انسانی تمدن و تہذیب کیلئے پردہ کیوں ضروری ہے؟

ترتیب:عبدالعزیز

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’پردہ‘‘ میں انسانی تمدن اور تہذیب کیلئے پردہ کیوں ضروری ہے؟ سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کتاب کا ایک باب قوانین فطرت سے متعلق ہے۔ مولانا نے ثابت کیا ہے کہ انسانی فطرت بھی تمدن کی ترقی اور حفاظت کیلئے پردہ کا تقاضا کرتی ہے۔ مولانا کے خیال میں عورت اور مرد کے تعلق کا مسئلہ در اصل تمدن کا بنیادی مسئلہ ہے اور اسی کے صحیح حل پر تمدن کی صلاح و فساد اور اس کی بہتری اور بدتری اور اس کے استحکام اور ضعف کا انحصار ہے۔ نوع انسانی کے ان دونوں حصوں میں ایک تعلق حیوانی ہے جس کا مقصود بقائے نوع کے سوا کچھ نہیں اور دوسرا تعلق انسان ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں مل کر مشترک اغراض کیلئے اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق تعاون کریں۔ مولانا نے دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ انسان کے اندر صنفی کشش اور میلان تمام حیوانات سے زیادہ طاقتور ہے۔

مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ ’’نہ صرف یہ کہ انسانی جسم کے اندر صنفی تحریک پیدا کرنے والی قوتیں زیادہ شدید ہیں بلکہ باہر بھی اس وسیع کائنات میں ہر طرف بے شمار صنفی محرکات پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ چیز جس کیلئے فطرت نے خود ہی اتنے انتظامات کر رکھے ہیں۔ اگر انسان بھی اپنی توجہ اور قوتِ ایجاد سے کام لے کر اس کو بڑھانے اور ترقی دینے کے اسباب مہیا کرنے لگے اور ایسا طرز تمدن اختیار کرے جس میں اس کی صنفی پیاس بڑھتی چلی جائے اور پھر اس پیاس کو بجھانے کی آسانیاں بھی پیدا کی جاتی رہیں تو ظاہر ہے کہ اس صورت میں یہ حد مطلوب سے بہت زیادہ متجاوز ہوجائے گی۔ انسان کا حیوانی عنصر اس کے انسانی عنصر پر پوری طرح غالب ہوجائے گا اور یہ حیوانیت اس کی انسانیت اور اس کے تمدن دونوں کو کھاجائے گی‘‘۔

مولانا پردہ اور قوانین فطرت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں :

 ’’فطرت نے تمام انواع کی طرح انسان کو بھی ’’زوجین‘‘ یعنی دو ایسی صنفوں کی صورت میں پیدا کیا ہے جو ایک دوسرے کی جانب طبعی میلان رکھتی ہیں مگر دوسری انواعِ حیوانی کا جس حد تک مطالعہ کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اس صنفی تقسیم اور اس طبعی میلان کا مقصد محض بقائے نوع ہے۔ اسی لئے ان میں یہ میلان صرف اس حد تک رکھا گیا ہے جو ہر نوع کی بقا کیلئے ضروری ہے اور ان کی جبلت میں ایسی قوتِ ضابطہ رکھ دی گئی ہے جو انھیں صنفی تعلق میں اس حد مقرر سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ اس کے برعکس انسان میں یہ میلان غیر محدود، غیر منضبط اور تمام دوسری انواع سے بڑھا ہوا ہے۔ اس کیلئے وقت اور موسم کی کوئی قید نہیں۔ ا س کی جبلت میں کوئی ایسی قوتِ ضابطہ بھی نہیں ہے جو اسے کسی حد پر روک دے۔

 مرد اور عورت ایک دوسرے کی طرف دائمی میلان رکھتے ہیں۔ ان کے اندر ایک دوسرے کی طرف جذب و انجذاب اور صنفی کشش کے غیر محدود اسباب فراہم کئے گئے ہیں۔ ان کے قلب میں صنفی محبت اور عشق کا ایک زبردست داعیہ رکھا گیا ہے۔ ان کے جسم کی ساخت اور اس کے تناسب اور اس کے رنگ و روپ اور اس کے لمس اور اس کے ایک ایک جز میں صنف مقابل کیلئے کشش پیدا کر دی گئی ہے۔ ان کی آواز، رفتار، انداز و ادا، ہر ایک چیز میں کھینچ لینے کی قوت بھر دی گئی ہے اور گرد و پیش کی دنیا میں بھی بے شمار ایسے اسباب پھیلا دیئے گئے ہیں جو دونوں کے داعیات صنفی کو حرکت میں لاتے اور انھیں ایک دوسرے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ، پانی کی روانی، سبزہ کا رنگ، پھولوں کی خوشبو، پرندوں کے چہچہے، فضا کی گھٹائیں، شبِ ماہ کی لطافتیں، غرض جمال فطرت کا کوئی مظہر، اور حسن کائنات کا کوئی جلوہ ایسا نہیں ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس تحریک کا سبب نہ بنتا ہو۔

