اللہ کی کتاب سمجھ کر پڑھنا کیوں ضروری ہے؟

تحریر: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ… ترتیب: عبدالعزیز

  دنیا میں اس وقت مسلمان ہی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کے پاس اللہ کا کلام بالکل محفوظ، تمام تحریفات سے پاک، ٹھیک ٹھیک انہی الفاظ میں موجود ہے جن الفاظ میں وہ اللہ کے رسولؐ برحق پر اترا تھا۔ اور دنیا میں اس وقت مسلمان ہی وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اپنے پاس اللہ کا کلام رکھتے ہیں اور پھر بھی اس کی برکتوں اور بے حدو حساب نعمتوں سے محروم ہیں ۔ قرآن ان کے پاس اس لئے بھیجا گیا تھا کہ اس کو پڑھیں ، سمجھیں ، اس کے مطابق عمل کریں اور اس کو لے کر خدا کی زمین پر خدا کے قانون کی حکومت قائم کردیں ۔ وہ ان کو عزت اور طاقت بخشنے آیا تھا۔ وہ انھیں زمین پر خدا کا اصلی خلیفہ بنانے آیا تھا۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ جب انھوں نے اس کی ہدایت کے مطابق عمل کیا تو اس نے ان کو دنیا کا امام اور پیشوا بناکر بھی دکھا دیا۔ مگر اب ان کے ہاں اس کا مصرف اس کے سوا کچھ نہیں رہا کہ گھر میں اس کو رکھ کر جن بھوت بھگائیں ، اس کی آیتوں کو لکھ کر گلے میں باندھیں اور گھول کر پئیں اور محض ثواب کیلئے بے سمجھے بوجھے پڑھ لیا کریں ۔ اب یہ اس سے اپنی زندگی کے معاملات میں ہدایت نہیں مانگتے۔ اس سے نہیں پوچھتے کہ ہمارے عقائد کیا ہونے چاہئیں ؟ ہمارے اعمال کیا ہونے چاہئیں ؟ ہمارے اخلاق کیسے ہونے چاہئیں ؟ ہم لین دین کس طرح کریں ؟ دوستی اور دشمنی میں کس قانون کی پابندی کریں ؟ خدا کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق ہم پر کیا ہیں اور انھیں ہم کس طرح ادا کریں ہمارے لئے حق کیا ہے اور باطل کیا؟ اطاعت ہمیں کس کی کرنی چاہئے اور نافرمانی کس کی؟ تعلق کس سے رکھنا چاہئے اور کس سے نہ رکھنا چاہئے؟ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون؟

ہمارے لئے عزت اور فلاح اور نفع کس چیز میں ہے اور ذلت اورنامرادی اور نقصان کس چیز میں ؟ یہ ساری باتیں اب مسلمانوں نے قرآن سے پوچھنی چھوڑ دی ہیں ۔ اب یہ کافروں اور مشرکوں سے ، گمراہ اور خود غرض لوگوں سے اور خود اپنے نفس کے شیطان سے ان باتوں کو پوچھتے ہیں اور انہی کے کہے پر چلتے ہیں ۔ اس لئے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کے حکم پر چلنے کا جو انجام ہونا چاہئے وہی ان کا ہوا اور اسی کو یہ آج ہندستان میں ، چین اور جاوا میں ، فلسطین اور شام میں ، الجزائر اورمراکش میں ، ہر جگہ بری طرح بھگت رہے ہیں ۔ قرآن مجید تو خیر کا سر چشمہ ہے۔ جتنی اور جیسی خیر تم اس سے مانگوگے یہ تمہیں دے گا۔ تم اس سے محض جن بھوت بھگانا اور کھانسی اور کھانسی بخار کا علاج اور مقدمہ کی کامیابی اور نوکری کا حصول اور ایسی ہی چھوٹی ذلیل و بے حقیقت چیزیں مانگتے ہو تو یہی تمہیں ملیں گی۔ اگر دنیا کی بادشاہی اور روئے زمین کی حکومت مانگوگے تو وہ بھی ملے گی اور اگر عرش الٰہی کے قریب پہنچنا چاہوگے تو یہ تمہیں وہاں بھی پہنچا دے گا۔ یہ تمہارے اپنے ظرف کی بات ہے کہ سمندر سے پانی کی دو بوندیں مانگتے ہو، ورنہ سمندر تو دریا بخشنے کیلئے بھی تیار ہے۔

حضرات! جو ستم ظریفیاں ہمارے مسلمان اللہ کی اس کتاب پاک کے ساتھ کرتے ہیں وہ اس قدر مضحکہ انگیز ہیں کہ اگر یہ خود کسی دوسرے معاملہ میں کسی شخص کو ایسی حرکتیں کرتے دیکھیں تو اس کی ہنسی اڑائیں بلکہ اس کو پاگل قرار دیں ۔ بتائیے؛ اگر کوئی شخص حکیم سے نسخہ لکھوا کر لائے اور اسے کپڑے میں لپیٹ کر گلے میں باندھ لے یا اسے پانی میں گھول کر پی جائے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ کیا آپ کو اس پر ہنسی نہ آئے گی؟ اور آپ اسے بیوقوف نہ سمجھیں گے؟ مگر سب سے بڑے حکیم نے آپ کے امراض کیلئے شفا اور رحمت کا جو بے نظیر نسخہ لکھ کر دیا ہے اس کے ساتھ آپ کی آنکھوں کے سامنے رات دن یہی سلوک ہورہا ہے اور کسی کو اس پر ہنسی نہیں آتی۔ کوئی نہیں سوچتا کہ نسخہ گلے میں لٹکانے اور گھول کر پینے کی چیز نہیں بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اس کی ہدایت کے مطابق دوا استعمال کی جائے۔

