تحریر میں یقیں کا نور نہیں، تقریر میں سرور عشق نہیں

عبدالکریم ندوی گنگولی

تلخ حقیقتوں کا ہجوم فکر وسوچ کے دریچوں میں داخل ہوکر گردش کررہا ہے، دل کی ویران گلیوں میں خوفناک سناٹاچھایاہوا ہے، عقل وخردسلگتے کہساروں، تپتے صحراؤں اور سخت چٹانوں میں محوطواف ہیں، بے حسی کے اجڑے موسم میں دل کی دھڑکنوں کا متاع درد داروئے شفاکا متقاضی ہے اور دیدہ ودل شب ظلمت میں کسی متاع بے بہا اور نور سحر کے متلاشی ہیں، جی ہاں !وہی متاع بے بہا جو کبھی واعظ کی آنکھوں کا سرور اورچہرے پہ یقیں کا نور تھا جس سے گمراہی وسرگشتگی کی ظلمت شب میں بھٹکی ہوئی انسانیت جادۂ مستقیم پاتی تھی اور وہی نور سحرجس کی روشنی میں محرر کے نوک قلم سے نکلے ہوئے دردانگیز سطرات آفتاب ہدایت کے مثل تھے،جس کی ضوفشاکرنوں سے ظلمتوں کے گھنے سائے چھٹ جاتے تھے، آج چشم فلک زبان وبیان اورقلم وقرطاس میں اسی جذبۂ جنوں اور سوزدروں کا منتظر ہے، جس جذبۂ بے بہااور چشمۂ عرفاں سے عالم انسانیت سیراب ہوتی رہے اور اجڑے ہوئے باغات سرسبز وشاداب اور افسردہ چمن فرحت وانبساط کے گن گانے لگیں۔

خانۂ دل میں اک عجیب سی بے چینی و بے قراری کا عالم ہے، جس کا اظہار مناسب ہی نہیں بلکہ بتقاضیٔ وقت معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ آخر کیا وجہ ہے ؟کہ محرر کے قلم اور مقرر کی تقریرمیں وہ تاثیر اور ولولۂ جنوں کیوں نہیں ؟جودلوں کی دنیا گرمادے، آنکھوں سے آنسوؤں کا چشمہ پھوٹنے لگے، باطن کی کدورتیں صاف ہوجائیں، دل میں عمل صالح کاعزم وحوصلہ جنم لے،داغ حسرت نشان منزل بن جائے اور گناہوں کے سمندر میں غرق انسانیت نور یقیں، سرور عشق اور خلوص نیت سے ساحل پالے،تو آئیے اس بے چینی کا حل اسلاف کی زندگیوں سے حاصل کرتے ہیں، جن کے قدموں تلے خلق خدا پروانہ وار آتی تھی اور انسانیت کا سیلاب امندپڑتا تھا،جن کے زبان وقلم سے نکلے ہوئے الفاظ لوگوں میں جذبۂ ایمانی کی چنگاریاں، مہر درخشاں کی تابناکیاں اور ماہ تاباں کی ضیاء پاشیاں پھیلایاکرتے تھے، جن کی نغمۂ توحید اور بوئے عشق ووفا سے بزم ہستی سکون اطمینان کی سانس لیتی تھی اور جن کی تقریر وتحریر گم گشتہ راہ و مردہ قلوب کے لئے نشان منزل اور چراغ ہدایت ثابت ہوتی تھی۔

موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لئے

قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے

آئیے انہیں سلف صالحین سے تاثیر بیان وقلم کا نسخہ پاتے ہیں اور اپنے قلم وبیان کو کواکب کی جلوہ باریوں اور قوس وقزح کی رعنائیوں سے سنوارتے ہیں اوردشت بے اماں میں لہرانی والی ایمان ویقین سے خالی شاخ نازک کو شاخ تازہ میں تبدیل کرتے ہیں، سیدی حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کے نام سے کون واقف نہ ہوگا؟آپ کی شخصیت ان نابغۂ روزگار شخصیات میں سے ایک ہے، جن کی کتاب زندگی کا ہر ورق، حیات فانی کا ہر لمحہ، زبان سے نکلنے والا ہر جملہ اور جسم سے ادا ہونے والا ہر عمل احیاء اسلام وترویج دین کا ترجمان اور بقاء شریعت کانگہبان ہوتاہے اوردنیائے فانی میں جن کی ذات کا وجود ہی نئی نسل اورپوری انسانیت کے ایمان کی آبیاری کا ضامن ہوتا ہے،بلا افراط وتفریط حضرت مولانا کی شخصیت بیسوی صدی کی ایک عظیم شخصیت تھی، ایک مرتبہ انہیں پشارومیں ایک سیرت کے جلسے میں تقریر کرنی تھی، پہلے دن تقریر کی جو جمی نہیں، فرماتے ہیں ’’مجھے بھی اپنی تقریر کے نہ جمنے کااحساس تھا، قیام گاہ پر آیاتو دعا کی ایک اضطراری کیفیت طاری ہوئی جو اکثر رنگ لاتی ہے، میں نے خدا کے سامنے اپنے عجزونااہلیت کا اقرار کرتے ہوئے مدد کی دعا کی، دوسرے دن کا جلسہ اصل جلسہ تھا، سردار عبدالرب بھی تشریف فرماتھے۔ ۔۔مجھے معلوم نہیں کہ اس وقت مضامین کا ورود کہاں سے ہورہا تھا اور زبان میں طاقت کہاں سے آگئی تھی کہ میں خود بھی اس کے زور میں بہہ رہا تھا اور مجمع بھی مسرت وسرشار تھا، دیکھنے والوں نے بتایاکہ عبدالرب نشتر چہرہ پر رومال رکھے ہوئے تھے اور آنکھ سے آنسو جاری تھے، تقریر ختم ہوئی تو بہت سے پٹھان اٹھ کر سامنے آئے اور کہا کہ کیا حکم ہے؟’’۔

جلوۂ ماہتاب اور جذبۂ سیماب اور معجز نما قلم رکھنے والی عظیم شخصیت حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ ’’الہلال‘‘اخبار میں لکھتے، پڑھنے والوں میں زندگی دوڑادیتے،جن کی قلم میں بلا کی تاثیر تھی، جو فکر ووجدان کی تاریک راہوں کو روشن کردیتی اور بھٹکے ہوئے آہوں کو سوئے حرم کا پتہ دیتی اورآپ کے دل میں امت مسلمہ کے تئیں ایک عجیب قسم کی بے چینی وبے قراری، دردمندی ودلسوزی اور ایسا شعلۂ ایمانی موجزن تھا،جس میں عشق وعمل کی روح کے ساتھ خون جگر کی آمیزش کارفرماتھی،مجاہدین بلقان کے کارناموں پر مولاناکا قلم آج بھی دل کو ایک ولولۂ تازہ بخشتا ہے، مولانا کا بلند اسلوب،معیاری اور تعمیری ادبی زبان اپنی جگہ لیکن آپ کے قلم کی تاثیر کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ جو کچھ لکھتے، خلوص میں ڈوب کر لکھتے، بلقان کے ایک مجاہد نے اپنی بیوی کے نام ایک ایمان افروز اور لولہ انگیز خط لکھا تھا، مولانا نے اس کا اردو ترجمہ کیا اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ یہ ترجمہ چوتھی بار کیا ہے، پہلی بار ترجمہ کرتے ہوئے آنسوؤں کا ایسا سیلاب امنڈ آتاکہ مسودہ بھیگ کر روشنائی بہہ جاتی، چوتھی بار بڑے ضبط کے بعد یہ ترجمہ مکمل ہوا۔۔۔(دونوں قصے ماخوذ:کرنیں :۱۰۱)

آپ اندازہ لگایئے کہ جب لکھنے والے کی کی کیفیت کا یہ عالم ہوگا تو پڑھنے والے پر اس کااثر کیوں کر نہ پڑے گااور ان کا ایک ایک لفظ قلب مضطر کے ساز کو کیوں نہ چھیڑے گا اورقطرہائے گہر موتیاں بن کرکیوں نہ صدف دل میں جاگزیں ہوگااورجن کی مخلصانہ تحریرسے عشق ووفا کی سر مدی زمزموں کی صدائے باز گشت کیوں نہ چہار سو گونجے گی،فارسی کا مقولہ ہے ’’از دل خیز بردل ریزد‘‘دل سے نکلنے والی بات دل پر جالگتی ہے۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں، طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

