باہم صلح صفائی کی اہمیت کو سمجھنا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

اسلام کے نظام اخلاق کا عظیم اور اہم خلق ناراض لوگوں میں صلح و صفائی کروانا ہے جو عمر میں برکت کی وجہ، خیر و برکت کا موجب، دخول جنت کا باعث خطائوں اور گناہوں کی مغفرت و بخشش کا سبب اور دنیوی و اخروی حسنات کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اگر انسان صلح اور باہمی تعلقات کی اصلاح کی اہمیت کو سمجھتا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اس پر عمل کرتا تو عالمی جنگوں کو ٹالا جاسکتا تھا، جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا تھا اور راحت و آرام کی زندگی کو یقینی بنایا جاسکتا تھا۔ ہر انسان کا اپنا منفرد مزاج و طبیعت ہوتی ہے جس کے باعث بسا اوقات انسانی جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں جس کے منفی اثرات انسان کے معاملات اور تعلقات پر پڑتا ہے اس طرح رشتوں میں کڑواہٹ اور کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے جو کہ ایک فطری امر ہے لیکن جب یہ غلط نااتفاقیاں اور نفرتیں حد سے تجاوز کرجاتی ہیں تو معاشرے میں عداوت و دشمنی، جنگ و قطع کلامی، قتل و غارت گری کا ماحول پنپنے لگتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف خوشحال گھرانے تباہ و تاراج ہوجاتے ہیں بلکہ ایک متحد قوم آسانی سے پراگندہ ہوجاتی ہے۔

 اس خاندانی اور معاشرتی بگاڑ کواگر کوئی چیز دور کرسکتی ہے تو وہ جذبہ صلح صفائی ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق بہترین انسان وہی ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے اور اللہ تعالی ان لوگوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی عطا فرماتا ہے جو خدمتِ خلق میں مصروف رہتے ہیں۔ جو لوگ لوگوں کے درمیان صلح جوئی کے کام میں مصروف رہتے ہیں اللہ تعالی انہیں عابدوں کی فضیلت عطا فرماتا ہے۔ صلح و صفائی کو اثر و رسوخ اور معاشرتی حیثیت کی زکوٰۃ قرار دیا گیا ہے چونکہ جس طرح مالی اعانت سے انسان کی غربت دور ہوتی ہے اسی طرح مصالحت کاری سے انسان کی ذہنی، قلبی اور روحانی تکالیف دور ہوتی ہیں علاوہ ازیں جس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی صاحب نصاب پر فرض ہے اسی طرح ہر ذی اثر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ناراض لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کا کام کرے چونکہ اسوہ حسنہﷺ سے ہمیں یہ تعلیم و درس ملتا ہے۔ صلح و محبت کے پیامبر ﷺ نے صدیوں سے شدید اختلافات اور رنجشوں کے شکار اوس و خزرج کے درمیان صلح کروائی جس کا کوئی امکان ہی نہیں تھاچونکہ ان کے سینہ بغض و عداوت سے بھرے ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کے درمیان خونریزی کا لامتناہی سلسلہ سالہاسال سے جاری تھی۔

بحیثیت امت مسلمہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کار خیر میں حصہ لے اور اپنی دنیا و آخرت کو سنوارلے۔ جو لوگ مختلف گروہوں، قبائل، جماعتوں، عزیز و اقارب، رشتہ داروں اور اللہ کے بندوں کو قریب کرنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالی انہیں بروز قیامت اپنے قرب خاص سے سرفراز فرمائے گا یہی وجہ ہے کہ دین اسلام ہمیشہ صلح و صفائی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ امر جاذبِ نظر ہے کہ قرآن مجید نے مسلمانوں کو حکم فرمایا کہ اگر تم تمام جنگی آلات و وسائل سے لیس پوری تیاری کے ساتھ اور طاقتور و آزمودہ کار گھوڑوں پر سوار شریک جہاد ہو ایسے عالم میں بھی اگر کوئی مخالف اسلام دوران جنگ دھوکہ دینے کی نیت سے اور تمہیں زک پہنچانے کے لیے خونریزی کو ترک کرنے اور صلح کرنے کی طرف مائل نظر آئیں تو مسلمان بھی اس پر اپنی آمادگی کا اظہار کریں اور صلح و صفائی کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو گرم جوشی سے تھام لیں اگرچہ مخالفین کی تجاویز مکر و فریب پر مبنی اور اچانک حملے کے لیے مقدمہ ہی کیوں نہ ہو چونکہ مخالفین کی خطرناک سازشوں کے مقابل میں قادر و متعال رب کائنات کی عظیم قدرت تمہارے لیے کافی ہے جو قوی سے قوی تر دشمن کو آن واحد میں شکست سے دوچار کرسکتا ہے۔ رب کائنات کی حمایت و نصرت ہمیشہ مومنین کے ساتھ ہے۔ ارشاد باری تعالی ہورہا ہے ترجمہ :’’اگر کفار مائل ہوں صلح کی طرف تو آپ بھی مائل ہوجایے اس کی طرف اور بھروسہ کیجیے اللہ تعالی پر بیشک وہی سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے اور اگر وہ ارادہ کریں کہ آپ کو دھوکہ دیں (تو آپ فکر مند کیوں ہوں ) بیشک کافی ہے آپ کو اللہ تعالی وہی ہے جس نے آپ کی تائید کی اپنی نصرت اور مومنوں (کی جماعت) سے‘‘ (سورۃ الانفال آیات 61-62)

