حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ آپؐ کی تجہیز و تدفین کے وقت کہاں تھے؟

آصف علی

آپ نے اکثر سنا ھوگا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی وفات ھوئی تو ساری زندگی آپ سے محبت و عشق کا دعو’ی کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما آپ کی تجہیز و تدفین کے وقت کہاں تھے؟
کیا یہی ان کے عشق کی حقیقت ھے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کا ابھی جنازہ بھی نہ پڑھا گیا اور تدفین بھی باقی ھے مگر انہیں چھوڑ کر خلافت کے حصول کی خاطر سقیفہ بنو ساعدہ چلے گئے؟

یہ ایک ایسا سوال اور الزام ھے جو بہت سی غلط فہمیوں پر مشتمل ھے اور جس کی وجہ سے میں نے کئی سنی احباب کو بھی سرسری معلومات کی بنا پر پریشان اور گومگو حالت میں دیکھا ھے.. اس لیے حقائق کی روشنی میں اس سوال اور الزام کا جائزہ لینے کی ضرورت ھے..

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کے اجتماعی نظام کے متعلق یہ فیصلہ کردیا ھے کہ ان کے معاملات باھمی مشورے سے طے ھوتے ھیں .. ارشاد باری تعالیٰ ھے..

"اور ان کا نظام باھمی مشورے پر مبنی ھے.. ” (شوریٰ 42:38)

قرآنِ پاک کا یہ حکم عرب کے اُس قبائلی معاشرہ میں اترا جس میں نہ کسی اجتماعی ریاست کا تصور تھا اور نہ کسی واحد حاکمِ اعلیٰ کی کوئی تاریخ ھی پائی جاتی تھی.. اسلام سے قبل ھر قبیلے کا اپنا سردار ھوتا جو اس کے معاملات چلاتا تھا.. عرب میں کوئی باقاعدہ ریاست تھی اور نہ اس کا کوئی مستقل حکمران تھا.. حتیٰ کہ مکہ کے مرکزی شہر میں بھی کوئی حکمران نہ تھا.. وھاں بمشکل تمام ایک ڈھیلا ڈھالا نظمِ اجتماعی تھا جس میں قبائلی سردار کسی اجتماعی مسئلے پر اکٹھے ھوجاتے اور مل جل کر کوئی فیصلہ کر لیتے.. ایسے میں اسلام کا ظہور ھوا.. ھجرت کے بعد مدینہ کی ریاست وجود میں آئی.. حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم فطری طور پر اس ریاست کے حکمران تھے.. 8 ھجری تک یہ ریاست صرف مدینہ اور اس کے اطراف تک محدود تھی.. پھر فتحِ مکہ کے بعد صرف تین برس میں یہ ریاست پورے عرب میں پھیل گئی.. یہ وہ عرب تھا جہاں انتشار و اختلاف کے شکار قبائل اور طرح طرح کی عصبیتیں موجود تھیں اور جو پہلی دفعہ کسی ایک حکمران کے ماتحت اکٹھا ھوا تھا مگر لوگوں کا حضور پاک پر بحیثیت "رسول اللہ” ایمان اور حضور پاک کا سب سے برتر قبیلے یعنی قریش سے تعلق وہ چیز تھا جس نے عرب میں یہ سیاسی انقلاب برپا کردیا تاھم حقیقت یہ تھی کہ نئے ایمان لانے والے قبائل ابھی تک اس پورے نظام کے عادی نہیں ھوئے تھے..

اپنے آخری وقت میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کو اس صورتحال کا مکمل اندازہ تھا چنانچہ آپ کو جب اندازہ ھو گیا کہ رخصت کا وقت قریب ھے تو آپ نے اپنی وفات سے پانچ دن قبل مسجدِ نبوی میں آخری خطبہ دیا.. اس خطبے میں آپ نے مسلمانوں کو آخری وصیتیں کیں مگر سیاسی حکمرانی کے عملی طریقے کے بارے میں کوئی رھنمائی نہیں کی.. البتہ اُس شخص کی طرف اشارہ کردیا جو آپ کی نظر میں اس منصب کا سب سے بڑھ کر اھل تھا چنانچہ اس موقع پر آپ نے دین اور اپنی رفاقت کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمات گنوائیں اور حکم دیا کہ مسجد نبوی میں ان کے دروازے کے سوا ھر دروازہ بند کردیا جائے.. (متفق علیہ)

اگلے دن سے اپنی جگہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی کی امامت سونپ کر اپنا منشا لوگوں پر مزید واضح کردیا.. (متفق علیہ)

چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی حیاتِ طیبہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سترہ نمازیں پڑھائیں جن کا سلسلہ شبِ جمعہ کی نمازِ عشاء سے شروع ھو کر 12/ربیع الاوّل دوشنبہ کی نمازِ فجر پر ختم ھوتا ھے..

