شیطان انسان کا دشمن ہے اور انسان شیطان کا

 عبدالعزیز

سورہ بقرہ کی دس آیتوں (یعنی 30تا 39) میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر انسان، ابلیس (شیطان) اور فرشتوں کا مقام و مرتبہ بیان کیا ہے۔انسان اور شیطان کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ زمین پر ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ یہ بات آسانی سے انسان کی سمجھ میں آجاتی ہے؛ کیونکہ انسان جانتا ہے کہ شیطان انسان کو اللہ کی فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی کے راستے پر ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا لیکن دوسری بات کہ انسان بھی شیطان کا دشمن ہے بہت کم سمجھ میں آتی ہے ؛ حالانکہ انسانیت تو اس سے دشمنی ہی کی مقتضی ہے لیکن خواہشات نفس کیلئے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے اس سے دھوکہ کھاکر انسان اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اس طرح کی دوستی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقتاً دشمنی دوستی میں تبدیل ہوگئی بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک دشمن دوسرے دشمن سے شکست کھاگیا اور اس کے جال میں پھنس گیا۔ اگر انسان اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوکہ شیطان اس کا کھلا دشمن ہے اور وہ شیطان کا کھلا دشمن ہے تو انسان کو شیطان یا شیطان نما انسان اپنے جال میں ہر گز نہیں پھنسا سکتا۔

  مفسر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی نے سورہ بقرہ کی متذکرہ آیتوں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’اس دنیا میں انسان کا اصلی مرتبہ و مقام کیا ہے؟ انسان اس دنیا میں خود مختار و مطلق العنان ہے یا پابند و محکوم؟ مسئول ہے یا غیر مسئول؟ مجبور ہے یا با اختیار؟ اس کو کسی نے اس دنیا میں بھیجا ہے یا وہ خود بخود اس میں در آیا ہے؟ اس کا وجود محض ایک انفرادی وجود ہے یا وہ اپنی کوئی اجتماعی ہستی بھی رکھتا ہے؟ اس کی رہنمائی کیلئے اس کی اپنی ہی عقل و فہم کافی ہے یا اس کے علاوہ وہ کسی اور مافوق رہنمائی کا محتاج ہے؟ اس کائنات کے دوسرے عناصر کے ساتھ اس کے ربط کی نوعیت کیا ہے؟ یہ اپنی فطرت کے لحاظ سے بدی کی مخلوق یا نیکی کی؟ اس کے اندر جو بدی پائی جاتی ہے اس کا سرچشمہ کیا ہے؟ غرض اس طرح کے بہت سے بنیادی سوالات ہیں جن کے جواب ان آیات کے اندر موجود ہیں ۔ اب ہم ایک مناسب ترتیب کے ساتھ ان کو واضح کرنا چاہتے ہیں ۔

خلافت اور ان کے مقتضیات:

ان آیات سے پہلی حقیقت تو یہ واضح ہوتی ہے کہ انسان کی حیثیت اس دنیا میں خدا کے خلیفہ اور نائب کی ہے۔ یہ بات قرآن مجید کے الفاظ میں نہایت واضح طور پر کہی گئی ہے۔ اس خلافت و نیابت کی حقیقت پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اس کے کچھ لازمی تقاضے ہیں جن کے پورے ہوئے بغیر خلافت کا تصور مکمل نہیں ہوسکتا۔ ہمارے نزدیک یہ تقاضے بالاجمال یہ ہیں ۔

  ایک یہ کہ انسان کو ایک خاص دائرے کے اندر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار تفویض ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ذات خود ہر جگہ حاضر و ناظت ہو، جو ہر قسم کے تصرف پر خود پوری پوری قدرت رکھتی ہو، جو کسی کی مدد اور کسی کی اعانت کی محتاج نہ ہو، جس کو ایک پل کیلئے بھی اپنی مملکت کے امور و معاملات سے دستکش یا غیر حاضر ہونے کی ضرورت پیش نہ آتی ہو، اس کی طرف سے کسی کو اپنا خلیفہ یا نائب بنانے کے معنی اس کے سوا کچھ ہوہی نہیں سکتے کہ وہ اپنے خلیفہ کو کچھ اختیارات دے کر یہ امتحان کرنا چاہتی ہے کہ یہ ان اختیارات کو کس طرح استعمال کرتا ہے، ان کو اپنے مُسْتَخْلِفْ کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے یا اس کی مرضی سے بے پروا ہوکر اپنی من مانی کرنے لگ جاتا ہے۔