 اس آیت پاک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دین اسلام اپنے ماننے والوں کو جہاد کرنے کا حکم اسی وقت دیتا ہے جب اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو ورنہ دین اسلام ہمیشہ صلح و امن اور سلامتی کی دعوت دیتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا مقصد وحید یہی ہے کہ بندہ کا تعلق رب سے مضبوط و مستحکم ہوجائے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب بندے آپس میں ایک دوسرے سے تعلقات کو استوار کرلیں۔ جس طرح خالق کونین ہر عیب و نقص سے پاک ہے اسی طرح وہ ہماری عبادتوں سے بھی بے نیاز ہے ہمارے عبادت کرنے سے نہ اس کی شان کبریائی میں کوئی اضافہ ہونے والا اور نہ ہی ہمارے عبادت بجا نہ لانے کے سبب اس کی شان قدوسیت میں کوئی کمی واقع ہونے والی ہے لیکن اس کے باوجود رب کائنات نے اپنے بندوں پر نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج فرض کیے ہیں تو اس کا مقصد وحید یہی ہے کہ ان عبادات کے ذریعہ انسان کے کردار میں حسن اور سدھار پیدا ہوجائے۔ تمام عبادات بجالانے کے باوجود اگر کردار کی خامیاں دور نہ ہوئیں تو وہ تمام عبادتیں رائیگاں اور بیکار ہیں۔ کردار کی ایک خوبی یعنی صلح و صفائی کو دین اسلام میں بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ خاتم پیغمبراں ﷺ کے ارشاد کے مطابق آپس میں میل جول، روابط و تعلقات کو استوار کرنا اور بہتر بنانا نمازوں، نفلی روزوں اور نفلی صدقات سے بہتر و افضل ہے۔ (سنن ابی دائود 4272حدیث نمبر، سنن ترمذی حدیث نمبر2433)۔

 بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج کا مسلمان صلح و صفائی کی ذمہ داری نبھانے کے بجائے پہلے تو وہ یہ کہہ کر گزرجاتا ہے کہ دوسروں کے معاملات سے ہمیں کیا؟ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے اگر مسلمانوں کے دو گرو ہ میں آپسی اختلافات ہو تو مسلمانوں کی یہ اولین اور اہم ترین اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کے درمیان عدالت کے اصول کے مطابق صلح کروائیں، دشمنیوں، کدورتوں اور نفرتوں کو محبتوں میں تبدیل کرنے حتی الوسع سعی کریں نہ کہ تماش بین بنے رہیں اور اختلافات، تفرقہ اور کے اسباب و عوامل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی سنجیدہ کوشش کریں تاکہ دونوں متخاصم افراد کے درمیان دوبارہ نزاعی کیفیت پیدا نہ ہوجائے۔

موجودہ دور کے مسلمان کا دوسرا اور خطرناک رویہ یہ ہے کہ وہ خانگی و دیگر اختلافات میں مزید اضافہ کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اگر میاں بیوی، ساس بہو، خسر داماد، بھائی بہن یا دیگر افراد خاندان کے درمیان کسی وجہ سے نااتفاقی ہے تو خاندان کے دیگر افراد پر لازم ہے کہ وہ ناراض رشتہ داروں کے درمیان صلح و صفائی کرائیں۔ لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ باہمی نفرت و عدالت کو ختم کرنے، متنفر قلوب کو قریب کرنے، ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے، بگڑے ہوئے تعلقات کو مضبوط بنانے اور ناراض افراد میں مصالحت کروانے کی کوشش کرنے کے بجائے ہم اپنے ذاتی و دنیوی مفادات کے حصول کے لیے ان اختلافات کو مزید طول دینے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ قرآن مجید واضح الفاظ میں ارشاد فرمارہا ہے کہ وہ لوگ ہر قسم کے خوف اور حزن و ملال سے محفوظ رہیں گے جو اپنی اور دیگر افراد کی اصلاح میں مصروف و مشغول رہتے ہیں۔