 پھر انسان کے نظام جسمانی کا جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس میں طاقت کا جو زبردست خزانہ رکھا گیا ہے وہ بیک وقت قوتِ حیات اور قوتِ عمل بھی ہے اور صنفی تعلق کی قوت بھی۔ وہی غدود Glands جو اس کے اعضا کو جیون رس Harmon بہم پہنچاتے ہیں اور اس میں چستی، توانائی، ذہانت اور عمل کی طاقت پیدا کرتے ہیں، انہی کے سپرد یہ خدمت بھی کی گئی ہے کہ اس میں صنفی تعلق کی قوت پیدا کریں، اس قوت کو حرکت میں لانے والے جذبات کو نشو و نما دیں، ان جذبات کو ابھارنے کیلئے حسن اور روپ نکھار پھبن کے گانوں آلات بہم پہنچائیں اور ان آلات سے متاثر ہونے کی قابلیت اس کی آنکھوں اور اس کے کانوں اور اس کی شامہ اور لامسہ حتیٰ کہ اس کی قوتِ متخیّلہ رک میں فراہم کر دیں۔

 قدرت کی یہی کارفرمائی انسان کے قوائے نفسانی میں بھی نظر آتی ہے۔ اس کے نفس میں جتنی محرک قوتیں پائی جاتی ہیں ان سب کا رشتہ دو زبردست داعیوں سے ملتا ہے۔ ایک وہ داعیہ جو اسے خود اپنے وجود کی حفاظت اور اپنی ذات کی خدمت پر ابھارتا ہے۔ دوسرا داعیہ جو اس کو اپنے مقابل صنف سے تعلق پر مجبور کرتا ہے۔ شباب کے زمانہ میں جبکہ انسان کی عملی قوتیں اپنے پورے عروج پر ہوتی ہیں، یہ دوسرا داعیہ اتنا قوی ہوتا ہے کہ بسا اوقات پہلے داعیہ کو بھی دبا لیتا ہے اور اس کے اثر سے انسان اس قدر مغلوب ہوجاتا ہے کہ اسے اپنی جان تک دے دینے اور اپنے آپ کو جانتے بوجھتے ہلاکت میں ڈال دینے میں تامل نہیں ہوتا۔

  تمدّن کی تخلیق میں صنفی کشش کا اثر:

یہ سب کچھ کس لئے ہے؟ کیا محض بقائے نوع کیلئے؟ نہیں ؛ کیونکہ نوعِ انسانی کو باقی رکھنے کیلئے اس قدر تناسل کی بھی ضرورت نہیں ہے جس قدر مچھلی اور بکری اور ایسی ہی دوسری انواع کیلئے ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ فطرت نے ان سب انواع سے زیادہ صنفی میلان انسان میں رکھا ہے اور اس کیلئے سب سے زیادہ اسباب تحریک فراہم کئے ہیں ؟ کیا یہ محض انسان کے لطف اور لذت کیلئے ہے؟ یہ بھی نہیں۔ فطرت نے کہیں بھی لطف اور لذت کو مقصود بالذات نہیں بنایا ہے۔ وہ تو کسی بڑے مقصد کی خدمت پر انسان اور حیوان کو مجبور کرنے کیلئے لطف اور لذت کو محض چاشنی کے طور پر لگا دیتی ہے تاکہ وہ اس خدمت کو غیر کا نہیں بلکہ اپنا کام سمجھ کر انجام دیں۔

  اب غور کیجئے کہ اس معاملہ میں کون سا بڑا مقصد فطرت کے پیش نظر ہے؟ آپ جتنا غور کریں گے کوئی اور وجہ اس کے سوا سمجھ میں نہ آئے گی کہ فطرت، دوسری تمام انواع کے بخلاف نوعِ انسانی کو متمدن بنانا چاہتی ہے۔

 اسی لئے انسان کے قلب میں صنفی محبت اور عشق کا وہ داعیہ رکھا گیا ہے جو محض جسمانی اتصال اور فعل تناسل ہی کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ ایک دائمی معیت اور قلبی وابستگی اور روحانی لگاؤ کا مطالبہ کرتا ہے۔