چار دن بعد پیر کے دن ظہر سے قبل حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کا وصال ھو گیا.. مسلمانوں پر اپنے محبوب نبی کے رخصت ھونے کا انتہائی شدید صدمہ تھا مگر اس کے ساتھ دوسری تلخ حقیقت یہ تھی کہ قبائلی عصبیت سے بھرپور عرب کی نئی ریاست میں حکمرانی کا منصب خالی ھو چکا تھا اور کسی جانشین کا ابھی تک تعین نہیں ھوا تھا.. چنانچہ وھی ھوا جو اس پس منظر میں متوقع تھا.. انصار کے بعض لوگ حضور کی جانشینی کے مسئلے پر گفتگو کرنے کے لیے سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ھوئے.. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کے اس ارادے کی بروقت خبر ھوگئی..

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو بلاشک و شبہ اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر تھے’ ان سے اس موقع پر اگر معمولی سی بھی کوتاھی ھو جاتی تو اسلام کی تاریخ بننے سے پہلے ھی ختم ھوجاتی.. ان حالات میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے انتقال کی خبر سن کر سیدھے مسجد نبوی تشریف لائے اور ان شاندار الفاظ سے مسلمانوں کا حوصلہ بلند کیا..

"جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ ان کا انتقال ھو گیا ھے.. اور جو اللہ کی عبادت کرتا ھے تو وہ جان لے کہ اللہ ھمیشہ زندہ رھنے والا ھے کبھی نہیں مرے گا..”(بخاری 640/2641)

ان پر یہ ذمہ داری بھی آن پڑی کہ وہ مسلمانوں کی رھنمائی کریں .. اب یہ ایک عام قاعدہ ھے کہ کسی کا انتقال ھوجائے تو اس کے انتقال کے بعد جملہ انتظامات مرنے والے کے گھروالے یا خاندانی رشتہ دار ھی کے ذمہ ھوتے ھیں .. چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سمیت بنو ھاشم سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرام کے لیے یہ دوھرا المناک واقعہ تھا کہ ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم تمام صحابہ کرام کی طرح ان کے محبوب نبی تو تھے ھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم سے بنو ھاشم کا بہت قریبی خون کی رشتہ بھی تھا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے انتقال کے بعد اسی دنیاوی قاعدہ کے مطابق سب انتظامات خاندان بنو ھاشم نے سنبھال لیے..

دوسری طرف یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ھے کہ کسی عام انسان کی وفات نہیں ھوئی تھی کہ غسل اور نماز جنازہ سمیت سب کچھ چٹ پٹ ھوجاتا اور تدفین بھی ھوجاتی.. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بخوبی جانتے تھے کہ یہ سارا عمل بہت وقت لے گا (اور ھوا بھی ایسے).. چنانچہ جیسے ھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو انصار کے "سقیفہ بنو ساعدہ” میں اکٹھا ھونے کی خبر ملی تو انہوں نے اپنی بصیرت قلبی سے فورا” بھانپ لیا کہ اگر وہ وقت پر وھاں نہ پہنچے تو ایسے فتنے پھوٹ سکتے ھیں جو مستقبل میں دین اسلام اور مسلمانوں ‘ دونوں کے لیے تباہ کن ثابت ھوتے.. اس لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہما جیسے اھم قریشی سرداروں کو ساتھ لے کر سقیفہ بنو ساعدہ انصار کے ھاں پہنچ گئے اور ایک طویل بحث و گفتگو کے بعد حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے بعض ارشادات کی روشنی میں انصار کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ھوگئے کہ خلیفہ قریش میں سے ھونا چاھیے.. اس کے بعد ھر شخص کو معلوم تھا کہ قریشی مسلمانوں میں سب سے بڑا لیڈر کون ھے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا نام تجویز کیا جسے سب نے فوراً تسلیم کر لیا.. یوں ریاستِ مدینہ میں انتشار کا خطرہ ٹل گیا مگر اس پورے عمل میں پیر کے دن کی رات ھوگئی..

اگلے دن منگل کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دیگر قریبی اعزا نے غسل دیا.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی قبر مبارک آپ کی وفات کی جگہ پر ہی بنائی گئی تھی اس لیے تدفین اور نمازِ جنازہ کے لیے کہیں اور جانے کا سوال نہیں تھا..