 فہم قرآن اور عمل بالقرآن لازم ہے: بتائیے؛ اگر کوئی شخص بیمار ہو اور علم طب کی کوئی کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ جائے اور یہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہوجائے گی تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجو اسے پاگل خانے میں ، اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے؟ مگر شافیِ مطلق نے جو کتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کیلئے بھیجی ہے اس کے ساتھ آپ کا یہی برتاؤ  ہے۔ آپ اس کو پڑھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہوجائیں گے، اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں ، نہ ان چیزوں سے پرہیز کی ضرورت ہے جن کو یہ مضر بتا رہی ہے۔ پھر آپ خود اپنے اوپر بھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جو اس شخص پر لگاتے ہیں جو بیماری دور کرنے کیلئے صرف علم طب کی کتاب پڑھ لینے کو کافی سمجھتا ہے؟

 آپ کے پاس اگر کوئی خط کسی ایسی زبان میں آتا ہے جسے آپ نہ جانتے ہوں تو آپ دوڑے ہوئے جاتے ہیں کہ اس زبان کے جاننے والے سے اس کا مطلب پوچھیں ۔ جب تک آپ اس کا مطلب نہیں جان لیتے آپ کو چین نہیں آتا۔ یہ معمولی کاروبار کے خطوط کے ساتھ آپ کا برتاؤ ہے جن میں زیادہ سے زیادہ چار پیسوں کا فائدہ ہوجاتا ہے، مگر خداوند عالم کا جو خط آپ کے پاس آیا ہوا ہے  اور جس میں آپ کیلئے دین و دنیا کے تمام فائدے ہیں اسے آپ اپنے پاس یونہی رکھ چھوڑتے ہیں ، اس کا مطلب سمجھنے کیلئے کوئی بے چینی آپ میں پیدا نہیں ہوتی۔ کیا یہ حیرت اور تعجب کا مقام نہیں ؟

 اللّٰہ کی کتاب پر ظلم کا نتیجہ: یہ باتیں میں ہنسی دل لگی کیلئے نہیں کر رہا ہوں ۔ آپ ان باتوں پر غور کریں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دنیا میں سب سے بڑھ کر ظلم اللہ کی اس کتاب پاک کے ساتھ ہو رہا ہے اور یہ ظلم کرنے والے وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر جان قربان کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ بیشک وہ ایمان رکھتے ہیں اور اسے جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں ، مگر افسوس یہ ہے کہ وہی اس پر سب سے زیادہ ظلم کرتے ہیں ۔ اور اللہ کی کتاب پر ظلم کرنے کا جو انجام ہے وہ ظاہر ہے۔ خوب سمجھ لیجئے! اللہ کا کلام انسان کے پاس اس لئے نہیں آتا کہ وہ بد بختی اور نکبت و مصیبت میں مبتلا ہو: طٰہٰ o مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰیo یہ سعادت اور نیک بختی کا سر چشمہ ہے۔ شقاوت اور بدبختی کا ذریعہ نہیں ہے۔ یہ قطعی ناممکن ہے کہ کوئی قوم خدا کے کلام کی حامل ہو اور پھر دنیا میں ذلیل و خوار ہو، دوسروں کی محکوم ہو،پاؤں میں روندی اور جوتیوں سے ٹھکرائی جائے، اس کے گلے میں غلامی کا پھندا ہو اور غیروں کے ہاتھ میں اس کی باگیں ہوں اور وہ اس کو اس طرح ہانکیں جیسے جانور ہانکے جاتے ہیں ۔ یہ انجام اس کا صرف اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اللہ کے کلام پر ظلم کرتی ہے۔ بنی اسرائیل کا انجام آپ کے سامنے ہے۔ ان کے پاس توراۃ اور انجیل بھیجی گئی تھیں اور کہا گیا تھا:

’’اگر وہ توراۃ اور انجیل اور ان کتابوں کی پیروی پر قائم رہتے جو ان کے پاس بھیجی گئی تھیں ان کے رب کی طرف سے تو ان پر آسمان سے رزق برستا اور زمین سے رزق ابلتا‘‘ (المائدۃ:66)۔

 مگر انھوں نے اللہ کی ان کتابوں پر ظلم کیا اور اس کا نتیجہ یہ دیکھا کہ :

 ’’ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی اور وہ خدا کے غضب میں گھر گئے۔ یہ اس لئے کہ وہ الہ کی آیات سے کفر کرنے لگے تھے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے اور اس لئے کہ وہ اللہ کے نافرمان ہوگئے تھے اور حد سے گزر گئے تھے‘‘ (البقرۃ: 61)۔

 پس جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر بھی ذلیل و خوار اور محکوم و مغلوب ہو تو سمجھ لیجئے کہ وہ ضرور کتاب الٰہی پر ظلم کر رہی ہے اور اس پر یہ سارا وبال اسی ظلم کا ہے۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر آپ اس گناہ عظیم سے باز نہ آئیں گے تو آپ کی حالت ہر گز نہ بدلے گی خواہ آپ گاؤں گاؤں کالج کھول دیں اور آپ کا بچہ بچہ گریجوٹ ہوجائے اور آپ یہودیوں کی طرح سود خوری کرکے کروڑ پتی ہی کیوں نہ بن جائیں ۔

تبصرے بند ہیں۔