 اسی لئے انسان میں صنفی میلان اس کی واقعی قوتِ مباشرت سے بہت زیادہ رکھا گیا ہے۔ اس میں جتنی صنفی خواہش اور صنفی کشش رکھی گئی ہے اگر اسی نسبت سے بلکہ ایک اور دس کی نسبت سے بھی وہ فعل تناسل کا ارتکاب کرے تو اس کی صحت جواب دے دے اور عمر طبعی کو پہنچنے سے پہلے ہی اس کی جسمانی قوتیں ختم ہوجائیں۔ یہ بات اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ انسان میں صنفی کشش کی زیادتی کا ہونا اس لئے نہیں ہے کہ وہ تمام حیوانات سے بڑھ کر صنفی عمل کرے، بلکہ اس سے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرنا اور ان کے باہمی تعلق میں استمرار و استقلال پیدا کرنا ہے۔

  اسی لئے عورت کی فطرت میں صنفی کشش اور صنفی خواہش کے ساتھ ساتھ شرم و حیا اور تمانع اور فرار اور رکاوٹ کا مادہ رکھا گیا ہے جو کم و بیش ہر عورت میں پایا جاتا ہے۔ یہ فرار اور منع کی کیفیت اگر چہ دوسرے حیوانات کے اناث میں بھی نظر آتی ہے مگر انسان کی صنف اناث میں اس کی قوت و کمیت بہت زیادہ ہے اور اس کو جذبۂ شرم و حیا کے ذریعہ اور زیادہ شدید کر دیا گیا ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں صنفی مقناطیسیت کا مقصد ایک مستقل وابستگی ہے نہ یہ کہ ہر صنفی کشش ایک صنفی عمل پر منتج ہو۔

 اسی لئے انسان کے بچے کو تمام حیوانات کے بچوں سے زیادہ کمزور او ربے بس پیدا کیا گیا ہے۔ بخلاف دوسرے حیوانات کے، انسان کا بچہ کئی سال تک ماں باپ کی حفاظت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے اور اس میں اپنے آپ کو سنبھالنے اور اپنی مدد آپ کرنے کی قابلیت بہت دیر میں پیدا ہوتی ہے، اس سے بھی یہ مقصود ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق محض تعلق صنفی کی حد تک نہ رہے بلکہ اس تعلق کا نتیجہ ان کو باہمی ارتباط و تعاون پر مجبور کردے۔

اسی لئے انسان کے دل میں اولاد کی محبت تمام حیوانات سے زیادہ رکھی گئی ہے۔ حیوانات ایک قلیل مدت تک اپنے بچوں کی پرورش کرنے کے بعد ان سے الگ ہوجاتے ہیں، پھر ان میں کوئی تعلق باقی نہیں رہتا بلکہ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے بھی نہیں۔ بخلاف اس کے انسان ابتدائی پرورش کا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی اولاد کی محبت میں گرفتار رہتا ہے۔ حتیٰ کہ یہ محبت اولاد کی اولاد تک منتقل ہوتی ہے اور انسان کی خود غرض حیوانیت اس محبت کے اثر سے اس درجہ مغلوب ہوجاتی ہے کہ وہ جو کچھ اپنی ذات کیلئے چاہتا ہے اس سے زیادہ اپنی اولاد کیلئے چاہتا ہے اور اس کے دل میں اندر سے یہ امنگ پیدا ہوتی ہے کہ اپنی حد امکان تک اولاد کیلئے بہتر سے بہتر اسبابِ زندگی بہم پہنچائے اور اپنی محنتوں کے نتائج ان کیلئے چھوڑ جائے، اس شدید جذبۂ محبت کی تخلیق سے فطرت کا مقصد صرف یہی ہوسکتا ہے کہ عورت اور مرد کے صنفی تعلق کو ایک دائمی رابطہ میں تبدیل کردے۔ پھر اس دائمی رابطہ کو ایک خاندان کی ترکیب کے ذریعہ بنائے، پھر خونی رشتوں کی محبت کا سلسلہ بہت سے خاندانوں کو مصاہرت کے تعلق سے مربوط کرتا چلا جائے پھر محبتوں اور محبوبوں کا اشتراک ان کے درمیان تعاون اور معاملت کا تعلق پیدا کردے اور اس طرح ایک معاشرہ اور ایک نظام تمدن وجود میں آجائے۔

 تمدن کا بنیادی مسئلہ:

اس سے معلوم ہوا کہ یہ صنفی میلان جو انسانی جسم کے ریشے ریشے اور اس کے قلب و روح کے گوشے گوشے میں رکھا گیا ہے اور جس کی مدد کیلئے بڑے وسیع پیمانہ پر کائنات کے چپے چپے میں اسباب و محرکات فراہم کئے گئے ہیں۔ اس کا مقصد انسان کی انفرادیت کو اجتماعیت کی طرف مائل کرنا ہے۔ فطرت نے اس میلان کو تمدنِ انسانی کی اصل قوتِ محرکہ بنایا ہے۔ اسی میلان و کشش کے ذریعہ سے نوعِ انسانی کی دو صنفوں میں وابستگی پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وابستگی سے اجتماعی زندگی Social Life کا آغاز ہوتا ہے۔

 جب یہ امر متحقق ہوگیا تو یہ بات بھی آپ سے آپ ظاہر ہوگئی کہ عورت اور مرد کے تعلق کا مسئلہ در اصل تمدن کا بنیادی مسئلہ ہے اور اسی کے صحیح حل پر تمدن کی صلاح و فساد اور اس کی بہترین و بدتری اور اس کے استحکام و ضعف کا انحصار ہے۔ نوع انسانی کے ان دونوں حصوں میں ایک تعلق حیوانی (یا بالفاظ دیگر خالص صنفی اور سراسر شہوانی) ہے جس کا مقصود بقائے نوع کے سوا کچھ نہیں۔ اور دوسرا تعلق انسانی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں مل کر مشترک اغراض کیلئے اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق تعاون کریں۔ اس تعاون کیلئے ان کی صنفی محبت ایک واسطۂ اتصال کے طور پر کام دیتی ہے اور یہ حیوانی و انسانی عناصر دونوں مل کر بیک وقت ان سے تمدن کا کاروبار چلانے کی خدمت بھی لیتے ہیں۔ اور اس کاروبار کو جاری رکھنے کیلئے مزید افراد فراہم کرنے کی خدمت بھی۔ تمدن کی صلاح و فساد کا مدار اس پر ہے کہ ان دونوں عناصر کا امتزاج نہایت متناسب اور معتدل ہو۔

مدنیت سالحہ کے لوازم:

آئیے؛ اب ہم اس مسئلہ کا تجزیہ کرکے یہ معلوم کریں کہ ایک صالح تمدن کیلئے عورت اور مرد کے حیوانی اور انسانی تعلق میں معتدل اور متناسب امتزاج کی صورت کیا ہے اور اس امتزاج پر بے اعتدالی کی کن کن صورتوں کے عارض ہونے سے تمدن فاسد ہوجاتا ہے۔ (جاری)

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ذراسوچیے!

    ﻋﻮﺭﺕ ﺟﺐ ﻏﯿﺮ ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﮯ ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﮯ، ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮐﺮﮮ ، ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺧﺎﻟﺺ ﮐﺮ ﺩﮮ، ﺍﺳﮯ ﺳﻮﭼﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﻮﭼﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﮐﺮﮮ، ﺭﺍﺕ ﺩﻥ ﻣﻨّﺘﯿﮟ ﮐﺮﮮ، ﭘﮭﺮ ﺭﻭﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺗﯽ ﮨﯽ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺋﮯ، ﺗﻮ ﺍﺱ ” ﺭﯾﻠﯿﺸﻦ ﺷﭗ ” ﻣﯿﮟ ﻗﺼﻮﺭ ﻭﺍﺭ ﺻﺮﻑ ‘ ﻋﻮﺭﺕ ‘ ﮨﮯ،
    ﻣﺮﺩ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍﻓﻮﺭﮈ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ، ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ، ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻏﻠﻄﯽ ﮐﺎ ﺧﻤﯿﺎﺯﮦ ﺑﮭﮕﺘﺘﮯ ﺑﮭﮕﺘﺘﮯ ﺗﻨﮑﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ” ﮨﻠﮑﯽ ” ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ .
    ‘ ﻏﻠﻄﯽ ‘ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ، ﻣﮕﺮ ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ” ﮔﻠﮧ ” ﮨﮯ،
    ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﺱ ” ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭﯼ ” ﮐﮯ ﻣﻘﺎﻡ ﺗﮏ ﻻﺗﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ، ﺟﮩﺎﮞ ﻭﮦ ” ﺗﻤﺎﺷﺎ ” ﺑﻨﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ .؟

تبصرے بند ہیں۔