یہاں ایک بات کی تفصیلی وضاحت کی بھی ضرورت ھے.. اکثر لوگ سمجھتے ھیں کہ جیسے عام طور پر نماز جنازہ ادا کی جاتی ھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی نماز جنازہ بھی یونہی ادا کی گئی ھوگی جس میں حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما سقیفہ بنو ساعدہ کی طرف چلے جانے کی وجہ سے شرکت نہ کرسکے ھوں گے.. ایسا کچھ بھی نہیں ھے.. حقیقت یہ ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی باقائدہ ایک ھی بار نماز جنازہ ادا ھی نہیں کی گئی..

ھوا یوں کہ فرمان نبوی کی روشنی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ شریف میں ھی جس بستر پر آپ کی وفات ھوئی’ اس بستر کو ھٹا کر اسی جگہ قبر تیار کی گئی.. غسل و تکفین کے بعد آپ کے جنازہ شریف کو وھیں قبر کے کنارے رکھ دیا گیا.. صحابہ گروہ در گروہ حجرہ شریف میں آتے اور نماز جنازہ پڑھ کر باھر نکل جاتے.. کوئی کسی کی امامت نہ کرتا تھا.. الگ الگ بغیر امام کے نماز پڑھی گئی.. ایک روایت یہ بھی ھے کہ آپ پر نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی بلکہ صحابہ حجرہ شریف میں داخل ھوتے ‘ درود و سلام اور دعا پڑھ کر باھر آجاتے.. سب صحابہ کی طرح حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے بھی اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی نماز جنازہ ادا کی.. اس عمل میں منگل کا پورا دن گزرگیا اور بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی تدفین عمل میں آئی..

غور کیجیے کہ صحابہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی وفات کے وقت سنبھالنے والے ‘ سقیفہ بنو ساعدہ میں مسلمانوں کے متوقع انتشار کا بروقت قلعہ قمع کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی ساری زندگی کی جدوجہد کو ضائع ھوجانے سے بچانے والے’ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی قبر مبارک کی جگہ کا تعین کرنے والے’ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی نماز جنازہ پڑھنے اور اس کا طریقہ بتانے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ..!! تو ایسے میں بغض صحابہ سے لتھڑے یہ الزام کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ‘ سواۓ ان کے خبث باطن کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ھے..

یہ ھے وہ بات جس کا افسانہ بنا کر صحابہ کرام سے جلنے والے ‘ اس کے نبی اور ان کے بہترین پیروکاروں کے بارے میں ایسے سوالات پیدا کر دیتے ھیں جن کی بنا پر نئی نسل اسلام سے بدظن ھوجاتی ھے اور غیرمسلموں کو ھمارا مذاق اڑانے کا موقع مل جاتا ھے جبکہ ھر صاحب علم یہ بات جانتا ھے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی زمانے میں خلافت کے قیام اور مہاجرین و انصار اور قریشِ مکہ کی بھرپور تائید کے باوجود عرب میں ایک زبردست بغاوت رونما ھوئی.. اندازہ کیجیے کہ اگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے انتقال کے وقت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما فوری فیصلہ کرکے نزاع کو ابتدا ھی میں ختم نہ کرتے اور اھل مدینہ میں باھمی انتشار پیدا ھوجاتا تو مسلمانوں کا کیا انجام ھوتا..؟

یہ جو کچھ تحریر کیا گیا ھے اس کی تائید سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اپنے طرز عمل سے بھی ھوتی ھے.. صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہ ھونے کی بنا پر انھیں ابتدا میں یہ شکایت تھی کہ مجھے مشورے میں کیوں شریک نہیں کیا گیا مگر جب ان پر معاملہ واضح ھو گیا تو انھوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت میں تاخیر نہیں کی.. پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے پورے دورِ حکومت میں انھوں نے بھرپور طریقے سے ان حضرات کی معاونت کی اور ھمیشہ ان کے قریب ترین مشیر رھے اور ان دونوں نے بھی ھر معاملے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے کو مقدم رکھا..

بلاشبہ صحابہ کرام وہ لوگ ھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کی رفاقت کا حق اس طرح ادا کیا کہ قرآنِ مجید نے بھی جگہ جگہ ان کے اخلاص اور قربانی کی گواہی دی ھے.. قرآنِ کریم کی اس گواھی کے بعد ان لوگوں کی صداقت کے لیے کسی اور گواھی کی ضرورت نہیں۔

تبصرے بند ہیں۔