حوادثاتِ زمانہ سے عبرت حاصل کرنا مومن کی نشانی 

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

عقل مند وہ ہتا ہے جو غیروں کے خطرناک انجام سے عبرت حاصل کرکے اپنے کردار میں تبدیلی و سدھار لائے اور جو لوگ حوادثات زمانہ سے کچھ نہیں سیکھتے وہ مستقبل میں خود ہی عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔ ہندوستان کی جنوبی ریاست کیرالا میں بدترین سیلاب، طوفانی بارش، طغیانی، ڈیموں سے پانی اخراج، مکانات اور تودے گرنے گرنے سے جو تباہی و بربادی ہوئی ہے اس کی ماضی قریب میں کوئی نظیر نہیں ملتی جسے بجا طور پر صدی کا بدترین اور خوفناک سیلاب کہا جاسکتا ہے۔جانی اتلاف، مالی خسارے کے ساتھ ہزاروں ایکڑ اراضی پر محیط فصلیں تباہ ہوگئیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ سیلانی ریلوں اور لینڈ سلائیڈنگ سے 12 اضلاح صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ علاوہ ازیں اترپردیش، مغربی بنگال، مہاراشٹرا، گجرات، آسام میں بھی بارش کی وجہ سے جانی اتلاف اور مالی خسارہ ہوا ہے۔

سائنسی ایجادات و اختراعات کے اس عدیم النظیر دور میں بھی چند گھنٹوں کی بارش نے ہندوستان کی ریاستوں کو جن اندوہناک صورتحال سے دوچار کردیا ہے اس میں اہل عقل و دانش کے لیے رب قدیر کی عظیم نشانیاں ہیں عبرت اور سبق آموزی کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ انسان دنیاپرستی، نفس پرستی اور ہوس پرستی چھوڑ کر خالق کونین اور حبیب داؤرﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنے اوپر لازم کرلے۔ اور عقل کا چراغ بجھ جانے کے سبب جن لوگوں کوقیامت صغری جیسے سنگین حالات و واقعات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود محاسبہ نفس نہیں کرتے قرآن مجید ان کا شمار حیوانوں میں کرتا ہے ارشاد رب کائنات ہوتا ہے ترجمہ:’’نہیں ہیں یہ مگر ڈنگروں کی مانند، بلکہ یہ تو ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں‘‘ (سورۃ الفرقان آیت 44)۔

دنیاوی مشکلات و مصائب اور سخت آزمائشوں سے عبرت حاصل نہ کرنے سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور آنکھوں پر غفلت کے دبیز پردے پڑ جاتے ہیں اور جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں وہ اپنی زندگی کے لائحہ عمل میں مناسب تبدیلی لاکر اپنے آپ کو دنیا و آخرت کی ناکامیوں سے بچالینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں آئے عظیم سانحات کا مشاہدہ کرنے کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ ہم بحیثیت مسلمان ہم غور و فکر کرتے، نفس کا محاسبہ کرتے، کثرت سے توبہ و استغفار کرتے، رجوع الی اللہ ہونے کی حتی المقدور سعی کرتے اور اپنے کردار میں اسلامی تعلیمات کے مطابق تبدیلی لانے کی بھرپور کوشش کرتے لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔

ہم اپنی پرانی روش پر گامزن ہے۔ اگر ہماری زندگی میں کوئی تبدیلی آئی ہوتی تو ہم جہیز کا مطالبہ نہ کرتے، فضول خرچی میں مبتلا نہ ہوتے، مذہبی لبادہ اوڑھ کر معصوم لوگوں کے ایمان اور عقیدے سے کھلواڑ نہ کرتے، جھوٹے مقدمات سے دستبردار ہوجاتے، مظلوم کے حقوق ادا کردیتے، بے راہ روی سے تائب ہوجاتے۔ کیرالا میں آئی قیامت صغریٰ کے بعد بھی ہم اسلامی تعلیمات سے دور ہیں، گمراہیوں کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں، دنیا پرستی و نفس پرستی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ کیرالا میں آئی اس ہلاکت خیز تباہی پر یقیناًہمارے دل مغموم ہیں اور ہم مہلوکین کے افراد خاندان سے اظہار ہمدردی کررہے ہیں، متاثرین کی مالی امداد و تعاون کے لیے آگے آرہے ہیں جو یقیناًقابل تقلید اقدامات ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان آفات سماوی سے عبرت حاصل کرتے ہوئے اپنے کردار میں بھی تبدیلی لانی چاہئے تھی جو ان واقعات کا بنیادی تقاضہ تھا۔ گردشِ ایام سے عبرت حاصل کرنا اسی وقت ممکن ہے جب انسان ریاست کیرالا میں ہونے والی بھیانک تباہ کاریوں کا بنگاہ عبرت مشاہدہ کرے گا۔ تب اسے نہ صرف اپنی حقیقت کا اندازہ ہوگا بلکہ اسے خدائے متعال کی بے پناہ کبریائی اور قدرت کے سامنے اپنی مغلوبیت کا شدید احساس بھی ہوگا اس طرح اس کے دل میں خشوع و خضوع پیدا ہوگا اور وہ دنیا و وما فیہا کی محبت سے نکل کر خالق کونین اور اس کے حبیب پاکﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی طرف مائل ہوگا۔