 صلح فساد کی ضد ہے۔ صلح رب کائنات کو بہت پسند ہے جس کی بین دلیل یہ ہے کہ اس نے اپنے ایک پیغمبر کا نام ہی صالح رکھا ہے۔ علاوہ ازیں رب ذو الجلال ارشاد فرماتا ہے کہ تم لوگوں کے درمیان صلح کروانے سے بچنے کے لیے اللہ کے نام کی قسمیں کھانے کا بہانہ نہ بنائو یعنی یہ نہ کہو کہ میں نے قسم کھائی اس لیے ناراض لوگوں کے درمیان صلح نہیں کرواسکتا ایسی قسم شریعت اسلامی میں مکروہ ہے۔ فساد کرنے والوں کو ذات باری تعالی محبوب نہیں رکھتی اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں باطن کی اصلاح کی توفیق عنایت فرمائے تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کے بندوں کے درمیان صلح کروائیں اور اگر ہمیں اللہ کا محبوب بندہ بننا ہے تو ہمیں اپنے نفسانی، ذاتی اور دنیوی خواہشات و مفادات اور مادہ پرستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض اللہ اور اس کے حبیبﷺ کی رضاء کے لیے ناراض لوگوں کے درمیان صلح و صفائی کا کام تادم زیست کرنا ہوگا۔

حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے فرماتی ہیں کہ تاجدار کائناتﷺ نے فرمایا تین مواقع ایسے ہیں جہاں جھوٹ بولنے کی گنجائش موجود ہے (1)میاں بیوی کے درمیان صلح کے وقت (2) جنگ کے وقت اور (3) لوگوں کے درمیان صلح کرواتے وقت۔ (ترمذی حدیث نمبر 1939)۔ یہ کس قدر معیوب بات ہے کہ ہمارا دین ہمیں فوت شدگان کے محاسن اور خوبیاں بیان کرنے کا حکم فرمارہا ہے اور ہم زندہ افراد کی خامیاں بیان کرنے میں مصروف ہیں۔ (العیاذ باللہ) تعلیمات اسلامی سے عملی انحراف ہی کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان سکون کامل اور نجات و سعادت جاودانی سے محروم ہے۔ اگر اس مذموت روش (یعنی لوگوں کے درمیان جان بوجھ کر دراڑ پیدا کرنیکی کوشش کرنے) کو ترک کرنے عزم مصمم نہ کریں تو ہماری کسی عبادت کو قبولیت کا درجہ نہیں ملے گااور نہ ہم دنیا و آخرت میں رحمت الٰہی کے حقدار بن سکیں گے۔

چونکہ رب کائنات کو بندۂ مومن کا وہ قدم بہت عزیز و محبوب ہے جو وہ انسانوں میں صلح و باہمی تعلقات کی اصلاح  کے لیے اٹھتا ہے۔ بعض علماء کی یہ رائے ہے کہ اللہ تعالی کو وہ جھوٹ بھی پسند ہے جو ناراض لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کے لیے بولا جائے اور وہ سچ ناپسند ہے جس کے باعث لوگوں میں تفرقہ پڑ جائے۔ اسی طرح دین اسلام میں سرگوشیاں اور خفیہ میٹینگیں کرنا مذموم و ممنوع ہے چونکہ یہ نہ صرف شیطانی عمل ہے بلکہ اس سے لوگوں کے درمیان بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں لیکن اس کے بالکل برعکس خانگی اختلافات و اجتماعی جھگڑوں کو دور کرنے اور طرفین میں مصالحت کروانے کی خاطر محرمانہ اور رازدارانہ اندازسے کی جانے والی گفتگو کو اسلام نے نہ صرف جائز رکھا ہے بلکہ اس عمل پر اجر عظیم مرتب ہونے کی بشارت بھی سنائی ہے۔

علامہ امام عبدالرحمن اوزاعیؓارشاد فرماتے ہیں جو اشخاص لوگوں میں صلح کرواتے ہیں اللہ تعالی انہیں جہنم سے محفوظ فرمادیتا ہے۔ جس دین اسلام میں باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی اس قدر فضیلت بیان کی گئی ہے لیکن آج اسی مذہب کے پیروکار ہونے کا دعوی کرنے والے مسلمانوں کی اکثریت آج تفرقہ کا شکار ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں زندگی کا ہر لمحہ تصور بندگی کے ساتھ گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تبصرے بند ہیں۔