آج عقل وادیٔ حیرت میں سرگرداں ہے کہ سپیدۂ سحر نمودار ہوتے ہی لفظوں کی تک بندی پر مشتمل مضامین وبیانات کاطوفان بلا خیز نگاہوں کو خیرہ کرنے لگتا ہے، جن میں خلوص کی برکھا اور جذبے کی حرارت سے خالی صرف الفاظ کی فسوں کاری کااثرچھایا ہواہوتا ہے، جس کا ہر لفظ خون جگر کے بغیرجذبہ ٔ دوام پانے کا خواہش مند اور زمین کی پستیوں سے ابھر کر مہر وماہ کی بلندیوں پر آشیانہ بنانے کا متمنی نظر آتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محرر کا قلم اور مقرر کی زباں خود پسندی اور مفادپرستی کی باد سموم سے جھلستی چلی جارہی ہے اور غیر شعوری طورپر مرد مؤمن ظاہری شکست سے دوچار ہوتا جارہا ہے، خواہشات نفسانی اور ستم ہائے شیطانی کے خار سے زندگیاں تار تار ہورہی ہیں اور جس وقت آبلہ پائی کے بجائے قدم صرف سدا پھولوں کی سیج پر گل افشانی کا لطف لے اور ناکامیوں کے بجائے جہادزندگانی کو صرف کامیابیوں ہی کی سوغات ملے اور جذبات شوق ہمالہ کی چوٹیوں کو سر کرنے کے لئے تقریر وتحریر میں صرف انوکھے الفاظ، عجیب جملے اور دلچسپ تک بندی کارفرماہوتو ایسی تقریر وتحریر برگ ریز تو ہوسکتی ہے، بارآور نہیں، جگر مرحوم نے کہا تھا

واعظ کا ہر اک ارشاد بجا، تقریر بہت دلچسپ مگر      

آنکھوں میں سرور عشق نہیں، چہرے پہ یقیں کا نور نہیں

مذکورہ باتوں سے آپ کے حاشیہ خیال میں یہ بات تک نہیں آنی چاہئے کہ یہ مضمون الفاظ کی گرم بازاری پر مشتمل ہے، نہیں !ہر گز نہیں، یہ کوئی جذباتی لفظوں کی ہیراپھیری یا انشاپردازی کا بے حقیقت غلغلہ ہرگز نہیں، بلکہ دلوں کو گرمانے اور روح کو وجد میں لانے والے یقین وثبات کے واقعات تاریخ انسانیت کے کشادہ سینہ اورعصر حاضر کے افق پر بکھرے پڑے ہیں، اس کا انکارگویا حقیقت کا انکار ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ قلم وزباں کے ماہر شناور خلوص وللہیت سے اپنے قلوب مزین کریں اور ایسی ضرب کلیمی پیدا کریں جس سے ظلمتوں کا سینہ چیر کر صبح نو کا نورانی چہرہ دنیا کو دکھائیں اور پستی کی شکارپرواز کوبلندی کی راہ دکھائیں، نگاہوں سے کوتاہی کے پردے ہٹاکر وسعت کونین میں چھاجانے والی فضا قائم کریں اور قول وعمل، تحریر وتقریر کو پاکیزہ اخلاق کے کوثر میں دھوکر ایسا مصفی ومجلی کردیں کہ چاند سورج کی آنکھیں بھی اس کی بلاخیزتاثیر اور جمال جہاں آراکے آگے خیرہ ہوکر رہ جائیں، اس کا بہترین نسخہ ٔ کیمیا حضرت مولانا شبیر احمدعثمانی ؒ کے دامن علم میں ہمیں ملتا ہے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ حق بات،حق طریقے اور حق نیت سے کہی جائے، کبھی بے اثر نہیں جاتی، بات اثر نہ کرے تو سمجھ لیجئے، ان تین میں سے کسی ایک میں جھول ہے یا بات حق نہیں یا طریقہ اور کہنے کا اسلوب مناسب نہیں اور یا پھر نیت میں اخلاص کی بجائے فتور ہے۔

توآئیے عزم مصمم کرتے ہیں اور ان نازک حالات جس میں شاخ گل کا ایک ایک پتہ بوسیدہ ہوکر خزاں نصیب ہواؤں کی نذرہوتاجارہاہے، زبان وقلم کو خلوص وللہیت کا لبادہ زیب تن کرتے ہوئے چشمۂ ایمانی سے سیراب کرتے ہیں اورتعفن زدہ ماحول وگناہو ں کے ظلمت کدوں میں جذبۂ ایمانی کی شمع فروازاں کرتے ہیں اور اس کشت ویراں میں ستارے بو کر آفتاب وماہتاب اگانے کی کوشش کرتے ہیں، اللہ ہمیں عمل کی توفیق سے نوازے۔

تبصرے بند ہیں۔