  دوسرا یہ کہ جب انسان خلیفہ اور نائب ہے تو یہ عین اس کی خلافت اورنیابت کا اقتضا ہے کہ مستخلف کی طرف سے اس کی آزادی کے حدود معین و معلوم ہوں ، اس کو واضح طور پر یہ بتا دیا گیا ہو کہ کن امور میں اس کو مستخلف کے مقرر کردہ حدود کی پابندی کرنی ہے اور کن امور میں اس کو اپنی صوابدید پر عمل کرنے کی آزادی بخشی گئی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کی تعبیر اگر کی جائے تو یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ عین خلافت و نیابت کی فطرت کا اقتضا ہے کہ انسان کی ہدایت و رہنمائی کیلئے خدا کی طرف سے شریعت و ہدایت نازل ہو۔

 تیسرا یہ کہ جب انسان خدا کا خلیفہ اور نائب ہے تو اس کے مطلق العنان اور غیر مسئول ہونے کا تصور بنیادی طور پر غلط ہے۔ کوئی صاحب قدرت اور علیم و خبیر مستخلف اپنے خلیفہ کو شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ سکتا۔ وہ لازماً اپنے خلیفہ کی ایک ایک بددیانتی اور ایک ایک خیانت پر اس سے مواخذہ بھی کرے گا اور اگر اس نے اپنے فرائض صحیح طور پر انجام دیئے ہوں گے تو اس کو اس کی خدمات کا بھرپور صلہ بھی دے گا۔

 چوتھا یہ کہ عین منصب خلافت کی فطرت کا تقاضا ہے کہ یہ منصب صفات کے ساتھ مشروط ہو۔ غیر مشروط نہ ہو؛ یعنی منشائے خلقت کے لحاظ سے تو یہ منصب تمام بنی نوع انسان کیلئے عام ہے۔ ہر انسان خدا کا خلیفہ ہے لیکن یہ اس منصب کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کے جائز حقدار وہی ہوں گے جو خدا کی خلافت کے حق کو وفاداری کے ساتھ ادا کریں ۔جو اس حق کو ادا نہ کرے وہ خدا کے خلیفہ نہیں بلکہ اس کے باغی اور غدار ہیں ۔

 پانچواں یہ کہ یہ منصب اپنے مزاج کے لحاظ سے صرف ایک انفرادی منصب نہیں ہے بلکہ ایک اجتماعی اور سیاسی منصب بھی ہے۔ تمام انسانوں کو یا کم از کم ان سارے لوگوں کو جو اس منصب کی ذمہ داریوں پر ایمان رکھتے ہیں ، انفرادی طور پر بھی اس منصب کے فرائض پورے کرنے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی اس کے مقاصد کو بروئے کار لانے کیلئے ایک نظام قائم کرنا ہے کیونکہ اس نظام کے بغیر اس کے مقاصد پورے نہیں ہوسکتے۔

چھٹا یہ کہ یہ خلافت خیر و فلاح کی ضامن اس وقت تک رہ سکتی ہے جب تک یہ اصل مستخلف کے احکام و ہدایات کے مطابق چلائی جائے۔ اگر اس کے احکام کو پس پشت ڈال کر انسان اس کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانے کی کوشش کرے گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس زمین میں خونریزی اور فساد برپا ہو۔

انسان کی برتری:

دوسری حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ انسان کو جب اللہ تعالیٰ نے یہ درجہ دیا ہے کہ فرشتوں نے اس کو سجدہ کیا اور ابلیس اس کو سجدہ نہ کرنے ہی کے سبب سے ملعون ہوا تو یہ بات کسی طرح اس کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ جنات یا فرشتوں میں سے کسی کو خدا کا شریک سمجھ کر ان کی پرستش کرے۔ جہاں تک خدا کا تعلق ہے اس کے آگے جس طرح انسان عاجز و بے بس ہے اسی طرح فرشتے اور جنات بھی عاجز و بے بس ہیں ۔ ان کے پاس جو علم ہے وہ بھی خود ان کا اپنا ذاتی نہیں بلکہ تمام تر اللہ تعالیٰ ہی کا عطا کردہ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انسان علم میں فرشتوں سے بھی بازی لے جاسکتا ہے اس وجہ سے بندگی اور پرستش کا حقیقی حق دار صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ انسان اگر اس حق میں جنوں اور فرشتوں کو بھی شریک کرتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی توہین نہیں کرتا بلکہ خود اپنی بھی توہین کرتا ہے۔

   گناہ کا سرچشمہ:

تیسری حقیقت ان آیات سے یہ واضح ہوتی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے کوئی مجرم اور فسادی وجود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو نہایت اچھی صلاحیتوں اور نہایت اعلیٰ قابلیتوں کے ساتھ پیدا کیا۔ یہ اگر گناہ میں مبتلا ہوتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ یہ کوئی ازلی و ابدی گناہ گنہگار ہے بلکہ اس کی یہ ہے کہ وہ اختیار کی اس نعمت کو جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو مشرف فرمایا ہے، غلط استعمال کرنے کے فتنہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس فتنہ میں اس کو شیطان مبتلا کرتا ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی وسیع آزادی پر جو چند پابندیاں عائد کر دی ہیں ، شیطان انسان کو ورغلاتا ہے کہ بس یہی پابندیاں ہیں جو اس کے سارے عیش و آرام کو کرکرا کئے ہوئے ہیں ۔ اگر وہ ان کو جرأت کرکے توڑ ڈالے تو بس اس کیلئے ترقی و کمال اور عیش و آرام کے تمام دروازے کھلے ہوئے ہیں ۔ شیطان کے ان مشوروں کا فائدہ چونکہ انسان کو نقد نظر آتا ہے اس وجہ سے وہ اس کے چکمے میں آجاتا ہے اور اپنی فطرت کے اعلیٰ تقاضوں کے خلاف گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

 اس گناہ سے اس کو پاک کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے توبہ اور اصلاح کی راہ کھولی ہے۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام سے جو لغزش صادر ہوئی اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ کے بعد وہ معاف کردی۔ اس کے بعد ان کو اس دنیا میں جو بھیجا تو اس کی وجہ حضرت آدمؑ کا معتوب ہونا نہیں ہے بلکہ محض ان کا امتحان ہے تاکہ وہ شیطان کے مقابل میں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا ثبوت دیں اور اس کے صلہ میں اس جنت کو پھر حاصل کریں جس سے وہ نکالے گئے۔

  قرآن مجید کے اس بیان سے عیسائیوں کے اس خیال کی پوری پوری تردید ہوجاتی ہے کہ جو آدم کے ازلی و ابدی گنہگار ہونے سے متعلق ان کے ہاں پایا جاتا ہے اور جس کے حل کیلئے انھوں نے کفارہ کا عقیدہ گھڑا ہے۔

 خدا کے ہر کام میں حکمت ہے:

چوتھی حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ خدا کی ہر بات کے اندر نہایت گہری حکمتیں اور مصلحتیں پوشیدہ ہوتی ہیں لیکن ان تمام حکمتوں اور مصلحتوں سے جب تک اللہ تعالیٰ ہی واقف نہ کرے نہ ان سے جنات واقف ہوسکتے ہیں نہ فرشتے اور نہ انسان۔ اللہ تعالیٰ کے کاموں کے بارے میں صحیح روش انسان کیلئے یہ ہے کہ ان کی حکمتیں معلوم کرنے کی کوشش تو برابر کرتا رہے لیکن اگر کسی چیز کی حکمت اس کی سمجھ میں نہ آئے تو اس کو ہدف اعتراض و مخالفت نہ بنالے بلکہ یہ حسن ظن رکھے کہ اس کے اندر ضرور کوئی نہ کوئی حکمت ہوگی لیکن اپنے علم کی کمی کے سبب سے وہ اس حکمت کو سمجھ نہیں سکا ہے۔ یہی روش اختیار کرکے انسان ایمان و اسلام کے جادہ پر استوار رہ سکتا ہے اور یہی روش فرشتوں کی روش ہے۔ رہے وہ لوگ جو اپنے نہایت قلیل اور محدود علم کو خدا کے علم اور اس کی حکمتوں کے ناپنے کا پیمانہ بنا بیٹھے ہیں تو وہ اسی قسم کی خود سری اور انانیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس قسم کی خود سری اور انانیت میں ابلیس مبتلا ہوگیا۔ اس طرح کے لوگوں کیلئے ایمان و معرفت کے راستے کھلتے نہیں بلکہ جو راستے کھلے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھی بند ہوجایا کرتے ہیں ۔

 آدم اور ابلیس کے گناہ میں فرق:

پانچوی حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ جو گناہ انسان کے محض ارادہ کی کمزوری سے صادر ہوتا ہے اس کا مزاج اس گناہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے جس کا سرچشمہ حسد اور تکبر ہوتا ہے۔ ضعفِ ارادہ سے صادر ہوجانے والے گناہ کے بعد تو بہ اور اصلاحِ حال کی توقع بہت غالب ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو، اگر وہ بالکل ہی اپنے آپ کو چھوڑ نہیں بیٹھتے ہیں ، سنبھالتا ہے اور ان کی رہنمائی صراط مستقیم کی طرف کرتا ہے۔ برعکس اس کے جو لوگ حسد اور تکبر کی بنا پر خدا کی نافرمانی کرتے ہیں ان کی بیماری بہت ہی سخت ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اصلاح پذیر ہونے کے بجائے بالعموم اپنے مرشد … ابلیس… ہی کی راہ پر جیتے اور اسی پر مرتے ہیں ۔ حضرت آدم علیہ السلام کا گناہ پہلی قسم کا تھا اس وجہ سے ان کو توبہ کی توفیق حاصل ہوئی اور ابلیس کا گناہ دوسری قسم کا، اس وجہ سے وہ توبہ اور اصلاح سے محروم رہا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوئی۔

  نبوت و رسالت کی ضرورت:

چھٹی حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو انسان کے بہکانے کی مہلت دے کر انسان کو اس دنیا میں ایک سخت امتحان میں ڈالا ہے، اس وجہ سے اس کی رحمت مقتضی ہوئی کہ وہ انسان کی ہدایت اور اصلاح کے معاملہ کو تنہا اس کی عقل و فطرت ہی پر نہ چھوڑے بلکہ اس کی فطرت کو بیدار رکھنے اور اس کی عقل کو کجرویوں اور گمراہیوں سے بچانے کا بھی سامان کرے تاکہ جو ہدایت کی راہ اختیار کرنا چاہیں وہ بھی علیٰ وجہ البصیرۃ اختیار کریں اور جو گمراہی کی راہ پر جانا چاہیں وہ بھی پوری طرح اتمام حجت کے بعد جائیں ۔ نبوت و رسالت و رسالت کے قیام سے اصل مقصود یہی چیز ہے اور اس امتحان گاہ عالم میں انسان کیلئے اصلی سرمایہ تسکین و تسلی و درحقیقت یہی انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات ہیں ۔ اگر یہ چیز انسان سے چھن جائے تو پھر انسان ہر فتنہ کا بڑی آسانی سے شکار ہوسکتا ہے، کیونکہ اس کی فطرت کے اندر جو خلا ہیں وہ صرف انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کی پیروی سے ہی بھر سکتے ہیں ۔ اس کے بغیر انسان کیلئے شیطان کے فتنوں سے مامون ہونا ممکن نہیں ہے‘‘۔

تبصرے بند ہیں۔