اسلام کے نظامِ نظافت کی عملی تصویر پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

قربانی رب کا قرب اور رضا حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے لہٰذا اس کا طریقہ کار بھی ایسا ہونا چاہیے جو رب کو راضی کرنے والا ہو۔ رب کائنات بندوں کو تکلیف و اذیت دینے والوں سے ہرگز راضی نہیں ہوتا جس پر متعدد قرآنی آیات اور فرامین اقدسﷺ شاہد و دال ہیں۔ چنانچہ روایت سے ثابت ہے کہ پیاز، لہسن اور ان جیسی بدبو دار چیزیں کھاکر مسجد میں آنے سے بھی مسلمانوں کو منع فرمایا گیا چونکہ اس سے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اندازہ کیجیے اسلام نے نماز میں بھی نمازیوں کو تکلیف و اذیت پہنچانے سے منع فرمارہا ہے کیا ممکن ہے کہ اس دین میں ایسی قربانی قبول کی جائے گی جس میں عو ام الناس کوتکلیف دی جائے۔ ان حقائق سے واقف ہونے کے باوجود ہم قربانی کے بعد جانور کے خون اور فضلات کو راستوں پر پھینک دیتے ہیں جس کی وجہ سے تعفن و بدبو پھیل جاتی ہے اس طرح پاکیزہ فضا و ماحول آلودہ ہوجاتے ہیں جو بلا لحاظ مذہب و ملت ہر راہگیروں اور مکینوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ ہمارا یہ عمل سراسر گناہ ہے چونکہ اس سے ایک طرف محلوں اور شاہراہوں کی خوبصورتی خراب ہوتی ہے تو دوسری طرف جانور کی آلائیشوں سے بیماریاں پھیلنے کا قوی امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ ہماری اس روش سے قربانی کی روح کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جس طرح ہم عید کے موقع پر اپنے گھروں کو سجاتے ہیں اسی طرح ہماری مذہبی و اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اسی طرح اپنے محلوں، شاہراہوں کی صفائی کا بھی پاس و لحاظ رکھیں۔ ہمارے اس اقدام سے غیر مسلم حضرات میں اچھا پیغام اور تاثر جائے گا ورنہ ہماری اور ہمارے دین کی سارے عالم میں جگ ہنسائی ہوگی اور جس طرح آج اذان اور نماز پر مخالفین اسلام اعتراضات اٹھا رہے ہیں عین ممکن ہے کہ ہماری بداعمالیوں کے سبب کل کے دن قربانی پر سوال کھڑا کردیں۔

