ہوں ۔ لوگ انھیں اپنے میں سے افضل سمجھتے تھے، لہٰذا انھوں نے اس بات کو پسند نہ کیا کہ ان کے سوا کوئی اور نماز پڑھائے، جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لے گئے تو انھوں نے آپ کی خدمت میں اس بات کا ذکر کیا تو آپ نے اس سے فرمایا : ” اے فلاں ! تمھارے ساتھی جو کچھ کہتے ہیں ، تم اس کے مطابق عمل کیوں نہیں کرتے اور ہر رکعت میں باقاعدگی کے ساتھ اس سورت کو کیوں پڑھتے ہو ؟“ انھوں نے جواب دیا، ( اے اللہ کے رسول !) بےشک مجھے اس سورت سے محبت ہے، تو آپ نے فرمایا : ” اس سورت کی محبت تمھیں جنت میں لے جائے گی۔“ ( بخاری، کتاب الآذان)

(66)نیز آج کل ایک اور وجہ بھی ہے کہ نمازیوں کو تیسویں پارے کی آخری چند سورتیں ہی یاد ہوتی ہیں جن کی تعداد اکثر و بیشتر 20سے 40تک ہے۔ ائمہ مساجد کی کوشش یہ ہوتی ہےکہ وہ ایسی سورتیں نماز میں پڑھیں جو مقتدیوں کو بھی یاد ہوں ۔ ایسی صورت میں ہرروز کم از کم 6جبکہ جمعہ کے دن 8سورتیں جہراً تلاوت کی جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان آخری سورتوں میں ہر سورت دوسرے یا تیسرے دن پڑھی جائے گی۔تو نمازیوں کو چاہیےکہ وہ زیادہ سورتیں یاد کریں تاکہ امام مسجد کے پاس بھی گنجائش زیادہ ہو۔
اس سلسلے میں یہ اصول ذہن نشین رہے کہ احناف کے نزدیک کسی وقت کے ساتھ کسی سور ت کو متعین کر لینا مکروہ ہے اور شیخ ابن الہمام نقل کرتے ہیں کہ کراہیت اس صورت میں ہے کہ اس کو لاز م سمجھے اور ان کے سوا کو مکروہ جانے۔

رسول اللہ کی قرات سے تبرک کی بناءپر تو کراہت نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کبھی کبھی ان کے علاوہ بھی پڑھاکرے ، تاکہ کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ یہ جائز نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مفصل سورتوں میں سے کوئی سورت چھوٹی یا بڑی ایسی نہیں ہے جو میں نے رسول اللہ کو فرض نمازوں کی امامت کے دوران پڑھتے ہوئے نہ سنا ہو۔ (سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 811)

تبصرے بند ہیں۔