حوادثات زمانہ کے غمناک مناظراور دل دہلا دینے والے واقعات کا مقصد انسان کو متنبہ و بیدار کرنا اور غفلت سے نکال کر آخرت کی طرف متوجہ کرنا ہے اور یہ مقصداسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب انسان کی فطرت سلیم، کردار شفاف، فکر پاکیزہ اور دل نرم ہوچونکہ یہ وہ شیوہ عمل ہے جو انسان کی تقدیر کو بدلنے میں انتہائی ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔ کچھ سال پہلے تک جب ہم کسی حادثہ کا مشاہدہ کرلیتے تو غم و اندوہ کی عملی تصویر بن جاتے تھے اور ہماری روح کانپ اٹھتی تھی مثلاًکسی کے گھر میں طلاق کا واقع سنتے تو کئی دن تک ہمارے گھروں میں غم کا ماحول ہوتا تھا لیکن اب طلاق کے واقعات ہماری زندگی کا معمول بن گئے ہیں۔ کیرالا کے سیلاب نے عملی طور پر واضح کردیا کہ دنیا بے ثبات اور ناپائیدار ہے جو لوگ دنیوی اغراض و مقاصد کے لیے طلاق کا غلط استعمال کررہے ہیں انہیں اس بارے میں سونچنا چاہیے۔ کیرالا کے دل دہلادینے والے سیلاب کا مشاہدہ کرنے کے باوجود مسلم معاشرے میں طلاق کی شرح میں کمی واقع نہ ہو تو ہمارے لیے اس سے بڑی بدبختی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟

کیرالا کے سیلاب نے خوبصورت اور دلکش مکانات اور عمارتوں کو تاش کے پتوں کی طرح بکھیر دیا۔ یہ ان لوگوں کے لیے درس عبرت ہے جو رشوت حاصل کرکے اپنے آشیانے تعمیر کرتے ہیں۔ بڑے افسوس کے ساتھ اس حقیقت کو واضح کرنا پڑ رہا ہے کہ مسلم معاشرہ کی اکثریت دنیوی مفادات میں اس قدر غرق ہوچکی ہے کہ اب ہلاکت خیز حوادثات کو دیکھ کر بھی ہمارے ماتھے پر شکن نہیں آتی ہے جو ہماری غفلت اور سنگدلی کا اظہار ہے۔ ورنہ قوتِ احساس اور زندہ ضمیری کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ہم بلا تاخیر توبہ و استغفار کرتے ہوئے رجوع الی اللہ ہونے کی حتی الوسع کوشش کرتے۔ جو لوگ حوادثاتِ زمانہ سے سبق حاصل نہیں کرتے قرآن مجید انہیں نابینا قرار دیتا ہے۔ انسانی تاریخ عبرت کا بہت وسیع و عریض مرقع ہے جس میں انسان کی رشد و ہدایت کے بے شمار نصیحت آموز اسباق پنہاں ہیں۔

قرآن مجید میں عبرت آموز ی کا کثرت سے استعمال کیا گیا۔ قرآن مجید کے ایک چوتھائی حصہ میں امم سابقہ کے قصص اور واقعات کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے چونکہ ان میں ہمارے لیے نصیحت آموز اسباق ہیں اسی لیے قرآن مجید میں متعدد بار ہمیں درسِ عبرت حاصل کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ان اقوام و ملل کے عبرتناک انجام سے وہی درس عبرت حاصل کرسکتے ہیں جن کے پاس دیدۂ عبرت نگاہ ہوتی ہے اور جو ماضی کے تلخ حقائق کو مستقبل کا آئینہ بنالیتے ہیں۔ جب چرواہا بکریوں کے ریوڑ کی نگرانی کرتا ہے اور ریوڑ سے باہر جانے والی بکری کو لکڑی سے مارتا ہے تو دیگر بکریاں اس سے عبرت پکڑتی ہیں اور خود بہ خود صف میں آجاتی ہیں چونکہ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ اگر ہم سے بھی اسی طرح کی خطا ہوگی تو ہمیں بھی وہی سزا ملے گی۔

مقام افسوس ہے کہ جانور اپنے انجام سے خائف ہوکر عبرت پکڑتے ہیں لیکن انسان جو اشرف المخلوقات ہوکر بھی اگر حوادثاتِ زمانہ سے عبرت نہ پکڑے تو کس قدر معیوب بات ہے اسی لیے قرآن مجید نے ایسے لوگوں کو جانور سے بدتر قرار دیا ہے۔ ہم تو قرآن مجید کو ماننے والے ہیں اور قرآن مجید نے مسلمانوں کی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ اہل نظر ہوتے ہیں، چشم بصیرت کے حامل ہوتے ہیں، حقائق کو صحیح انداز میں دیکھتے ہیں،تغیرات زندگی سے سبق حاصل کرتے ہیں اور احساس ذمہ داری کو دل میں جگہ دیتے ہیں لہٰذا کیرالا کے سیلاب میں مسلمانوں کے لیے عظیم درس عبرت ہے جس کا بنیادی تقاضہ نہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنے کردار کو سنواریں بلکہ خیرخواہانہ انداز میں اغیار کو بھی دعوت فکر و عمل دیں۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین

تبصرے بند ہیں۔