عید قربان کے دن جانور کے فضلات کو شاہراہوں پر پھینکنا نہ صرف انسانیت کو اذیت دینا ہے بلکہ قرآن اور حدیث کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔ چونکہ قربانی کا مقصد رسماً رب کی اطاعت و فرمانبردای کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مطلوب حقیقی ایمان کا اپنی تمام تر ضیاپاشیوں کے ساتھ مومن کے لیے فانوسِ جان بن جانا ہے۔ قرآن حکیم اپنے ماننے والوں کو ظاہری رنگ کے بجائے خدائی رنگ میں رنگ جانے کا حکم فرمایا اور رنگ الٰہی کا اہم رنگ حسن و جمال اور صفائی و پاکیزگی ہے۔ خاتم پیغمبراں ﷺ ارشاد فرماتے ہیں اللہ تعالی جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے۔ رسول رحمتﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو ہٹادینا بھی ایمان کی علامت ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم سب کی ذمہ داری ہے بالخصوص عید قربان کے دن اور بالعموم زندگی بھر اسلام کے نظامِ نظافت و نفاست کی عملی تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں جو بحیثیت مسلمان ہمارا مذہبی فریضہ بھی ہے تاکہ غیر مسلم حضرات کو اسلامی تعلیمات کے محاسن سے واقف ہونے، سمجھنے اوردامن اسلام سے وابستہ ہونے کا موقع مل سکے۔ سلیم الفطرت شخص ہمیشہ پاکیزگی کو پسند کرتا ہے چونکہ اللہ تعالی نے بلالحاظ مذہب و ملت، قوم و وطنیت نظافت و نفاست انسان کی فطرت میں ودیعت فرمائی ہے۔ لہٰذا ہر فرد کو انسانی اعتبار سے پاکیزگی و صفائی کا بھرپور خیال کرنا چاہیے اور صاحب ایمان کا اس جانب مزید توجہ دینا اس لیے بھی ضروری ہے چونکہ وہ دین اسلام کا پیروکار ہے جو سراسر نفاست، نظافت اور پاکیزگی کا مذہب ہے اور اپنے ماننے والوں سے طہارت و پاکیزگی کا پرزور مطالبہ کرتا ہے طہارت و پاکیزگی، نظافت و ستھرائی اور نفاست و صفائی عبادت میں حلاوت اور رب کی قربت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے پنچوقتہ نماز کی ادائیگی سے پہلے وضو کرنے کو فرض قرار دیا ہے چونکہ اس سے انسان کو ظاہری تروتازگی اور پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ اسلام میں طہارت و پاکیزگی کا اتنا اہتمام کیا گیا ہے کہ اگر کوئی انسان اپنی نیند سے بیدار ہو تو اس کو وضو کے برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھونے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ جس پانی سے وہ وضو بنارہا ہے اس کی پاکیزگی متاثر نہ ہونے پائے۔ اسلام کا تصور طہارت جزوی نہیں بلکہ کلی ہے اسلام کی ساری تعلیمات طہارت و پاکیزگی پر مبنی ہے۔ اسلام کا وسیع اور جامع نظام نظافت و نفاست ذہن، تصور، تخیل، فکر، بصارت، سماعت، قلب، قول، فعل، عمل، لباس، جسم، روح، کردار الغرض انسان کے تمام حسی و معنوی حرکات و سکنات کو محیط ہے۔ دین اسلام اپنے ماننے والوں کو ایسا مفصل نظام نظافت و نفاست عطا کرتا ہے جس میں کلیات کے ساتھ جزئیات کو بھی بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ ایسا بہترین نظام آج کے ترقی یافتہ ممالک کے پاس بھی نہیں ہے۔ نظام تو درکنار دنیا کی کسی بھی زبان میں ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو طہارت کے ہم معنی و مفہوم ہو۔

قرآن مجید میں استعمال ہونے والا لفظ طہارت انتہائی وسیع معنی و مفہوم رکھتا ہے جس میں شرک و گناہ کے آثار سے روح کی پاکیزگی، ظاہری جسمانی کثافتوں کے آثار سے جسم کی پاکیزگی شامل ہے۔ ظاہری و جسمانی اور باطنی و معنوی گندگی نہ صرف حصولِ حسنات میں بڑی رکاوٹ بنتی ہے بلکہ لطفِ خدا سے محرومی کا سبب بھی بنتی ہے اور قربانی کا عمل رب کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ قربانی کے دن صاف صفائی کا اہتمام کرنا ہمارے لیے اس لیے بھی ضروری ہے چونکہ قرآن مجید میں بارہا اس بات کا ذکر کیا گیا کہ رب کائنات پاکیزہ نفس، پاکیزہ ذہن، پاکیزہ قلب، پاکیزہ روح الغرض پاکیزہ کردار رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے اور انہیں دوست رکھتا ہے۔ پاکیزہ کردار رکھنے والوں سے قطعی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ گندگی و تعفن پھیلانے کا ذریعہ یا سبب بنیں گے۔

بعثت تاجدار مدینہﷺ سب قبل عرب معاشرہ بے شمار سماجی، اخلاقی، جسمانی اور ماحولیاتی گندگی میں مبتلا تھے جہاں صفائی کا خیال کرنا بھی محال تھا لیکن ایسے حال اور ماحول میں رحمت عالمﷺ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا اور معاشرے کو صفائی اور پاکیزگی کی اہمیت و افادیت سے روشناس کروایا۔ ہم تو رسول محتشمﷺ کے نام لیوا اور آپﷺ کو ماننے کا دعوی کرنے والے ہیں اور حبیب دائورﷺ ہمیشہ اپنی امت کو ایک ممتاز، خوش سلیقہ اور مہذب قوم کی حیثیت سے دیکھنے کے متمنی رہا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ جب کھی آپﷺ کسی مسلمان میں عدم نفاست ملاحظہ فرماتے تو فوراًٹوک دیتے۔ اس لحاظ سے بھی ہم پر لازم ہے کہ عید الاضحی کے دن بطور خاص صفائی کو ملحوظ خاطر رکھیں۔

تبصرے بند ہیں۔